علامہ محمد اقبال نے لگ بھگ ایک صدی قبل جو ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق اللہ کی طرف سے جوابِ شکوہ لکھا تھا وہ آج بھی درست ہے ۔ چند اقتباسات
ہم تو مائل بہ کرم ہيں ۔ کوئی سائل ہی نہيں
راہ دکھلائيں کسے ۔ رہر و منزل ہی نہيں
تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی ۔ يہ وہ گل ہی نہيں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی ديتے ہيں
ڈھونڈنے والوں کو دنيا بھی نئی ديتے ہيں
ہاتھ بے زور ہيں ۔ الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی ءِ پيغمبر ہيں
بُت شِکن اُٹھ گئے ۔ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر ۔ اور پسر آزر ہيں
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہيں تم بھی نہيں
جذبِ باہم جو نہيں ۔ محفل انجم بھی نہيں
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تُم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تُم ہو
رہ گئی رسم اذاں ۔ روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا ۔ تلقينِ غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو ۔ مرزا بھی ہو ۔ افغان بھی ہو
تم سبھیي کچھ ہو ۔ بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ؟ يہ انداز مسلمانی ہے ؟
چاہتے سب ہيں کہ ہوں اَوج ثريا پہ مُقِيم
پہلے ويسا کوئی پيدا تو کرے قلبِ سليم
شکوہ پر تو فتوی بھی لگا تھا
اور یہ کسی حد تک درست بھی تھا
اگر اقبال آج زندہ ہوتے تو شکوہ کا انداز ہی کچھ اور ہوتا
شازل صاحب
جی ہاں ۔ شکوہ پر فتوٰی لگا تھا ۔ خواب شکوٰی پر نہیں ۔ اور جہاں تک مجھے علم ہے قید کی سزا بھی ملی تھی ۔
دورِ حاضر میں ہوتے تو شاید دہشتگرد قرار پاتے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کا انجام کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں
تو منظر نامہ واضح ہوجائے گا
شازل صاحب
زندگیاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک عارضی اور دوسری ابدی ۔ عام لوگ اول الذکر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ چند مؤخر الذکر کو ۔ علامہ اقبال ۔ قائد اعظم ۔ محمد علی جوہر ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کی قسم کے لوگ مؤخر الذکر کو ترجیح دیتے ہیں