یہ کہانی نہیں ۔ آپ بیتی ہے ایک خاتون کی جس کی پیدائش کے ساتھ ہی تقدیر سے مُڈبھیڑ شروع ہو گئی ۔ 2 سال کی تھی تو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ ضلع فیروز پور طے شدہ اصول کے مطابق پاکستان کا حصہ ہونا تھا مگر بھارت کو جموں کشمیر کی طرف راستہ دینے کیلئے ضلع کو تقسیم کر دیا گیا جس کی خبر گورداسپور کے رہنے والوں کو پاکستان بننے کے بعد ہوئی جب ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مار دھاڑ شروع کر دی ۔ اس کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ والدہ شہید ہو گئیں ۔ وہ اور اس کا 11 سالہ بھائی والد کے ساتھ پاکستان پہنچے ۔ ابھی 4 سال کی تھی کہ والد کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا ۔ بھائی بہن کو اُن کے ماموں اپنے ساتھ لے گئے ۔ بھائی نے کسی طرح ایف ایس سی پاس کی اور شپ یارڈ کراچی میں ملازمت کے ساتھ فاؤنڈری کا ڈپلومہ شروع کیا ۔ بھائی نے بہن کو اپنے ساتھ رکھا ۔ ڈپلومہ کرنے کے بعد بھائی کو پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت مل گئی تو بھائی بہن واہ چھاؤنی منتقل ہو گئے
وہ محنتی اور شاکرہ لڑکی تھی ۔ کسی طرح ایم ایس سی میتھے میٹکس پاس کر لیا اور سرکاری سکول میں پڑھانا شروع کیا ۔ 1971ء میں بھائی نے اس کا نکاح ایک فوجی افسر سے کر دیا جو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا اور اور دو تین سال بعد معلوم ہوا کہ وہ وہاں شہید ہو گیا تھا ۔ اُس نے مزید شادی کی بجائے اپنی ساری توجہ دوسروں کی تعلیم پر لگا دی ۔ واہ میں جس لڑکی نے بھی اس سے پڑھا وہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ۔ اُس نے بہت سی بچیوں کو بغیر معاوضہ بھی پڑھایا ۔ اپنی محبت اس نے طالبات کے علاوہ اپنی ایک بھتیجی اور 2 بھتیجوں پر وقف کر دی ۔ کہا کرتی تھیں “میں نے ماں باپ نہیں دیکھے ۔ خاوند نہیں دیکھا ۔ میرا سب کچھ میرا بھائی ہے ۔ بھتیجی اور 2 بھتیجے ہی میرے بچے ہیں”
ریٹارئرمنٹ کے وقت سے کچھ سال قبل اُنہوں نے واہ میں اپنا مکان بنوایا اور اُس میں رہنے لگیں ۔ بہت سال ہیڈ مسٹریس رہنے کے بعد 2005ء میں ریٹائر ہوئیں تو وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ ایک اور صدمہ سے دوچار ہونے والی ہیں ۔ تین سال قبل عیدالاضحٰے کے دن اچانک ان کے بھائی راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ انہوں نے عام خواتین کی طرح واویلا نہ کیا مگر اس دن سے ان کے چہرے کی بشاشت اُن کا ساتھ چھوڑ گئی ۔ بھتیجے اور بھابھی اُن کے پاس جاتے رہتے تھے لیکن چند ماہ قبل انہوں نے اپنے دونوں بھتیجوں کو بالخصوص اکٹھے بُلایا اور انہیں کچھ کاغذات دے کر کہنے لگیں “میرا سب کچھ تم ہو ۔ یہ مکان میں نے تم دونوں کے نام کر دیا ہے ۔ تمہاری بہن کا نام نہیں لکھا کہ وہ تو امریکہ میں ہے”
ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں تو ہم اتوار 5 اپریل 2009ء کو اسے ملنے گئے ۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود وہ اپنے کمرے سے چل کر آئیں اور بیٹھک میں ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں اور ہم سے باتیں کرتی رہیں ۔ شام کو ہم واپس آ گئے ۔ آج فجر کی نماز سے قبل ان کے چھوٹے بھتیجے کا ٹیلیفون آیا کہ وہ راہی مُلکِ عدم ہو گئیں ہیں ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ مسلمان ہونے کی تمام صفات کی حامل خاتون پوری منصوبہ بندی کے ساتھ رخصت ہوئیں ۔ یہ ہماری عزیز اور ہردل عزیز خاتون میری بڑی بہو بیٹی کی پھوپھی تھیں ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا کرے ۔ آمین ثم آمین
جگ والا میلہ اے یارو ۔ تھوڑی دیر دا
ہسدیاں رات لنگے ۔ پتہ نئیں سویر دا
اِنّا للہِ و اِنّا اِلہِ راجعون
ہر اچھے اور ہر برے کو اس جہان سے جانا ہے ایک دن، لیکن اچھے لوگوں کی اچھی یادیں باقی رہ جاتی ہیں اور بروں کے جانے پر دنیا سکھ کا سانس لیتی ہے، اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت میں اعلی رتبہ عطا فرمائے اور ان کے اہل و عیال کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین
اِنّا للہِ و اِنّا اِلہِ راجعون
اللہ تعالی ان کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ آمین
یاسر عمران مرزا ۔ درویش اور الف نظامی صاحبان
جزاک اللہ خیرٌ
اِنّا للہِ و اِنّا اِلہِ راجعون- اللہ aunti کو جنت فردوس مین جگہ دے – آمین