یہ گیت چار پانچ دہائیاں قبل لکھا گیا تھا مگر جتنا آج ہمارے معاشرے پر چُست ہوتا ہے اتنا اُن دنوں نہ تھا
محبتوں کے قدر داں ۔ نہ شہر میں نہ گاؤں میں
حقیقتوں کے پاسباں ۔ نہ شہر میں نہ گاؤں میں
کِیا کئے تمام عُمر ۔ ہم وفا کی آرزُو
ملے دِلوں کے راز داں ۔ نہ شہر میں نہ گاؤں میں
زمین و زر کے حُکمراں ۔ ملے ہمیں گلی گلی
مگر دِلوں کے حُکمراں ۔ نہ شہر میں نہ گاؤں میں
بَن کے جو صدائے دِل ۔ زندگی سنوار دے
وہ اِک نگاہِ مہرباں ۔ نہ شہر میں نہ گاؤں میں
واہ واہ کہا کہنے ۔۔۔ واقعی ایسا ہی ہے
سیما آفتاب صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
بی بی ۔ میں نے تو اس اپنے ہی دو لفظی کلام کے مطابق زندگی گذاری ہے
نَوکِیلے پَتھروں پہ چل کے کانٹوں میں راہ بناؤ
یہ تیری زندگی ہے اجمل کوئی کہکشاں نہیں ہے
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بہت مشکل راستہ چنا ہے آپ نے مگر بہترین منزل تک جاتا ہے : )
میں نے یہ غزل، کئی دن ہوئے گائی ہوئی سنی تھی۔
گاہے گاہے زہن میں رینگتی رہتی ہے مگر بعد تلاشِ بسیار بھی ملتی نہیں!
صالح شیخ، کراچی
Apr 10, 2017
صالح شیخ صاحب
خوش آمدید ۔ حوصلہ افزائی کا شکریہ