سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملہ کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر میں جو کچھ سن چکا تھا دل و دماغ اسے ماننے کیلئے تیار نہ تھا ۔ میں آج دو پہ اور پھر سہ پہر کو یعنی دو بار لکھتے لکھتے ڈر کر رُک گیا کہ قارئین کہیں مجھ پر حملہ کر کے میرا منہ ہی نہ نوچ ڈالیں ۔ اب کہ جیو ٹی نے وہ وڈیو چلا دی ہے جس سے میری سنی ہوئی باتیں درست ثابت ہو گئی ہیں تو لکھنے کی ہمت ہوئی ہے ۔
گذشتہ رات سلمان تاثیر اور رحمان ملک سمیت سرکاری اہلکاروں نے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور حملہ آور 12 بتائے تھے ۔ اُن کی کارکردگی کا پول لاہور والوں کے سامنے تو کل ہی کھُل گیا تھا اور مجھے بھی کسی نے بتا دیا تھا ۔ حملہ آور جو کُل 8 تھے اور تین تین اور دو کی ٹولیوں میں حملہ آور ہوئے تھے ۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کل صبح 8 بج کر 42 منٹ پر حملہ شروع ہوا اور 25 منٹ جاری رہا ۔ اس کے بعد حملہ آور بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اور ایک قریبی سڑک پر جا کر موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر فرار ہوئے ۔ جب تیسری ٹولی موٹر سائکل پر روانہ ہوئی اس وقت 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے
لاہور کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ رحمان ملک کی زیرِ نگرانی ہوا ہے ورنہ ایسے ہو ہی نہیں سکتا کہ حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیاں پورے علاقے کو چاروں طرف سے نہ گھیر لیتیں اور نہ حملہ آور اس آسانی سے فرار ہو سکتے تھے ۔ خیال رہے کہ حملہ سے ایک دن قبل یعنی پیر کے روز رحمان ملک لاہور میں سلمان تاثیر کے ساتھ خصوصی میٹنگ گر کے آئے تھے
السلام علیکم۔ میں نے کہیں پڑھاتھا کہ رحمان ملک صاحب اس وقت پڑوسی ملک ایران میں تھے۔اور انکے واپسی پر کسی ٹھوس بات (حکومتی موقف) معلوم ہونے کی بابت بتایا گیاتھا۔
اللہ اعلم بالصواب۔
:neutral:
لیکن اس واردات کا تو سب سے زیادہ نقصان ہی ان دونوں کو ہوا ہے۔ اس صورت حال میں کیاآپ نہیں سمجھتے کے فوائد حاصل کرنے والی پارٹیاں پر زیادہ شک کیا جاسکتا ہے۔ انتظامیہ میں تو شہباز شریف کے بھی کافی رابطے اور وفادار ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ شہباز شریف اس میں ملوث ہیں لیکن سلمان تاثیر کی تو “گدی” کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو انہوں نے اتنی تگ و دو کے بعد حاصل کی ہے اس لیے اس میں بظاہر ان کے ملوث ہونے کا امکان کم ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ :
لاہور کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ رحمان ملک کی زیرِ نگرانی ہوا ہے
انصار عباسی کہتے ہیں کہ:
ان اہلکاروں کا کہنا ہے۔
کہنے کو تو کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔ مجھے ملا صوفی محمد پسند نہیں اگر میں کہوں کہ یہ سب کچھ ملا صوفی محمد نے کروایا ہے تو یہ بات بھی قابل اشاعت اور قابل یقین ہوجائیگی؟
اسلام وعلیکم ،
نعمان صاحب، آپ کی بات ایک حد تک ٹھیک بھی ھے، لیکن میںآپ کی اس بات سے اختلاف کروں گا کہ جو کچھ مرضی میں آے کہ دے، دراصل بیانات کو اگر واقعات اور حقاٰئق کی رو شنی میں دیکھا جاے تو ، بیانات کی تصدیق ہوتی نظر آتی ھے-
محبِ پاکستان صاحب
ایسی وارداتوں پر غور کریں تو اصل کردار ہمیشہ واردات کے وقت موقع سے ُدور ہو گا بعض اوقات کسی میٹنگ میں یا پھر ہسپتال میں
رحمان ملک بے چارے کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ سازشیں کرتا پھرے۔۔۔ اس کے تو میک اپ میں ہی 5 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔۔۔
یہ بھی اطلاع ہے کہ جس وقت یہ وقوعہ ہوا۔۔۔ہمارے چاکلیٹی گورنر سو رہے تھے۔۔ کچھ شبینہ سرگرمیوں کی وجہ سے تھکن زیادہ تھی۔۔۔ ان کو سوتے سے اٹھا کر یہ خبر سنائی گئی۔۔۔ دروغ بر گردن دریائے راوی ۔۔۔۔
راشد کامران صاحب
جہاں تک وفاداروں کی بات ہے تو پولیس کسی کی وفادار نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ اپنی نوکری سیدھی رکھتے ہیں ۔ دوسرے گورنر راج قائم کرتے ہی پنجاب بالخصوص لاہور کے تھانیداروں سمیت پولیس اور انتظامیہ کے تمام اعلٰی افسران تبدیل کر دیئے گئے تھے ۔ یہ لوگ شہباز شریف کے دوست نہیں تھے بلکہ اس نے اپنی دانست کے مطابق اندھوں میں سے کانے چُنے تھے ۔ یہ بھی خیال رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جس گواہ کا بیان اسے پھانسی تک لے گیا وہ بھٹو کا سکیورٹی ایڈوائزر مسعود تھا ۔ بینظیر بھٹو وزیرِاعظم تھیں تو اس کے بھائی مرتضٰے بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی شعیب سڈل ڈی آئی جی نے کی تھی ۔ گولیاں بھی شعیب سڈل کی سرکاری کوٹھی کی چھت سے چلائی گئی تھیں جو اُسے نہ لگیں پھر ایک انسپکٹر پولیس جس نے اس کے قریب جا کر اُسے ہینڈز اَپ کروایا تھا اُس نے اسے قتل کیا ۔ شعیب سڈل آصف زرداری کا دوست تھا اور اب بھی ہے ۔لاہور والا کام بھارت کی راء کا ہے ۔ حالات و واقعات اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں
ایک ۔ آصف زرداری اس سے کوئی مفاد حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ 12 مارچ کو شروع ہونے والے لانگ مارچ کو روکا جا سکے
دو ۔ صدر ۔ مرکزی حکومت کی وزارتِ داخلہ اور گورنر پنجاب سیاسی جوڑ توڑ اور عوام دشمن سازشوں میں گم تھے اور ساری پولیس اور انتظامیہ کو بھی اس میں لگا رکھا تھا کہ وہ بھول گئے کہ صدر نے سری لنکا سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی ٹیم کو صدر جیسی سکیورٹی مہیا کی جائے گی جبکہ کہ حقیقت میں ایک وزیر کے برابر بھی نہ دی گئی ۔
نعمان صاحب
آپ پہلے اپنے ذہن کو آزاد کیجئے پھر حالات و واقعات پر غور کیجئے بات سمجھ میں آ جائے گی
میں اجمل انکل کی اس بات سے متفق ہوں جو انہوں نے وجہ نمبر ایک بتائی ہے۔ سرکار لانگ مارچ سے ڈر کر بار بار کہہ چکی ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ اور یہ کام صرف لانگ مارچ کے شرکا کو ڈرانے کے لئے کیا گیا ہے یا شائد ایسے ہہی کسی مزید واقعے کی بنیاد رکھنے کے لئے۔ جہاںتک دوسری جہ کی بات ہے تو میرا نہیں کیال کہ ایسا ہے۔ اس سب مصروفیت کے باوجود ایک اچھی سیکیورٹی مہیا کی جا سکتی تھی