سب ہموطنوں کو نویدِ صبح مبارک ہو ۔ اللہ کرے کہ اب ہر ہموطن پورے خلوص اور استقلال کے ساتھ خود اپنے نفس کے خلاف تحریک چلا کر اپنے اندر پیدا شدہ تمام قباہتوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکے ۔
الحمدللہ ۔ وکلاء ۔ سول سوسائیٹی اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان نے ثابت کر دیا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
جب 3 نومبر 2007ء کے بعد وکلاء کی تحریک نے زور پکڑا اور اپنی تحریک کو اپنے خُون سے سیراب کرنے کے باوجود انہوں نے شرافت کا ساتھ نہ چھوڑتے ہوئے اپنی جد و جہد جاری رکھی تو جمہور خود بخود اُن کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی ۔ میں تو دعا اور دوا کر ہی رہا تھا ۔ وہ لوگ جو احتجاج کو بدامنی حتٰی کہ بدتمیزی تک کہتے تھے اُن میں اس تحریک کی خبریں ٹی وی سے سننے اور اخبار میں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور پھر تحریک سے اُن کی دلچسپی بڑھنا شروع ہوئی ۔ تمام استعماری طاقتوں نے پھر دیکھ لیا کہ نہتے جمہور کی طاقت کیا ہوتی ہے ۔ لاہور جی پی او چوک پر پہنچنے والوں کو لگائی گئی کئی رکاوٹیں نہ روک سکیں ۔ نہ پولیس کی بھاری نفری اُن پر لاٹھیاں برسا کر اور اشک آور گیس کے 200 کے قریب گولے پھینک ان کے جذبہ کو کم کر سکی ۔ نواز شریف کے ساتھ حق کی راہ پر نکلنے والا جلوس ماڈل ٹاؤن سے کالا شاہ کاکو تک سات رکاوٹیں جو بڑے بڑے سامان سے بھرے کنٹینر لگا کر بنائی گئی تھیں ہٹاتے ہوئے گوجرانوالہ تک پہنچے ۔ مگر آمر کی ضد گوجرانوالہ پہنچنے سے کچھ قبل دم توڑ گئی تھی
پاکستان بننے کے بعد یہ تحریک ہر لحاظ سے منفرد تھی ۔ اسے شروع کرنے والے نہ صرف تعلیم یافتہ تھے بلکہ قانون دان تھے ۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک جتنی تحاریک چلیں سوائے تحریک ختمِ نبوّت کے اُن سب کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق کسی شخص یا جماعت سے تھا جبکہ اس تحریک کا فائدہ تحریک شروع کرنے والوں کو ہوتا یا نہ ہوتا اصل فائدہ جمہور کو اور ملک کو ہونا تھا عدل کی صورت میں اور عدل قائم ہونے کے نتیجہ میں ملک و قوم کی ترقی کی صورت میں کیونکہ کسی قوم کی ترقی کی اوّلین شرط ملک میں عدل ہونا ہے ۔
یہ کسی کی شکست نہیں ۔ یہ فتح ہے جمہور کی اور جمہور کی فتح سب کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ بھنگرے ڈالنے کا وقت نہیں بلکہ اپنے گناہوں اور اپنی غلطیوں پر پشیمان ہو کر اللہ سے معافی مانگنے کا ہے ۔ سچ کہا تھا کسی نے
سدا نہ باغ وِچ بُلبُل بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ باغ میں بُلبُل چہکے
سدا نہ رہن بہاراں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشہ نہ رہیں بہاریں
دُشمن مرے تو خوشی نہ کریئے ۔ ۔ ۔ مرے دُشمن تو خوشی نہ کریں ہم
سجناں وی ٹُر جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ پیارے بھی چلے جائیں گے اک دن
عین اُس وقت جب قوم کو آنے والی خوشی کی بہار کی خوشبو آ رہی تھی چند ناعاقبت اندیشوں نے جن میں پیر پی پی پی کے مظہرالحق اور ایم کیو ایم کے رہنما شامل تھے قوم کے دماغ پراگندہ کرنے کیلئے کراہت آمیز آواز اُٹھائی ۔ اللہ ان لوگوں کو نیک ہدائت دے اور ہمارے پیارے وطن کو ایسے خودغرض لوگوں سے بچائے
پچھلی دو دہائیوں میں پڑھے لکھے ہموطنوں نے مجھے بہت مایوس کیا ۔ اکثر ان جملوں کا سامنا ہوتا لیکن کوئی خود کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ۔
سب چور ہیں
ہماری قوم مردہ ہے
میں اکیلا کیا کروں ؟
اس مُلک میں کچھ نہیں ہو سکتا
غریب یا شریف آدمی کی کون سُنتا ہے ؟
وہی ہو گا جو امریکہ کرے گا
پہلے دو جملوں پر میں اُن سے کہتا کہ اگر میں آپکے جملے کو دہراؤں تو آپ خود وہ ہو جائیں گے جو آپ دوسروں کیلئے کہہ رہے ہیں مگر اس کا کوئی اثر نہ ہوتا
پۓ در پۓ مُطلق العنانی نے ہمارے ہموطنوں کو بے حِس بنا دیا تھا یا پھر وہ حوادثِ روزگار میں پھنس کر رہ گئے تھے کہ کسی قومی معاملہ میں دِلچسپی کھو بیٹھے تھے ۔ میرا عقیدہ ۔ مشاہدہ اور تجربہ بھی ہے کہ اگر ذاتی غرض کی بجائے اجتمائی فائدے یا مقصد کیلئے جد و جہد کی جائے تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں ۔ میں نے اور کئی دوسرے محبِ وطن حضرات نے متعدد بار اس کا اظہار اپنی تحاریر میں کیا
میں نے پچھلی چار دہائیوں میں مختلف قومی سطح کی محافل میں ہموطنوں کو استقلال کے ساتھ جد و جہد کی تلقین کی جس کی بنیاد میری اپنی زندگی کی جہدِ مسلسل تھی ۔آج مجھے 1973ء کے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہر طرف سے مجھے رُوپوش ہوجانے کا مشورہ اس بناء پر دیا جاتا تھا کہ مجھے خُفیہ والے کسی بھی وقت اُٹھا کر ایسی جگہ لے جائیں گے جہاں سے میری کوئی خبر نہ آئے گی ۔ وجہ سچ بولنا ۔ برائی کے خلاف اور اپنے ادارے کے ملازمین کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا تھی ۔ اللہ کی مہربانی ہوئی اور خُفیہ کے اعلٰی عہدیداروں نے نہ صرف مجھ سے معافی مانگی بلکہ آئیندہ کئی سال اپنے مسائل میں مجھ سے مشورہ کرتے رہے
وہ دن بھی یاد آئے ہیں جب پاکستان کے تمام سرکاری اداروں کے انجنیئرز کے حقوق کیلئے تحریک چلی تو میں فیڈریشن آف انجیئرز ایسوسی ایشنز آف پاکستان کا سینئر وائس پریزیڈنٹ ہونے کی حثیت سے اُن تین انجیئرز میں شامل تھا جنہوں نے 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے وقت نہ دیا اور کئی دن ضائع کرنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ وزیرِ مالیات سے رابطہ کریں وزیرِ مالیات نے وقت دینے کے بعد ہمیں اپنے دفتر کے بغلی کمرہ میں صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک بھوکا پیاسا بٹھائے رکھا اور بات نہ کی ۔ ہم گھروں کو نہ گئے اور دوسرے دن پھر پہنچ گئے ۔ وزیر مالیات نے ہمیں لاٹھیوں ۔ قید خانے اور چکی پیسنے سے ڈرایا لیکن پورے پاکستان میں انجنیئرز کی ہڑتال کا اعلان کرنے کے بعد نمونے کے طور پر صرف ایک گرڈ سٹیشن پر انجنیئرز نے کام چھوڑ دیا تو حکومت نے تمام انجنیئرز کو تنخواہ کا سکیل 17 اور سب سے جونیئر انجنیئرز کو پانچ پانچ اکنریمنٹ دینے کا اعلان کر دیا ۔ خیال رہے کہ میں مقابلہ کا امتحان پاس کر کے سکیل 17 سے بھی زیادہ تنخواہ پر بھرتی ہوا تھا ۔ اسلئے متذکرہ تحریک میں میرا ذاتی فائدہ بالکل نہ تھا ۔ ہم سب تحریک میں اپنی اپنی جیبوں سے خرچ کر رہے تھے
میں سب واقعات لکھنا شروع کروں تو کتاب بن جائے گی ۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ “ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔ لیکن جد و جہد میں کوئی خود غرضی نہیں ہونا چاہیئے ۔ میں نے 22 جنوری 2008ء کو “شفاف انتخابات” کے عنوان سے جو لکھا تھا کاش اس پر کم از کم میری قوم کے سب پڑھے لکھے ہی عمل کرتے ۔ اب بھی سب کا بھلا ہو گا کہ ان صولوں کو یاد کر لیں اور اپنے بچوں کو بھی یاد کرائیں ۔ اسی لئے نیچے نقل کر رہا ہوں
آنے والی حکومت آپ کی ہو گی اگر ۔ ۔ ۔
آپ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیں
آپ تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو
آپ کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ووٹ اس کو دیں جس کا ماضی سب اُمیدواروں میں سے زیادہ دیانت اور بے لوث عوامی خدمت میں گذرا ہو
آپ کسی کو نہ بتائیں کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کوئی پوچھے تو جواب میں کہیں ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”
اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے عزیز و اقرب کو بھی اسی پر آمادہ کریں
السلاوعلیکم بھوپال صاحب
کیوں بیوقوف بناتے ہیں۔ پاکستان کی جاہل عوام کو۔ جہموریت، آزادی انصاف کے نام پر۔
مسلمانوں کیلئے صرف خلافت ہی واحد نجاتِ حل ہے۔ جن حضرات کو آمر و جابر کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے، پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے 60 سالوں میں کن ادوار میں ترقی اور سیاسی استحکام رہا۔ فرق واضح ہو جائے گا-
یہ مغربی جہموریت کسی بھی طرح ہمارے معاشرے اور ہمارے مذہب سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ ہمیں صرف اس حکمراں سےغرض ہے جو کہ ملک کو ترقی دے، عدل و انصاف کیلئے شرعی نظام رائج کرے۔
یہ جہموری نظام صرف سرمایہ داروں اورجاگیر داروں کے مفادات کا تحفظ اور عوام کو معاشی مشکلات میں پھانسنے کیلئے رائج کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں صرف سرمایہ دار ہی حکمرانی کرتے ںظر آتے ہیں – اور ظاہر ہے ان کے اپنے مفادات ہیں۔
اللہ ہم سب کو عقل سلیم عطا فرمائے۔
اسلامُ علیکم
انکل کچھ دنوں سے گھریلو بکھیڑوں میں مصروف رہی ذہن پر عجیب سی تھکاوٹ سوار تھی لیکن یہ خبر گویا صحرا میں بادِبہار بن کر آئی ہے۔ یقین نہیں آرہا تھا جب میرے شوہر سے گھر آکر بتایا۔
یہ ہمارے پاکستان میں ہوا ہے؟ یہ ہمارے لوگوں کا کارنامہ ہے؟ جسے ایک دنیا بےکار، جاہل، کم عقل، بزدل ، دہشتگرد، اور نا جانے کیا کیا کہتی ہے۔
مجھے ایک دم سے اتنا فخر محسوس ہو رہا ہے اپنے پاکستان پر۔
بس دعا ہے کسی کی نظر نہ لگے، اب ہمارا ملک کامیابی کی طرف گامزن ہو جائے۔ اللہ ہم سب کو اب باہمی مفاہمت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے، اور حکمرانوں کو عوام کے لیے سوچنے کی توفیق دے۔
کل ایک بھارتی چینل پر تبصرہ س رہی تھی 16 مارچ پاکستن کی تاریخ کی بد ترین رات ہوگی جب سب کچھ (خدانخواستہ) ختم ہو جائے گا۔ یہ چینل چند دنوں سے جتنا پروپیگنڈا پھیلا رہا تھا اور جتنی بھیانک تصویر پاکستان کے مستقبل کی پیش کر رہا تھا اسے سن سن کے دل کانپ رہا تھا، لیکن اللہ نے ایسے ملک دشمن عناصر کے پلید سوچوں اور غلیظ امیدوں کو خاک میں ملا دیا۔
اللہ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔
آپ کے دیئے گئے مشورے کو میں من و عن عزیز و اقارب تک پہنچاؤں گی۔
فی امان اللہ
آپ کا تجزیہ بہت اچھا ہے اور مطابقت بھی رکھتا ہے حالات سے، واقعئ اس تحریک کا فائدہ جمہور اور پاکستانی عوام کو ہوا،
دعا ہے کہ خود کش حملے ٹل جائیں، دعا ہے کہ اپنے بہن بھائیوں پر گولیاں چلانے والی بندوقیں خاموش ہو جائیں، دعا ہے کہ امریکی حکمرانوں کی اندھی تقلید کرنے والے حکمران باز آ جائیں ، دعا ہے ک انصاف کا بول بالا ہو اور پاکستان ایک عظیم ملک بن جائے اور جو کوئی اس کی طرف گندی نظر سے دیکھے اس کی آنکھیں نکال دینے والے حکمران ہمیں مل جائیں
میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ پاکستان میں اب عدل کا سورج صیحح معنوں میں طلوع ہو جاے، آمین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ اب پریس کونفرنسس ہورہی ہے۔ اور تمام کریڈٹ جیالے اور پی،پی،پی اور مئی 12میں خون کی ندیاں بہانے والے لے رہے ہٰیں۔
اس موقع کی کریڈٹ کل کلاں مشرف آکے لے لیگا، وہ کہیگا اگر میں 7مارچ اور 2 نومبر میں قانون نہ تھوڑتا تو کوئی کچھ نا کرسکتا تھا۔
السلام علیکم
جس طرح سے قوم متحد ہوئی ہے، اللہ کرے یہ اتحاد یونہی قائم رہے۔ آمین
پورے دن مسلسل ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر حکومتی جھوٹے بیانات سن کر اتنا دکھ نہیں ہوا جتنا آخری وقت میں چند شرپسند بیانات سے ہوا۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔
رضوان شیخ صاحب
بلا شُبہ موجودہ جمہوری نظام حقیقت میں انسانیت کی نفی ہے کیونکہ اگر جور زیادہ ہوں گے تو چوروں کی حکمرانی ہو گی ۔ خلافتِ راشدہ کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ البتہ ایک بات توجہ طلب ہے کہ آخر خلافتِ راشدہ کی کامیابی کی بنیادی وجہ کیا تھی ۔ نظامِ عدل ۔ ابھی نظام عدل قائم کیجئے ۔ پھر خلافتِ راشدہ کے کسی اور وصف کی طرف بڑھیں گے انشاء اللہ ۔
اگر واقعتاً حکومت عدلیہ کا احترام کرتے ہوئے اسے مکمل طور پہ آزاد اور غیر جانبدار کرتی ہے تو میری طرف سے پوری قوم کو مبارکباد قبول ہو۔
خدا کرے یوں ہی ہو اور عدلیہ مکمل طور پہ آزاد ہو جائے اور منصفانہ فیصلے کر سکے۔ اور اعلٰی عدلیہ سے سے نیچے ایک عام مجسٹریٹ تک سب قانون اور قاعدے کے مطابق فیصلے دیں سکیں اور ان پہ عمل درآمد بھی کروا سکیں۔
ہمارے اس قدر بگڑے ہوئے آوے کی پہلی اینٹ درست ہوئی ہے۔ امید رکھنی چاہئیے باقی معاملات بھی درست ہوتے چلیں جائیں گے۔ اگر ہمارے لوگ چاھیں تو یہ کام مشکل نہیں ہے اور اسمیں سب کا فائدہ ہے۔ ایک عام سی بات ہے کہ اگر صرف پولیس کا ادارہ ہی مکا مکا نہ کرے ۔ بلکہ سیدھا سادا چالان کاٹے اور اس چالان اور جرمانے کی مد میں جو رقم خزانے مین جمع ہوگی اس سے پولیس کوچار گُنا زیادہ تنخواہ دی جاسکتی ہے اور اسی رقم میں سے ان کی اعلٰی تربیت حاصل کرنے اور پولیس اہلکاروں کے بچوں کے لیے اعلٰی تعلیم و رہائش کا بندوبست کرنے کے باوجود خطیر رقم حکومت کے دیگر معاملات کے لئیے بچ رہے گی۔ جرائم پیشہ وگوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور محنتی اور دیانتدار لوگوں کا حوصلہ اور اعتماد بڑھے گا۔ روزانہ کرڑوں کی رقم خرد برد ہوجاتی ہے اور یہ معمولی چالان ہی سالانہ اربوں روپیہ بنتا ہے ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے جہاں معمولی رقم کے چالان نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں کی خرد برد اور مکا مکا ہوتی ہے تو اس مد میں قومی خزانے کو سالانہ کتنا نقصان ہوتا ہوگا ۔ صرف ان رقوم کو خزانے میں جمع کروانے پہ قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے اور ایک نیا جزبہ قوم میں پیدا ہوجائے گا ۔ اس نیک کام کے ہی بہت فائدے ہیں ۔ خرد برد نہیں ہوگی۔ اور حقدار کو سکا حق ملے گا جو اہل ہے وہی سامنے آئے گا اور جو جس کام کے لیے اہل ہے اور جتنی اہلیت رکھتا ہے اسے اتنا ہی حق ملے گا اور یو ہماری پوری قوم میں جو بے نظمی۔ بے ترتیبی۔ اور افراتفری نظر آتی ہے وہ بھی رفتہ رفتہ نظم و ضبط کے دائرے میں آتی چلی جائے گی ۔ اور نظم وضبط جو قوموں کی ترقی کے لیے بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ اسکی ھمیں عادت ہوجائے گی ۔ خدا بھی راضی ہوگا۔ اور ملک میں گردش کرنے والا کھربوں روپے کا سرمایہ جو ہے تو سہی مگر نظر نہیں آتا ۔ اگر وہ کھربوں روپے ایک طریقے سے ایک نظام اور پروگرام کے تحت قوم و ملک کی تعمیر میں لگیں گے ۔ جسکے اہلیت قابلیت اور انصاف پیمانے ہوں تو کوئی شک نہیں ہم بیس پچیس سالوں میں وہ مقام پا لیں جو پاکستان اور اسکے مظلوم عوام کا حق ہے اور عالمی برادری ہمیں دینے سے گریزاں ہے۔ مگر نیک نیتی شرط ہے۔
عدلیہ کی آزادی بارش کا پہلا قطرہ سمجھتے ہوئے باقاعدہ رم جھم کا بندو بست کیا جانا چاھیے۔
اور اس کے بعد جب قوم باشعور ہوجائے اور قوم کی عمر شعور کو پہنچے اور قوم کو پتہ چل جائے کہ وہ (قوم) کس آسمان (اسلام) کا نگینہ ہے۔ تو پھر لوگ خود ہی سے اپنے قول اور اعمال کے زریعے وہ رستہ چن لیں گے جو اسلامی ہوا ۔ وہ شرعی ہوا یا خلافتی ؟ اس منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں۔
محترم اجمل صاحب!
بر سبیلِ تزکرہ آپ نے اوپر بنجابی کے جو شعر بیان کیے ہیں وہ اشعار مکمل نہیں اور یہ اشعار میاں محمد رحمتہ اللہ علیہ کی عارفانہ شاعری ُسیف الملوک، سے ہیں اور یوں ہیں
سدا نہ ماپے،حُسن،جوانی
سدا نہ صحبت یاراں
ترجمہ: ماں باپ ، حسن اور جوانی سدا ساتھ نہیں دیں گے۔ اور نہ ہی دوستوں کی صحبتیں سدا رہیں گیں۔
سدا نہ باغیں بلبل بولے
سدا نہ باغ بہاراں
ترجمہ ۔ نہ تو سدا باغوں پہ بہار رہے گی اور نہ سدا باغوں میں بلبل بولیں گے۔
مطلب یہ ہے کہ سوائے اللہ سبحان و تعالٰی کسی شئے کو ابد نہیں۔ سب فانی ہے۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
سیّدہ صبا صاحبہ
جزاک اللہ خیرٌ
یاسر عمران مرزا صاحب
آپ کی دعا میری دعا بھی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی قبول فرمائے
محبِ پاکستان صاحب
محنت کرنے والوں کو ان کا صلہ مل گیا ۔ باقی باتیں ہی رہ گئی ہیں
درویش صاحب
میں بھی آمین کہتا ہوں
سارے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد ابھی جا کر موقع ملا ہے، اس کھڑکی سے جھانکنے کا۔
سارا دن سڑک کنارے بیٹھ کر لوگوں کے چہرے پڑھتا رہا، خوشی اور سکون قابل دید تھا، واہ رے جمہور تیری کیا باتاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :razz:
اور یہ کہ شکر ہے سب کچھ آرام اور پرسکون انداز میں طے پا گیا، آپ کو سر جی مبارک۔۔۔۔ میں آپ سے متفق ہوں، لیکن آپ کا یہ کہنا کہ “آمر کی ضد اس سے قبل دم توڑ گئی تھی”، سر جی گذارش ہے کہ جمہوریت کی یہ ہی تو خوبصورتی ہے، جو آج ہم نے ملاحظہ کی، ورنہ آمرانہ رویہ ابھی بھی مرے زہن میں تازہ ہے، جہاں کراچی سارا دن کیسے جلتا رہا تھا، شکر الحمداللہ کہ سب کچھ انتہائی بہتر انداز میں طے ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہار جیت نہیں، مجھے تو اپنے دیس کے لوگوں میں پھیلتے شعور کی بہت خوشی ہے، یقیناً آپ بھی اس سے متفق ہوں گے۔
ایک بار پھر مبارکباد
اللہ کرے یہ نیک شگون ہو اور عدلیہ واقعی آزاد ہو جائے
پنجابی شعر خوب ھے گوندل صاحب نے درست کیا ھے تو مطلب اور بھی چمکنے لگا
سدا نہ مانپےحسن جوانی
سدا نہ صحبت یاران
سدا نہ باغین بلبل بولے
سدا نہ باغ بہاران
واہ وا-لطف آ گیا مین سیف ا لملوک نان پڑھ سکیا یوسف زلیخا تے ھیر پڑھی سی مین جدون پنڈ وچ ھندا سی رب تھاننون دوہان نون یعنی گوندل تے بھوپال صاحبان نون خوش رکھے
وھاالجدین صاحب ۔نام کے ٹائپ کرنے میںغلطی ہو تو معافی۔
سر جی کیا صرف بھوپال صاحب اور گوندل صاحب کو خوش رہنے کا حق ہے، ہمیںبھی دعا دیتے تو کیا برا تھا ۔۔۔گستاخی معاف
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
دعا کا شکریہ ۔ سیف الملوک میاں محمد بخش نے لکھی تھی جو شائد 1825ء میں پیدا ہوئے تھے میرپورکے گاؤں پیر شاہ غازی میں پیدا ہوئے تھے ۔ اُن کی منظوم کتاب جس کا نام سفرالعشق تھا وہ سیف الملوک کے نام سے مشہور ہوئی ۔۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے درست شعر یہ ہیں
سدا نہ مانیئےحسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغاں وچ بُلبُل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا
دراصل اُنہوں نے اس کے آگے اللہ اور رسول کی اطاعت کا ذکر کیا ہے ۔ یہ شعر اُس کا پیش لفظ ہیں
میاں محمد بخش ا
جاوید گوندل صاحب
جہاں تک مجھے یا ہے شعر یہ ہے
سدا نہ مانیئےحسن جوانی ۔ سدا نہ صحبت یاراں
سدا نہ باغ وچ بُلبُل بولے ۔ سدا نہ رہن بہاراں
دُشمن مرے تے خوشی نہ کریئے ۔ سجناں وی ٹُر جانا
سدا نہ مانیئے یعنی ہمیشہ نہیں رہیں گے
بنگش صاحب سے معافی چاھتا ھون جی سب کے لیے دعا یہی ھے
اور اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لیئے حرم شریف مین انشائ اللہ دعا کرونگا سب کے لیئے اللہ نے چاھا تو اگلے ھفتے عمرے پہ ھونگا
بھای بھوپال صاحب لکھنے والے کی معلومات دینے کا شکریہ
اب دیکھنے پر ایسا معلوم ھوتا ھے کہ آپ کی کوٹیشن ہی درست ھے مگر خوب ھے اس مین کوئی شک نہین
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
باب ملتزم کی دہلیز کو پکڑ کر دعا کیجئے گا کہ اللہ ہمارے ملک کے تمام جج صاحبان کو قرآن شریف میں دی گئی ہدایات کے مطابق عدل کرنے اور ہماری قوم کو خود غرضی سے نکل کر عدل کی حمائت کرنے کی توفیق و ہمت عطا کرے
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ کا سفر اور عمرہ قبول فرمائے
وھاج الدین صاحب، چھا گئے ہیںآپ سر جی :razz: یقیناً اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہوگی کہ اللہ کے گھر میں ہمارے لیے کوئی دعا کر دے، جیو جی وھاج الدین صاحب جُگ جُگ جیو