میں بہت پہلے بھی ثقافت پر لکھ چکا ہوں ۔ اب کئی ہفتوں سے اس کی مزید تشریح کرنے کا ارادا کئے ہوئے ہوں لیکن دوسرے زیادہ اہم موضوع ہی ہوش سنبھانے نہیں دیتے ۔ اس وقت میں وہ سب کچھ چھوڑ کر ایک ایسے عمل کی بات کرنا چاہتا ہوں جو ہماری ثقافت کا حصہ بنتا جا رہا ہے ۔ وہ ہے ای میل اور ایس ایم ایس جو بغیر سوچے سمجھے سب کو بھیجے جا رہے ہیں ۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے ۔ بھیجنے والوں نے شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو کہ اس طرح کی ای میل اور ایس ایم ایس کی اکثریت کا مقصد قوم میں بے چینی اور بے یقینی پیدا کرنا ہوتا ہے خاص کر فی زمانہ جب اسلام پر نصارٰی ۔ یہود اور ہنود چہار جہتی یلغار کر رہے ہیں
کل میں نے ٹی وی پر سوات میں امن کی کوشش سے متعلق ایک مذاکرہ دیکھا جس میں انسانی حقوق کی علمبردار ایک خاتون نے کہا “یہ معاہدہ یا بات چیت قاتلوں سے کیوں کی جارہی ہے ۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے کہ اُن سب کو کُچل دیا جائے ۔ ایک 17 سالہ لڑکی پر ظُلم کیا گیا ۔ یہ کونسا اسلام ہے ؟” 17 سالہ لڑکی والا فقرہ وہ بار بار دُہرا رہی تھیں ۔ اُس خاتون نے مزید کہا ” لاَ إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ ۔ دین میں کوئی زبر دستی نہیں”۔ اس کے بعد جو کچھ اُس خاتون نے کہا اس سے ثابت ہو گیا تھا کہ ایک آیت کے اس چھوٹے سے حصے کے علاوہ وہ نہیں جانتی کہ قرآن شریف میں کیا لکھا ہے ۔ قرآنی حوالہ دینے والی اس خاتون کا حُلیہ قرآن کی تعلیم کی صریح نفی کر رہا تھا
میں آج متذکرہ محترمہ کے استدلال سے پیدا ہونے والے خدشہ کے متعلق لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس آیا اور گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ میرے موبائل فون نے ٹُوں ٹُوں کیا ۔ دیکھا تو ایک نوجوان کا پیغام تھا جس کا خُلاصہ ہے “دیکھو طالبان کس طرح 17 سالہ لڑکی کو مار رہے ہیں ۔ کیا اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے ؟ طالبان سمجھتے ہیں کہ یہ اسلام ہے ؟ ان کو جواب دینا ہو گا کہ نامحرم لڑکی کو ہاتھ کیوں لگایا اور سزا کیوں دی ؟ قرآن میں لکھا ہے کہ کسی کو اس کے عمل کی سزا اللہ دینے والا ہے ۔ کسی پر زبردستی سے اسلام نہیں پھیلایا جا سکتا ۔ یہ ایس ایم ایس سب کو بھیجیں”
لاَ إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ ۔ یہ الفاظ ہوا میں نہیں کہے گئے بلکہ یہ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ کی آیت 256 کے شروع کے تین الفاظ ہیں ۔ ان الفاظ کا اس پوری آیت اور اس سے پہلے اور اس سے بعد والی آیات کے ساتھ تعلق ہے ۔ جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے
آیت 255 ۔ اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ زندہ ہمیشہ رہنے والا۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کر سکے ۔ جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے ۔ ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اس کی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
آیت 256 ۔ دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے
آیت 257 ۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا دوست اللہ ہے کہ اُن کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے اور جو کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ ان کو روشنی سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں یہی لوگ اہل دوزخ ہیں کہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
معاملہ 17 سالہ لڑکی کا ۔ مجھے اِدھر اُدھر سے جو معلوم ہوا ہے یہ لڑکی کسی نامحرم کے ساتھ بھاگ گئی تھی جس کی سزا اس کے قبیلے والوں نے کوڑوں کی صورت میں اُسے دی ۔ صوفی محمد کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس واقعہ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور انہیں بلاوجہ بدنام کیا جا رہا ہے ۔ اصل صورتِ حال تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ فوری طور پر قرآن و سُنت سے مندرجہ ذیل حوالے پیش کر سکا ہوں
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء آیت 15 اور 16 ۔” تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔
سورت ۔ 24 ۔ النُّور ۔ آیت 2 ۔ ” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے” ۔
سورت ۔ 24 ۔ النُّور۔ آیات 5 تا 9 ۔ “اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔ اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو “۔
سورت ۔ 24 ۔ النُّور آیت 33 ۔ “اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری [زناکاری کا پیشہ] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے” ۔
تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس” اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی
ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا
صحیح بُخاری میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔ مزید حوالوں اور تفصیل کیلئے دیکھئے میری 30 مارچ 2006ء کی تحریر ” جُرم و سزا ”
ایمیل اور ایسایمایس فارورڈ کرنا تو پاکستانیوں میں ایک عجیب بیماری ہے۔ اب تو بلاگر لوگ ان فارورڈز کو اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کر رہے ہیں۔
رہی بات اس ویڈیو اور عورت کی تو معلوم نہیں پاکستان میں کیوں عورتیں مردوں کے ساتھ اتنا زیادہ زنا بالجبر کیوں کرتی ہیں؟ جن دیکھو کسی عورت ہی کو اس جرم کی سزا مل رہی ہوتی ہے اور مرد کے ساتھ چونکہ زبردستی کی گئ ہوتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ بچ جاتا ہے۔
قرانی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹکر بیان کرنے میں دونوں طرف کے شدت پسند یعنی مذہبی اور روشن خیالی دونوں پیش پیش ہیں۔۔ القاعدہ کا فلسفئہ جہاد، ڈچ فلم ساز کی فتنہ، بل مار کی ریلیجولس کے چند حصے، طالبان کے مجوزہ نظام عدل کا خاکہ، سلمان رشدی جیسے ادیبوں کے افکار یہ سب قران کو سیاق و سباق سے ہٹکر بیان کرنے کا نتیجہ ہے۔ ایک انتہائی جذباتی قوم کے جذبات کی تسکین کا ایک اہم ذریعہ ای میل فارورڈنگ اور ایس ایم ایس ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کس طرح مساجد میں پہلے پرچے بانٹے جاتے تھے جس میں کسی خواب کا تذکرہ اور پھر اس کی سو کاپیاں بنوانے پر انعامات کی بشارت اور نظر انداز کرنے پر نقصان کی پیشن گوئی کی جاتی تھی۔ یہ اس عمل کی جدید شکل ہے۔ جس سوال کا جواب مجھے نہیں ملتا وہ یہ کہ کیا ہم نے معاشرے میں مساوات اور عدل کے وہ اسلامی اصول قائم کردیے ہیں جس کے بعد اسلامی حدیں جاری کی جاسکیں۔۔۔ سارا زور صرف اور صرف حدیں جاری کرنے پر کیوں رہتا ہے جب کہ سزائیں پانے والے لوگ انتہائی کسم پرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور زیادہ تر معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات ہی کیوں ہیں؟
آسان الفاظ میں بیان کریں:
اگر یہ خاتون مجرم تھیں تو کیا آپ اس بہیمانہ تشدد پر مبنی سزا کو جائز سمجھتے ہیں؟
اس تحریر میں قرآن کی آیات سے بالکل واضح ہو گیا کہ اگر لڑکی نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا اس کے گواہ بھی موجود تھے تو پھر اس کے لیے نرم گوشہ رکھنا درست نہیں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم کہ واقعی اس سے یہ جرم سرزد ہوا ہے یا نہیں۔ اور جہاں تک بات ہے لڑکے کی تو بی بی سی نیوز پر یہ خبر موجود ہے کہ لڑکی سے پہلے لڑکے کو سزا دی گئی تھی۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جہاں حکومت کچھ نہ کرے کیا عوام کو اختیار ہے کہ وہ خود شریعت نافذ کر لیں؟ اور یہ جو اس فعل کا اعلانیہ ارتکاب کرنے والے ہمارے اردگرد موجود ہیں بشمول ہمارے حکمرانوں کے ان کو کوڑے کون لگائے گا؟
کیا ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ اپنی معاملات تک محدود اور خاموش رہیں؟
محترم ۔۔۔ سوچیں ذرا۔۔۔ اگر یہ اسلام کے مامے انارکلی لاہور میں عورتوں کو زمین پر لٹا کر کوڑے ماریں کہ محرم کے بغیر باہر کیوں نکلی؟
راہ چلتے میرے جیسے داڑھی مونچھ منڈوں کو موٹر سائیکلوں سے اتار کر ان کو سڑک پر ککڑ بنا دیں کہ داڑھی کیوں نہیںرکھی؟
اس مفہوم کی بھی ایک حدیث ہے کہ زنا کی حد اس وقت تک جاری نہیں ہوسکتی۔۔ جب تک چار گواہ جنسی عمل کا خود مشاہدہ نہ کریں اور مشاہدے کے بارے میں بھی بہت واضح قسم کے الفاظ ہیں ۔۔۔۔
اور آخر میں ۔۔۔ عمر فاروق نے قحط کے زمانے میں چوری کی حد ساقط کردی تھی۔۔ تو کیا ان اسلام کے ماموں نے عمر فاروق سے بھی زیادہ اسلام نافذ کردیا ہے۔۔۔
اور آخری بات۔۔۔ عام لوگوں پر تو ان کا اسلام نافذ ہو جاتا ہے۔ یہ جو جاگیردار اور وڈیرے غریبوں کی عزتوں سے صدیوں سے کھیلتے آرہے ہیں ان پر اسلام کب نافذ کریں گے؟ یا شاید نہیں۔۔۔ ان سے تو مساجد اور مدرسوں کے لئے چندے آتے ہیں اور ان کے محل جنت میں تیار ہوچکے ہیں۔۔ اسلام کا ڈنڈا صرف عوام کالانعام پر ہی چلے گا۔۔۔
وما علینا الا البلاغ
نعمان صاحب
میں سزا کے جائز و ناجائز کی بات اس وقت کروں گا جب پورے حقائق میرے سامنے آئیں گے ۔ میں نے تحریر اس خطرناک طرزِ عمل کی نشاندہی کیلئے لکھی ہے جو ہمارے معاشرے میں سرائیت کر چکا ہے ۔ یعنی افواہ سازی اور اشتہار بازی ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی بات سنے اور بغیر تصدیق کے آگے پہنچا دے ۔ اگر اُس قبیلہ کا طرزِ عمل غلط ہے تو ہم پڑھے لکھے کیا کر رہے ہیں ؟
زکریا بیٹے
معاملہ کی اصل حقیقت اللہ کرے سامنے آ جائے ۔ دورِ حاضر میں سب سے مشکل کام سچ کی تلاش ہو گیا ہے ۔ جیسے پچھلے تین دن سے کروفر کے ساتھ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اگر اسے درست مان لیا جائے تو کوڑے مارنے کا عمل غلط تھا لیکن دوسری طرف اگر اسے مشتہر کرنے والے مسلمان ہیں تو وہ سب بھی مجرم ہیں کیونکہ کسی کی بُرائی کو مشتہر کرنا بھی اسلام میں جُرم ہے ۔ درست طریقہ انصاف مہیا کرنے والوں کو مع ثبوت کے درخواست دینا تھا ۔ اور اب وہ عدلیہ بحال ہو چکی ہے جس کی بحالی کا غوغا یہ نام نہاد سول سوسائٹی بھی کرتی رہی ہے ۔۔ دیگر اشتہاربازی کا یہ عمل غیبت کے زمرے میںبھی آتا ہے جسے اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے ۔ اور اگر حقیقت بیان کرنے کی بجائے غلط بیانی کی جارہی ہے یا اشتہاربازی اپنے کسی خاص مقصد کیلئے ہے تو یہ منافقت کے زمرے میں آتا ہے
راشد کامران صاحب
قبائلیوں کی خبریں تو بہت گردش کرنے لگی ہیں ۔ پنجاب اور سندھ میں جو کچھ ہوتا آ رہا ہے انسانی حقوق کے ان نام نہاد علمبرداروں کو کیوں نظر نہیں آتا ؟ قبائلی علاقہ کے واقعات پنجاب اور سندھ میں ہونے والے واقعات کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ میں نے تیں مُختلف قسم کے واقعات بیان کر دیئے تھے ۔ جہاں تک ماحول کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہودیوں میں بھی سنگسار کرنے کی سزا موجود تھی جس میں پہلے اتنی تبدیلی کی گئی کہ غیر شادی شدہ اپنی مرضی سے غلط کاری کریں تو اُن کی کوئی سزا نہیں ۔ اب کیا صورتِ حال ہے میرے علم میں نہیں ۔ یہی صورتِ حال عیسائیوں کی بھی تھی ۔
لیکن میرا مدعا تو اس خطرناک قسم کی اشتہار بازی کی طرف توجہ دلانا تھا جو اس سلسلہ میں اختیار کی گئی
درویش صاحب
قبائلی علاقہ کو چھوڑیئے پنجاب اور سندھ کی بات کیجئے جہاں ایسے کئی واقعات روزانہ ہوتے ہیں ۔ قانون موجود ہے ۔ آج تک ہماری حکومت نے کیا کیا ہے ۔ پرویز مشرف کی حکومت نے بڑے پروپیگنڈہ کے ساتھ قانون تحفظ حقوق نسواں منظور کیا اور دراصل عوتوں کو جو تحفظ حاصل تھا وہ بھی چھین لیا ،۔ اس قانون کی حقوقِ نسواں کی علمبرداروں نے بہت تعریف کی تھی
جعفر صاحب
میری سمجھ میں دو باتیں نہیں آ رہیں
اسلام کو سوات اور پاکستان کے شمال مشرقی سرحدی علاقہ سے کیوں منسلک کر دیا گیا ہے
اسلام کے نام پر یا اسلام کا نام لے کر سارے ملک میں جو خرافات عرصہ دراز سے ہو رہی ہے یہ کسی کو نظر نہیں آتی چند ہزار لوگ اسلام کے نام پر غلط عمل کرتے ہیں تو ملک میں طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا ہے