شاید ہی کوئی ہموطن ایسا ہو جسے لیلٰی مجنوں ۔ شیریں فرہاد ۔ ہیر رانجھا ۔ سسی پُنوں ۔ سوہنی مہینوال وغیرہ کے قصے معلوم نہ ہوں ۔ مُختصر یہ کہ لیلٰی کی محبت میں قیس مجنوں [پاگل] ہو گیا ۔ شیریں سے محبت میں فرہاد کو پتھر کی چٹانوں کو کھود کر نہر بناتے ہوئے جان دے دی ۔ ہیر کی محبت میں شہزادہ یا نوابزادہ رانجھا بن گیا ۔ سسی کی محبت میں اُس تک پہنچنے کی کوشش میں پُنوں ریت کے طوفان میں گھِر کر ریت میں دفن ہو کر غائب ہو گیا ۔ سوہنی کی محبت میں ایک ریاست کا شہزادہ سوہنی کی بھینسیں چرانے لگا ۔
یہ تو اُس محبت کی داستانیں ہیں جو دیرپا نہیں ہوتی اور جن کا تعلق صرف انسان کے جسم اور اس فانی دنیا سے ہے ۔
آج عرب دنیا میں ربیع الاوّل 1429ھ کی 12 تاریخ ہے اور پاکستان میں کل ہو گی ۔ اس تاریخ کو ہمارے نبی سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی ۔ ہمارے ملک میں ہر طرف بڑھ چڑھ کر رحمت العالمین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم سے محبت کے دعوے ہو رہے ہیں اور اس محبت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں محفلِ میلاد منعقد ہو رہی ہے اور کہیں شاندار جلوس نکالنے کے اعلانات ہو رہے ہیں ۔ سب کے چہرے بشاس نظر آ رہے ہیں لیکن نجانے کیوں میں اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا ہوں ۔ یہ کیسی محبت ہے کہ ہم دنیا کو دکھانے کیلئے تو جلسے اور جلوس کرتے ہیں لیکن جن سے محبت کا اس طرح سے اظہار کرتے ہیں نہ اُن کے کہے پر عمل کرتے ہیں اور نہ اُن کا طریقہ اپناتے ہیں ؟ ہم سوائے اپنے آپ کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟ کیا یہ منافقت نہیں کہ ہم جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمارا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا ؟
انَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَی النَّبِيِّ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورت 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 56)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ و َّعَلَی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی اِبْرَاھِيْمَ وَعَلَی اٰلِ اِبْرَاھِيْمَ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ
تہوار کب اور کیسے شروع ہوا ؟
میلادالنبی کسی بھی صورت میں منانے کی مثال سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی وفات کے بعد 4 صدیوں تک نہیں ملتی ۔ پانچوَیں اور مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید 17 مارچ 763ء کو ایران میں تہران کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء کو وفات تک مسند خلافت پر رہے ۔ ان کے دور میں خطاطی اور فنِ تعمیر کے ساتھ ساتھ مصوری اور بُت تراشی کو بھی فروغ حاصل ہوا ۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ان کی والدہ الخيزران بنت عطاء نے اُس مکان کو مسجد میں تبدیل کروایا جہاں سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کی مبارک ولادت ہوئی تھی ۔ اس کے بعد میلادالنبی کو تہوار کے طور پر شیعہ حکمرانوں نے منانا شروع کیا لیکن عوام اس میں شامل نہ تھے ۔
میلادالنبی کو سرکاری تہوار کے طور پر گیارہویں صدی عیسوی میں مصر میں منایا گیا جہاں اُس دور میں شیعہ کے اسماعیلی فرقہ کے الفاطميون [جنوری 909ء تا 1171ء] حکمران تھے ۔ شروع شروع میں اس دن سرکاری اہلکاروں کو تحائف دیئے جاتے ۔ جانوروں کی قربانی اور ضیافتیں کی جاتیں ۔ شعر پڑھے جاتے اور مشعل بردار جلوس نکالا جاتا ۔ یہ سب کچھ دن کے وقت ہوتا تھا
اس کی تقلید اہلِ سُنّت نے پہلی بار بارہویں صدی عیسوی میں شام میں کی جب وہاں نورالدین حاکم تھا ۔
الأيوبيون جو بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں حکمران رہے نے یہ تقریبات سب جگہ بند کرا دیں لیکن کچھ لوگ اندرونِ خانہ یہ تہوار مناتے رہے ۔
سلطان صلاح الدین کی وفات کے بعد اُس کے برادرِ نسبتی مظفرالدین ابن زین الدین نے تیرہویں صدی میں عراق میں پھر اسے سرکاری تہوار بنا دیا ۔ یہ رسم آہستہ آہستہ پھیلتی رہی اور سلطنتِ عثمانیہ [1299ء تا 1923ء] کے دور میں ستارہویں صدی عیسوی تک مسلم دنیا کے بہت بڑے علاقہ تک پھیل گئی ۔ 1910ء میں سلطنت عثمانیہ نے اسے قومی تہوار قرار دے دیا
آج جو مسلمان بھائی اجتہاد کی باتیں کرتے ہیں اُنہیں کم از کم اتنا تو کرنا چاہیئے تاریخ کا مطالعہ کر کے مسلمانوں تک اصل دین اسلام پہنچائیں ۔ تاکہ قوم میلے ٹھیلوں کی بجائے دین اسلام پر درست طریقہ سے عمل کرے
وما علینا الا البلاغ
اسلامُ علیکم
بالکل درست فرمایا۔ جس طرح یورپ میں ماں باپ کے نام ایک دن کر کے اولاد اپنے اس احساسِ ندامت کو، جو اُن کے لاشعور میں والدین کے حقوق پورے نہ کرنے پر ہوتا ہے، دباتی ہے، میرا خیال ہے کہ ہم بھی اپنے احساسِ گناہ کو چھپانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو ساری زندگی مذہب کا ڈھول گلے میں ڈال کر بجاتے پھرتے ہیں، لیکن عمل کے نام پر اُن کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو تمام حیات مسلمان مسلمان ہونے کا راگ الاپتے ہیں، دین کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، ہر چھوٹا بڑا دن جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں لیکن جہاں بات آتی ہے کچھ کر دکھانے کی تو یہ توجیحات پیش کرنے لگتے ہیں، مجبوریاں گنوانے لگتے ہیں یا اپنی الٹی سیدھی فلاسفی حاضر کر دیتے ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے ایسے لوگ دین اوردنیا کو الگ الگ ترازو میں رکھ کر بات کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام تو دین و دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔
فی امان اللہ
رسم اذاں رہ گئی، روح بلالی نہ رہی
جی نہیں ، معذرت کے ساتھ، ہم اتفاق نہیں کرتے آپ سے
ہم خود تو کوئی بہت بڑے عالم نہیں ہیں اسلیے اپنے دینی مسائل کی حل کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری سے رجوع کرتے ہیں، کیونکہ ہمارے خیال کے مطابق وہ بہت زیادہ تحقیق کے عمل سے گزرے ہوےہیں اور بہت علم رکھتے ہیں
ہم نے بھی جب انٹرنیٹ پر تلاش کیا کہ عید میلاد النبی منانی چاہیے کہ نہیں تو یہ سارا مواد ملا جو آپ کی تحریر میں لکھا ہوا ہے، یہ سارا مواد سعودی عرب اور ان کے حامی علما کا بنایا ہوا ہے جو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وہ رتبہ نہیں دینا چاہتے جو برصغیر کے مسلمان دیتے ہیں، ان کے عقائد کچھ مختلف ہیں
ہم نے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی کچھ تقاریر میں یہ بات جان لی کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم منانا ناجائز نہیں اور اس میں محافل نعت اورد درود و سلام منعقد کی جاسکتی ہیں
دوسری بات درست ہے کہ، ہمیں اپنے عمل کو اسوہ حسنہ کے مطابق کرنا چاہیے اور وہ محبت کا بہترین اظہار ہے
محترم یاسر عمران-
آپ نے افتخار اجمل بھوپال صاحب کی اس بات کی تصدیق کی جو درج زیل ھے-
“دوسری بات درست ہے کہ، ہمیں اپنے عمل کو اسوہ حسنہ کے مطابق کرنا چاہیے اور وہ محبت کا بہترین اظہار ہے”
آپ نے ساری بات خود واضح کر دی کہ ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان و اعمال کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید میلاد النبی منانے کا حکم ہی نھیں دیا ، تو ہم کیوں آپنی مرضی سے دین میں نئی رسومات کو شامل کریں-
وما علینا الا البلاغ
اچھی محبت دِکھا رہے ہو میاں۔ جلوس مطلب وکلا کا نکلے تو اچھی کوشش ہے اور میلاد کا ہو تو دکھاوا اور نئی رسم ہے۔ جو بھی سمجھ لو بھائی، کل شروع ہوا کہ آج اچھا کام تو جب بھی شروع کیا جائے اچھا ہے۔ اب ایک چھوٹی سی مثال ہے میاں۔منانے والوں نے تو صدیوں سے شروع کیا اور تم آج بھی منہ پھیرے بیٹھے ہو۔ اور مباحثہ کیسا، لوگ کو عزیز و اقارب پسند ہیں وہ اُن کا میلاد مناتے ہیں ، ہمیں اپنے آقا سے محبت ہے سو ہمیں اُن کا میلاد منانے دو۔ با قی قرآنِ پا ک میں یا حدیثِ نبوی سے کوئی حوالہ ملا تو صاحب ہمارے حوالے کرنا نہ بھولئے گا، رہی بات منانے کی شریعی حثیت تو صاحب نے پر نظر اور محقق شخصیت کا ذکر کیا ہے، بیانات آن لائن بھی دستیاب ہیں ۔ اللہ میاں ہمارے دلوں میں حقیقت کی کشش پیدا فرمائے ، اور ہماری عقل کو عشق کی لگام عطا فرمائے۔
شاید آپکا اعتراض یہ ہے کے اللہ تعالی نے مسلمانو ں کو دو عیدیں عطا کی ہیں تو یہ تیسری عید کہاں سے آ گئی
یعنی اسے عید کہنا درست ہے کہ نہیں
ٹھیک ہے آپ اسے عید نہ کہیں مگر اپنے آقا کی پیدائش کے دن کے طور پر اس دن درود شریف اور نعتیں پڑھنے میں تو کوئی بدعت نہیں ہے نا؟
یہ بات تو ہے کہ ہماری تاریخ جس طرح سے بیان کی جاتی ہے، اس میں ہمیں کئی جگہوں پر خالصتاً خلا نظر آتا ہے، پتہ نہیں اب یہ کیسا ماجرا ہے۔ بہرحال اس بات سے میں متفق ہوں کہ اگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل روح یہ ہے کہ دل و جان سے حضور کی پیروی کی جائے نہ کہ سبز جھنڈوں تلے مشعل بردار جلوس نکال کر۔
اور یاسر عمران مرزا صاحب، میں یہ کہوں گا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا اور اسی طریقہ سے ہر روز کو عیدمیلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بنانا ہمارا شیوہ ہونا چاہیے، نہ کہ اس بحث میں پڑا جائے کہ کیا جائز اور کیا ناجائز۔۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے آپکا؟ (غلطی کوتاہی معاف :neutral: )۔
افتخار صاحب کی بات میں وزںاس لئے ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تاریخ پیدائش میں شدید اختلاف ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کے دور میں اس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی۔ اس لئے صحابہ کے دور میں اسے منانے کا کوئی ثبوت نہیںملتا۔۔سعودی علماء احادیث کی کتب میں تو تبدیلی نہیں کر سکتے۔۔
اچھا کیا ہے ہے یہ پہلے ہی طے کیا جا چکا۔۔حیرت ہے کہ یہ صحابہ کو پتہ نہ تھا کہ یہ اچھا عمل ہے لیکن آج کے صاحبان کہ علم ہے۔۔
سیّدہ صبا صاحبہ
بالکل درست کہا آپ نے
فی امان اللہ
یاسر عمران مرزا صاحب
آپ نے فرمایا ہے کہ “ہمیں اپنے عمل کو اسوہء حسنہ کے مطابق کرنا چاہیئے”۔ اسی سے آپ کا بقایا مؤقف غلط قرار پاتا ہے ۔ میں بھی عالِم نہیں ہوں لیکن طالب علم ہوں دین کا بھی اور دنیاوی علوم کا بھی اور ساٹھ سال سے ان علوم کو سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
سب کچھ سعودی عرب کے سر باندھتے ہوئے آپ یہ بھُول گئے کہ آپ حج اُنہی کے ہاں جا کر اُنہی کے پیچھے نماز ادا کر کے کرتے ہیں تو اس مسلک کے تحت کیا آپ کا حج بھی غلط نہیں ہو گا ؟
میں نے عربوں کے ساتھ آٹھ نو سال کام کیا ہے ۔ عرب سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی ہم پاکستانیوں کی نسبت بہت زیادہ عزت کرتے ہیں حضور کی سْنت پر عمل کر کے اور ہمصرف جلسے جلوس کرتے رہتے ہیں اور ان میں بھی بعض اوقات حضور سے گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں
میں کسی کے خلاف کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا صرف اتنا آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ طاہر القادری صاحب کو میں بیس پچیس سال سے جانتا ہوں اور ان کا لکھا ہوا قرآن شریف کا ترجمہ بھی میں نے کئی بار نے پڑھا ہے
سیّدہ صبا صاحب
یہی تو دورِ حاضر کے مسلمان کا سب سے بڑا فضیحتا ہے ۔ آپ نے میری یہ تحریر پڑی تھی
https://theajmals.com/blog/%D8%B1%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%81-%D8%B5%D8%B1%D9%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9/
عبد اور یاسر عمران مرزا صاحبان
معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ حضرات نے میری تحریر کے نفسِ مضمون کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور مفروضہ پسِ منظر پر تبصرے کر دیئے ۔ میں نے شروع میں لکھا ہے کہ چند روزہ محبت کیلئے تو عاشقوں نے جانیں گنوا دیں ۔ اشارہ اس طرف ہے کہ ہم اپنے آپ کو عاشقِ رسول کہتے ہیں اور عمل ہمارا صرف جلسے جلوس تک محدود ہے ۔ ایک عورت سوہنی کی خشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک شہزادے نے اُس کی بھینسیں چرانے کی نوکری اختیار کر لی ۔ ہم کیا کرتے ہیں اپنے نبی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ؟ جلسہ جلوس اور شاعری ؟ بتایئے نا کہ کیا کرتے ہے اس کے علاوہ ؟
حضور آپ روزانہ منایئے مولدالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سّلم ۔ کس طرح ؟ اُن کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کر کے جس کیلئے آپ کو ان کی حیاتِ مبارک کا اچھی طرح مطالعہ کرنا پڑھے گا اور وہ بھی ثواب کا کام ہو گا اگر اس پر عمل کرنے کی نیت سے پڑھیں گے ۔ میں کسی کو میلادِ مبارک کے دن حلوہ پکا کر کھانے اور رشتہ داروں محلے داروں اور غریبوں کو کھلانے سے نہیں روکتا ۔ اگر دکھاوے کیلئے نہ کیا جائے تو یہ ایک اچھا عمل ہے ۔ لیکن جس کی محبت میں حلوہ پکایا جائے اُس کے بتائے ہوئے راستہ پر بھی تو چلیں ۔ یہ منہ زبانی محبت کس کام کی ؟
افتخار صاحب! مجھے آپ کی یہ محبت اچھی لگی جو آپ نے عاشقوں کو اپنے محبوب کا دن منانے سے روکا! اب دلیل جو بھی ہو!!!
ااسلام و علیکم
میں کسی بعث میں جانے کی بجائے یہ کہوں گئی۔ ہمارا ہر وہ عمل جو دوسروں کی تکلیف کا باعث نا بنے اور ہمارے پیارے نبی کا فرمان اور ھمارے لیے ثواب کا سبب بنے وہی 12ربیع الاوّل ہے ۔
جو مرضی ہو
میں تو نصیبو لعل کے گانوں پر بنی نعتیں سننے ضرور جاتا ہوں
لوگوں نے پورے پورے بینڈ باجے اور ساؤنڈ سسٹم رکھے ہوتے ہیںٹرالوں پر اور دے دھنا دھن لگے ہوتے ہیں۔ یہ کونسی محبت کا اظہار ہے؟ میں نے تو ”ون نائیٹ ان مائی ڈریم“ پر بھی نعت سنی ہوئی ہے۔
پچھلے سال تو میں تھا نہیں یہاں لیکن اس سے پچھلے سالوں میں تو ہر پنجابی فلم کے گانے پر ایک عدد نعت بنی ہوتی تھی اور اگر آپ غور نا کریں تو یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ بندہ واقعی ”اوریجنل“ گانا نہیں گا رہا۔ آجکل تو نا مسرت نذیر ان ہے نا نور جہاں اور نا ہی کوئی پنجابی گانا یا فلم کا گانا ہٹ ہوا ہے، بیچاری شازیہ منظور اور حمیرا ارشد بھی کہیںگواچ گئی ہیں۔ پر میں مایوس نہیں کیونکہ مجھے پتا ہے
یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
شکریہ انکل۔۔۔ آپ کی یہ پوسٹ نہیں پڑھی تھی ، لیکن اب پڑھ لی ، بہت خوب، مجھے وہ ڈائیگرام کافی اچھی لگی، اپنی بات سمجھانے کا خوب طریقہ ہے۔ کوئی تو ہے جو اس نقطے کو سمجھتا ہے۔
تانیہ رحمان! دل جیت لیا آپ نے۔۔۔۔ خوش رہیں۔ کیا بات کہہ دی۔
جزاک اللہ خیر۔
تمام عالم ِ اسلام کو جشن ِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے ہماری ہدایت و رہنمائی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا کہ جن کی بدولت آج ہم مسلمان کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا ہو!۔۔۔آمین!
بچپن سے اپنے محلے کی مسجد سے گانوں کی دھنوں پر بنی نعتیں سنتا آ رہا ہوں۔ اس وقت بھی یہ بہت عجیب لگتا تھا اگرچہ سمجھ نہیں تھی۔ لیکن اب تو باقاعدہ گھن آتی ہے۔ میلوں ٹھیلوں کا شوق تو سارا سال ہم لوگ پورا کرتے ہی رہتے ہیں کیا اس مبارک دن کو منانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ڈھونڈ سکتے ؟؟؟ اور جو بےہودگیاں جلوس میں ہوتی ہیں کیا وہ اس دن کی شان کے مطابق ہیں؟؟؟ اور یہ سب جو ہوتا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟
مجھ کو تو لگتا ہے کہ ہم لوگوں کے پاس سوال ہی باقی رہ جائیں گے۔ ان کے جواب شاید روز قیامت ہی ملیں۔۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
جعفر صاحب روز قیامت جواب نہیں سزا ملے گی۔ جواب تو ہمارے پاس موجود ہیں لیکن ہم ان پر وقت ضائع نہیںکرنا چاہتے کہ دنیاوی لذت کھونا پڑتی ہے
اچھا کیا آپ نے ساری کھانی لکھ دی
تبصرے ماشااللہ خوب ھین اور اس بات کا یقین دلاتے ھین کہ صحیح سوچ رکھنے والے لوگ موجود ھین
نعتون اور آپ صل اللہ علیہ و صلم کی تعلیمات کے ذکر مین اچھاءی ھے
لیکن مئجھے اب بھی جو باتین تکلیف دیتی ھین وہ یہ ھین
موضوع اور غریب حدیثون کا بیان
کھڑے ہو کر سلام پڑھنا اور یہ کہ اب رسول اللہ صل اللہ علیہ و صلم ھماری محفل مین تشریف لے آئے ھین
در اصل اسلام کی تعلیمات مین شخصی دن کو اہمیت نہین دی گئی اور یہ بھی ھے کہ آپ صلعم کی زندگی مین تو اتنے دن ھین جو منانے کے قابل ھین کہ سارا سال ھم مناتے رھین تو بھی پورے نہ ھون۔ اس مین کوئی شک نھین کہ آپ صلعم کا یوم پیدائش ایک نھائت تاریخی دن ھے ۔میرے ناقص خیال مین تو آپ صلعم کی سیرت طیبہ کا ذکر ھو اور تعلیمات پر زور دیا جائے تو بھتر طریقہ ھو گا اپنے متعلق پہلے بھی لکھ چکا ہونکہ مین نے داڑھی آپ صل اللہ علیہ و صلم کی محبت مین رکھی ھے آپ صل اللہ علیہ و صلم کی حیات پاک کا ذکر میرے اوپر ایسا ھی حال طاری کرتا ھے جیسا علامہ اقبال رح پر ھوتا تھا اور آنسو نھین رکتے مبیان دل سے کیا جا رھا ھو تو شاید آپ بھی آنسو نہ روک سکین روح بلالی چاھیے
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
میں کوئی 30 سال قبل پاکستان کے سفارتخانہ میں ہونے والی محفلِ میلاد میں شامل ہوا ۔ وہاں اسی قسم کی نظم پڑھی گئی ۔ اس کے بعد میں دس سال محفلِ میلاد میں شامل نہیں ہوا ۔ پاکستان واپس آنے کے بعد میں ایک محفلِ میلاد میں شامل ہوا جو شہر کی سب سے بڑی مسجد میں منعد ہوئی تھی اور مہمانِ خصوصی طاہر القادری صاحب تھے ۔ طاہرالقادری صاحب کی آمد کے بعد اُن کے ساتھ ہی آئے ہوئے ایک شخص نے سپاسنامہ پیش کیا جس میں طاہرالقادری صاحب کی ایسی تعریف کی کہ جیسے وہ تمام پیغمبروں سے بھی بہتر تھے ۔ میرا اور باقی افسران کا خیال تھا کہ طاہرالقادری صاحب اپنی تعریف میں اس کا کچھ اثر زائل کریں گے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ اس کے بعدوہ سیرت النبی پر تقریر کرتے کرتے بھول گئے کہ پیغمبر انسان تھے ۔ اس کے بعد کچھ ایسی تقریر شروع ہوئی جو کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ بعد میں سمجھ آئی کہ وہ الیکشن تقریر تھی کیونکہ الیکشن ہونے والے تھے جس میں وہ حصہ لے رہے تھے ۔
افسوس۔۔ ہم ایسی محبت کرتے ہیں
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیل راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایتِ کم نظر ! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسم رخِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
یہ میری عقیدت بے بسر ،یہ میری ریاضت بے ہنر
مجھے میرے دعویٰ عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا
سر ، آپ کی تحریر پڑھی۔ جو تاریخ ہمیں پتہ ہونی چاہیے، وہ نہایت رازداری اور ڈھیٹای کے ساتھ چھپائی جاتی ہے۔
میں آپ کی بات سے اتفاق کروں گی۔
محبت کا تقاضا ہی یہی ہے کہ محبوب کی ہر ادا کو اپنایا جائے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی ‘میلاد’ جیسی چیز منائی؟
آپ نےحج کا ذکر کیا۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پر یہ آیات پڑھیں تھیں:
(ترجمہ)” اور آج کے دن ہم نے تم پر دین مکمل کر دیا ہے۔”
کیا میلاد، کونڈے اور نذر و نیاز، عرس کرنے والوں کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات میں یہ (نعوذ باللہ) کمی تھی ؟
محبت کے معیار اور انداز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بتا دیے ہیں۔ مگر ہم ان سے ہی آگے بڑھنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہیں۔
جمعہ کے خطبے میں امام یہ عربی زبان میں کہتے ہیں:” ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی آگ میں لے جاتی ہے۔ ”
ہمیں نعتیں نئی طرزوں پہ تو یاد ہوں گی۔۔۔مگر کیا کبھی صحیح آحادیث کی کتب اور قرآن کی آیات بمع ترجمہ اور مختصر تفسیر ہی سہی، یاد ہیں؟
عمل کی بات تو چھوڑیے ہم لوگ تو صرف حلوے والےمسلمان ہیں۔۔۔استغفراللہ !
حفصہ صدیقی صاحبہ ۔ السلام علیکم
تشریف آوری کا شکریہ ۔ آپ نے بالکل درُست فرمایا ہے ۔ مسئلہ رسول الله صل الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات میں اضافہ کا نہیں ہے ۔ لوگ الله کے فرمان اور الله کے رسول صل الله عليه وآله وسلم کی تعلیمات پر تو عمل کرتے نہیں خود سے ایک نیا مذہب بنا رکھا ہے اور سراسر گُمراہی میں مُبتلاء ہیں ۔ یہ دھرنے والوں کو ہی دیکھ لیجئے کہ الله کے نبی صل الله عليه وآله وسلم کا نام لے کر عوام کو سخت تکلیف میں مُبتلاء کر رکھا ہے اور ان کے لیڈران لوگوں گندھی گالیاں دیتے ہیں
سب سے آسان کام لوگوں کو دین اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جذباتی کرکے اپنا کام نکلوانا ہوتا ہے لیڈران (نام نہاد) کے لیے۔