لانگ مارچ کی لاہور سے ابتداء آج ہونا تھی لیکن چوبیس گھنٹے پہلے ہی مندرجہ ذیل شعر کی مصداق ابھی کمر ہی باندھی گئی تھی کہ کامیابی کی پہلی نشانی ظاہر ہوئی
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
اب تُجھے کیوں حیرانی ہے
چوبیس گھنٹے پہلے زرداری کی بہت محبوب وزیر شیری رحمان مستعفی ہو گئی ۔ آج تمام تر رکاوٹوں ناکہ بندیوں اور پولیس کی بھاری نفری کے باوجود لاہور میں لانگ مارچ کا مؤثر آغاز ہوا جس کے نتیجے میں اپنے اپنے ضمیر کی آواز پر اب تک ترتیب وار مندرجہ ذیل اعلٰی سرکاری عہدیداران مستعفی ہو چکے ہیں
سجاد بھٹہ صاحب ۔ ڈی سی او ۔ لاہور
عبدالحئ گیلانی صاحب ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان
امجد سلیمی صاحب ۔ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل ایلیٹ فورس ۔ پنجاب
راولپنڈی اور اسلام آباد کا حال یہ ہے کہ ٹرک ۔ بس ۔ ویگن ۔ کار ۔ موٹر سائیکل ۔ سائیکل حتٰی جہ پیدل کو بھی داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ۔ چاروں طرف سب راستے بند ہیں اور ان گنت پولیس اور رینجرز پھرہ دے رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس طرح لانگ مارچ کو روک سکے گی ۔ جو لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہو گا جبکہ لاہور میں جگہ جگہ بنائی گئی رکاوٹیں اور کھڑی پولیس چند ہزار لوگوں کو نہ روک سکی ؟ اس وقت نواز شریف کے جلوس کا ایک سرا مزنگ چونگی پہنچ چکا ہے اور دوسرا سرا کلمہ چوک پر ہے یعنی تین کلو میٹر سے زیادہ لمبا اور اس میں اکثر لوگ پیدل چل رہے ہیں ۔ مزگ سے مزید لوگ شامل ہوں گے کیونکہ یہ نواز شریف کا آبائی حلقہ ہے ۔
آ لین دیو اناں نوں پنڈی وی
پنڈی آلے وی کسے توں کٹ نئیں
اسے کہتے ہیںحکومت کرنے کا غلط طریقہ۔۔۔۔۔۔۔