دنیا میں کئی لوگ آئے جنہوں نے خدائی تک کا دعوٰی کیا لیکن اُن کا نام و نشان مٹ گیا ۔ ہمیش زندہ رہتا ہے نام اُن کا جو زندگی اپنی قوم یا انسانیت کی بھلائی کیلئے وقف کر دیتے ہیں ۔ گو کہ وطنِ عزیز کے خودغرض حُکمرانوں کی ترجیحات کے نتیجہ میں نصابی کُتب میں سے معروف شاعرِ مشرق کے کلام کی جگہ نام نہاد ترقی پسند شعراء کا کلام داخل کر دیا گیا ۔ ایسے لوگ جن کے قول و فعل میں تضاد تھا ۔ اور جدیدیت کا شکار ہموطنوں نے بھی اُنہی شعراء کے قصیدے کہنے شروع کر دئیے ۔ اس سب کے باوجود جب تک یہ اللہ کا دیا ہوا مُلک پاکستان زندہ رہے گا اور اِن شاء اللہ زندہ رہے گا تب تک علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا نام بھی زندہ رہے گا جنہوں نے اس مُلک کا تخیّل ہنِد کے مسلمانوں کو دیا اور اُن میں ولولہ پیدا کیا جس کے نتیجہ میں یہ مُلک پاکستان معرضِ وجود میں آیا
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال جنہوں نے ہندوستان کے انگریز حُکمرانوں کا دیا ہوا سَر [Sir] کا خطاب واپس کر دیا تھا ۔ بہت عمدہ شاعر ہی نہیں فلسفی بھی تھے ۔ یہ صرف میں یا پاکستانی ہی نہیں کہتے بلکہ جرمنی کی ایک جامعہ [university] کے کمرۂ مجلس [Assembly Hall] میں اُن کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا میں نے 1967ء میں دیکھا تھا ۔ علامہ صاحب کا ایک ایک شعر اپنے اندر پُر زور اور عمدہ پیغام رکھتا ہے ۔ علامہ صاحب کے پیغام سے صرف چند اشعار دورِ حاضر کے قوم کے جوانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں بشرطیکہ ان کی سمجھ میں آ جائے بات
اُس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالم ہے مجبور ۔ تو عالمِ آزاد
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ’ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آپ نے بہت اچھی تحریر لکھی ہے ۔۔
ریحان مرزا صاحب
شکریہ ۔ ہمیں تو نے پیدا ہی اسی کام کیلئے کیا ہے
سلام افتخار اجمل جی
ھمارا یہ قومی المیہ ھے جو اقتدار میں ھوتا ھے اس کے چمچے اور چہتے سامنے ھوتے ھیں وہ ھی ھیرو ھوتے ھیں – اقبال قومی ھیرو تھے ایک اچھے شاعر اور بہت بڑے فلسفی تھے افسوس ھے ٹی وی پہ بھی ان کے بارے میں بہت کم پروگرام آئے –
علامہ نے یہ بھی فرمایا تھا،
ہے کس کی یہ جرات کہ مسلمان کو ٹوکے
حریت افکار کی نعمت ہے خدا داد
چاہے تو کرے کعبہ کو آتش کدہ فارس
چاہے توکرے اس میں فرنگی صنم آباد
قرآن کو بازیچہ تاویل بنا کر !
چاہے تو خود اک تازہ شریعت کرے ایجاد
ہے مملکت ہند میں اک طرفہ تماشہ
اسلام ہے محبوس مسلمان ہے آزاد
آپ مملکت ھند کی جگہ مملکت پاکستان بھی پڑھ سکتے ہیں
اور ایک جگہ کچھ اس طرح سے اپنی بےزاری کا اظہار کرتے ہیں
نہ میں عجمی،نہ میں ہندی،نہ عراقی نہ حجازی
کہ خودی سے میں نے سیکھی دوجہاں سے بے نیازی
تو میری نظر میں کافر ،میں تیری نظر میں کافر !
ترا دین نفس شماری، میرا دیں نفس گدازی !
تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت
کہ موافق تد رواں نہیں دین شہبازی
ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا
کہ سکھا سکےخرد کو رہ و رسم کارسازی
نہ جدا رہے نو اگر تب و تاب زندگی سے
کہ ہلاکیء امم ہے یہ طریق نے نوازی
کیا سمجھے !
علامہ اگر آج زندہ ہوتے تو ضرور دہشت گرد قرار پاتے کیونکہ ان کا سارا کلام اسی زمرے میںآتا ہے جو مسلمانوں کی خودی جگانے کی کوشش کرتا ہے۔
فرمان الحق صاحب
آپ نے اپنی ٹیڑھی سوچ کا مزید ثبوت مہیا کر دیا ۔ آپ اپنے آپ کو ہائلی کوالیفائڈ سمجھتے ہیں مگر شاید آپ نے کتابیں پڑھے بغیر ہی اسناد حاصل کی لگتی ہیں ۔ کسی بھی بیان کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک بند اُٹھا پر جہاں چاہا ثبت کر دییا دانشمندی نہیں ہے
افضل صاحب
آپ نے درست کہا ۔ شاید پچھلے ماہ کی بات ہے کہ ایک ذی عمر صحافی جو اپنے آپ کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں نے قرادادِ پاکستان میں نقص نکال کر علامہ صاحب کے کھاتے میں ڈال دیئے تھے ۔ مجھے غَصہ آیا لیکن میرے پاس اُن کا پتہ نہ تھا اسلئے اُنہیں خط نہ لکھ سکا ۔ اللہ کا کرم ہوا کہ اُن کے ہی ایک ساتھی جو معروف تاریخ دان ہیں نے اُنہیں اخبار ہی میں لکھ کر جواب دیا اور یہ بھی واضح کیا کہ علامہ صاحب تو دو سال قبل اپریل 1938ء میں انتقال کر گئے تھے