میرے وطن کے عضوء عضوء میں زخم لگانے والے سنگ دلوں نے ذہن اتنا پراگندہ کر دیا ہے کہ دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا تا ہوں تو الفاظ ہی کوسوں دُور بھاگ جاتے ہیں اور ذہن اُن کو کھینچنے میں معذور دکھائی دیتا ہے کہاں بچپن ۔ لڑکپن اور جوانی کی باتیں اور ولولے ۔ وہ تو قصہ پارینہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ تانیہ رحمان صاحبہ نے میرے لڑکپن کی محبوب غزل یاد دلا دی ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تانیہ رحمان صاحبہ کا شکریہ ادا کروں یا عرض کروں کہ مجھے یادِ ماضی دِلا کر تڑپایا کیوں ؟
اے جذبہ دل گر ميں چاہوں ہر چيز مقابل آجائے
منزل کیلئے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
اے دل کی خلِش چل يوں ہی سہی چلتا تو ہوں انکی محفل ميں
اس وقت مجھے چونکا دينا ۔ جب رنگ پہ محفل آجائے
اے رہبرِ کامل چلنے کو تيار تو ہوں ۔ پر ياد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دينا جب سامنے منزل آجائے
ہاں ياد مجھے تم کر لينا ۔ آواز مجھے تم دے لينا
اس راہِ محبت ميں کوئی درپيش جو مشکل آجائے
اب کيوں ڈھونڈوں وہ چشم کرم ہونے دے ستم بالائے ستم
ميں چاہتا ہوں اے جذبہ غم ۔ مشکل پہ مشکل آجائے
شاعر ۔ بہزاد لکھنوی