سرکاری بیان
صدر صاحب اور دیگر حکومتی افراد نے بار بار کہا ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ مرکز میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ۔ صوبائی گورنر کا تقرر صدر کرتا ہے اور وہ صدر ہی کا صوبے میں نمائندہ ہوتا ہے [گورنر وفاق کا نمائندہ اُس وقت بنے گا جب پارلیمنٹ کے اختیارات جو پچھلے صدر نے غصب کئے تھے وہ آئینی ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ کو واپس کر دیئے جائیں گے] ۔
حقیقت
بلوچستان کے گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی نے کہا ہے کہ اسلام آباد کسی کی بات نہیں سنتا ۔ معاملات کو اگر نہ سنبھالا گیا تو بلوچستان ہاتھ سے نکل سکتا ہے ۔ بلوچستان کا مسئلہ نواب یا سردار حل نہیں کرسکتا بلکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ وہ بلوچستان کے سلسلے میں وفاقی حکومت کو تجاویز دیتے ہیں لیکن ان کی بات نہیں سنی جاتی ۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے عوام سے کی جانی والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا ضروری ہے ۔ بلوچ جو مسائل بتا رہے ہیں وہ صحیح ہیں اور ان کو حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس طرح کے چھوٹے چھوٹے مسئلے بعد میں بڑے مسائل بن جاتے ہیں جس سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں مرکز کا نمائندہ ہوں لیکن مرکز نے کبھی بھی مجھے بلوچستان کے مسائل پر اعتماد میں نہیں لیا جب وہ مجھے اعتماد میں لیں گے تو ضرور بلوچستان اور یہاں پر رہنے والوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے بات کروں گا