میں پہلی بار مارچ یا اپریل 1975ء میں متحدہ امارات گیا تھا ۔ میں امارات کی حکومت کی دعوت پر ایک خاص کام کیلئے جس کا مجھے ماہر تصوّر کیا جاتا تھا وطنِ عزیز کی نمائیندگی کر رہا تھا ۔ ہم ایک جماعت کی شکل میں گئے تھے جس میں میرے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری ڈیفنس پروڈکشن ۔ ایک لیفٹننٹ کرنل ۔ 2 میجر ۔ ایک اسسٹنٹ ورکس منیجر اور 9 صوبیدار سے حوالدار تک کے عہدوں کے فوجی تھے ۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحب انتظامی امور کیلئے گئے تھے لیکن ان کا کوئی عملی کردار نہ تھا کیونکہ سارا بندوبست امارات میں متعیّن پاکستانی سفارتخانہ کے کونسلر صاحب نے کیا ۔ مجھے جماعت کا فنی سربراہ [Technical Head] مقرر کیا گیا تھا ۔ شیخ راشد جن کا بیٹا محمد اب دبئی کا حکمران ہے نے مہمانوں والی کار کے ساتھ ایک باوردی کپتان میرے ساتھ لگا رکھا تھا جس کی وجہ سے آزادانہ گھومنا آداب کے خلاف تھا ۔ مختصر قصہ بیان کر دیا ہے کہ صورتِ حال سمجھ میں آ سکے ۔
اُس زمانہ میں دبئی شہر اتنا چھوٹا تھا کہ سارا ایک دن میں پیدل گھوما جا سکتا تھا ۔ دبئی شہر وطنِ عزیز کے کسی چھوٹے شہر کا مقابلہ کرتا تھا ۔ دکانوں کی ترپالیں اور چھپّر مجھے اب بھی یاد ہیں ۔ شہر سے باہر کچھ نئی عمارات بن رہی تھیں ۔ دبئی سے العین اور ابوظہبی کی سڑک آدھی کے قریب بن چکی تھی ۔ اب وہ سڑک نئی سڑکوں کے جال میں گم ہو چکی ہے ۔ میں نے الشارقہ [Sharjah] ۔ العین اور ابوظہبی بھی دیکھا تھا ۔ اُن کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ ابوظہبی کا شہر کافی بڑا تھا ۔ اُس کے بعد دبئی پھر الشارقہ ۔
اب میں دبئی سے باہر نہیں جا سکا لیکن دبئی تو وہ دبئی رہا ہی نہیں جو میں نے 33 سال قبل دیکھا تھا ۔ اُس زمانہ میں صرف العین میں کچھ درخت دیکھے تھے ۔ دبئی میں ایک درخت بھی نظر نہ آیا تھا ۔ اب تو ہر طرف درخت اور ہریالی ہے ۔ اُس زمانہ کی مجھے ایک عمارت یا سڑک نظر نہیں پڑی ۔ ایک بات میں کہہ سکتا ہوں کہ اُس زمانہ کے دبئی میں اشیاء صرف وطنِ عزیز کی نسبت سستی تھیں اب سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سب کچھ وطنِ عزیز کی موجودہ قیمتوں سے زیادہ پر بِک رہا ہے سوائے اسکے کہ کسی دکان پر مُک مُکا فروخت [clearance sale] لگی ہو ۔
دبئی میں شاید پوری دنیا کی قوموں کی نمائندگی موجود ہے ۔ دبئی کے باشندے 20 فیصد اور غیر مُلکی 80 فیصد ہیں ۔ جسے دیکھو بھاگا جا رہا ہے ۔ اگر کسی کو آرام سے چلتا دیکھا تو وہ مقامی تھا یا مقامی کے لباس میں پاکستانی ۔ ہر ملک کے وہاں ریستوراں یا ہوٹل بھی ہیں سو جیسا کھانا دِل چاہے کھایا جا سکتا ہے ۔ ہم نے پاکستانی ۔ مصری ۔ لبنانی ۔ سعودی ۔ ہندوستانی [تھالی] ۔ چینی ۔ فلپینی ۔ ملیشیائی ۔ کانٹیننٹل ۔ امریکی سب کھانے کھائے ۔ پاکستانی میں راوی کا کھانا مشہور ہے ۔ راوی کی ایک شاخ پر ہم تکہ کباب کا کہہ کر انتظار میں تھے اور دیکھ رہے تھے کہ پلاسٹک کے لفافوں میں دھڑا دھڑ ایک ہی قسم کے سادہ کھانے کے اجزاء رکھے جا رہے ہیں ۔ جب دو سو کے قریب ہو گئے تو ہمارا کھانا آیا پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لفافے دو گاڑیوں پر سوار ہو کے کسی سمت چل دیئے ۔ ہم نے کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ راوی والے روزانہ کم آمدن والے لوگوں بالخصوص پاکستانیوں کو مفت کھانا مہیا کرتے ہیں ۔ سُبحان اللہ ۔
ایک دن ہم نے دیرہ جا کر کشتی کا سفر کیا اور اس میں کھانا بھی کھایا ۔ ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا جو پُرلُطف رہا ۔ کھانا جو بھی کھائیں اچھا تھا ۔ جس کی وجہ سے میں کچھ زیادہ ہی کھاتا رہا ۔ ہم پرانی دبئی بھی گئے لیکن وہاں گاڑی کھڑی کرنے کو کوئی جگہ نہ ملی ۔ سارے بازار میں بیٹا آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا رہا اور ہم نظارہ کرتے رہے ۔ تنگ سڑکیں اور انسانوں سے بھری ہوئی ۔ وہاں سے نکلے تو عصر کا وقت ہو رہا تھا ۔ بیٹے نے ایک مسجد کے پاس جا گاڑی روکی اور ہمیں کہا آپ نماز شروع کریں میں گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ ڈھونڈتا ہوں ۔ ہم نماز ختم کر چکے لیکن بیٹا نہ پہنچا ۔ پارکنگ میں تلاش کیا تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے گاڑی ہی میں بیٹھا تھا ۔ مزید 5 منٹ بعد ایک گاڑی نکلی تو وہاں گاڑی کھڑی کر کے کہنے لگا آپ لوگ اُدھر چلیں میں آتا ہوں ۔ چند منٹ چلنے پر ایک بازار نظر آیا جہاں لوگ دکانوں کے باہر کھڑے آنے والوں کو دکانوں میں خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ یہ علاقہ مرکز الکرامہ تھا
دبئی میں جو خاص باتیں مشاہدے میں آئیں یہ تھیں ۔ لوگ کسی کو پریشان نہیں کرتے نہ کسی پر آواز کستے ہیں نہ کسی پر ہنستے ہیں ۔ نہ کوئی اپنا رونا روتا ہے اور نہ کوئی بڑائی جتاتا ہے ۔ سب مشینوں کی طرح کام میں لگے ہیں یا بھاگے جا رہے ہیں ۔ آپ نے کیا پہن رکھا ہے ؟ یا کیا کھا رہے ہیں ؟ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ۔ کسی کو کوئی غلط کام کرتے نہیں دیکھا ۔ شراب کی فروخت کھُلے عام ہے لیکں کھُلے عام شراب پینا جُرم ہے ۔ عورتیں بازاروں میں نیم عُریاں اور سمندر پر تقریباً ننگی ہوتی ہیں لیکن پیار محبت جتانا جُرم ہے ۔ ہر جگہ پولیس افسر موجود ہوتے ہیں جو شاید انہی چیزوں پر نظر رکھتے ہیں ۔ گھروں میں یا ہوٹلوں کے کمروں میں کیا ہوتا اور ساتھ ساتھ چلنے والے میاں بیوی یا کچھ اور ہوتے ہیں اس سے کسی کو غرض نہیں کیونکہ وہاں کی پولیس وطن عزیز کی پولیس کی طرح نکاح نامہ نہیں دیکھتی
سب سے زیادہ قابلِ ذکر لوگوں کا سڑکوں پر کردار ہے ۔ کوئی گاڑی والا زبردستی ایک قطار سے دوسری قطار میں جانے کی کوشش نہیں کرتا ۔ سڑک پر ٹریفک آہستہ آہستہ چل رہی ہے تو کوئی نہ قطار توڑنے کی کوشش کرتا ہے نہ ہارن بجاتا ہے ۔ ہر ڈرائیور قانون یا اصول کے مطابق دوسرے کا حق پہچانتا ہے اور اُسے راستہ دیتا ہے ۔ کوئی پیدل شخص زیبرا کراسنگ کے قریب فٹ پاتھ پر کھڑا ہو تو آنے والی گاڑیاں رُک جاتی ہیں تا کہ پیدل شخص سڑک پار کر لے ۔ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں رہنے والوں کی اکثریت قانون کی خلاف ورزی اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے ۔ کمال تو یہ ہے کہ میرے وطن میں غیر مُلکیوں کی اکثریت بھی ایسا ہی کرتی ہے
میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے
مجھے دبئی کی بھیڑ سے بھرپور اور مشینی ہونے کے باوجود اسی لئے پسند ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو اور ٹھنڈ ہی ٹھنڈ۔ لیکن فیملی کے ساتھ رہنے کا پھر بھی نہیں سوچا جا سکتا۔ اس کے لئے مجھے سعودی عرب اور بحرین پسند ہیں، ہاں عمان بھی
ڈِفر صاحب
معلوم ہوتا ہے کہ آپ پورا جزیزہ نما عرب گھومے ہیں