میری کل کی تحریر پر سب بہن بھائیوں نے بڑے خلوصِ شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کیلئے میں اُن کا مشکور ہوں اور سب کا انفرادی طور پر جواب نہ دینے پر معذرت خواہ ہوں ۔ احمد صاحب نے درست طور پر تاریخ مولدالنبی پر اختلاف کا ذکر کیا اور اس کیوجہ بھی یہی ہو سکتی ہے کہ پہلی چار صدیاں کسی نے اس کی طرف توجہ دینے کی بجائے پیغمبرِ اسلام رحمتً لِلعالَمِین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تعلیمات پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ۔ تاریخی کُتب مطابق 9 یا 12 ربی الاوّل میں سے ایک تاریخ ہے ۔ میں کسی زمانہ میں محفلِ میلاد میں جاتا رہا ہوں اور جلوس میں بھی شرکت کی لیکن جو کچھ میں نے وہاں ہوتے دیکھا اُس میں زیادہ تر صرف دکھاوا ہونے کے علاوہ جس سے محبت کے اظہار کیلئے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اُسی کی تعلیمات اور سُنت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔
تمام تبصروں کا جواب میں حکیم الاُمت علّامہ محمد اقبال کے الفاظ میں لکھ رہا ہوں
تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی يہ وہ گل ہی نہيں
ہاتھ بے زور ہيں الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
اللہ سے کب پيار ہے ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن ۔ تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے ؟
منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئينِ رسولِ مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعارِ اغيار ؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعي نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا تلقين غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
معذرت کے ساتھ شاید آج کل روحِ بلالی کا ٹھیکہ رحمان بابا کے مزار پر دھماکے کرنے والوں نے لیا ہوا ہے۔
يوں تو سيّد بھی ہو مرزا بھی ہو ‘طالبان’ بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟
میرے نزدیک سیرت رسول اور محبت رسول دونوں کا تذکرہ کرنا چاہیے اور کسی گروہ کے بارے میں آپ یہ رائے نہیں دے سکتے کہ وہ سیرت پر عمل یا محبت رسول کم رکھتا ہے بلکہ اس کے بجائے وحدت و اخوت کی بات کرنی چاہیے۔
الف نظامی صاحب
بصد معافی میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے ذکر رسولۖ [بشمول سیرت و محبت] سے کسی کو منع نہیں کیا ۔ ذکرِ رسولۖ ہو تبھی سُنّتِ رسولۖ پر عمل ہو گا ۔ میرے ذہن میں وہ خلافِ احکامِ رسول فعل ہیں جو رسولۖ کی محبت کے نام پر کئے جاتے ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور یہ صرف میرا یا آپ کا نہیں ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ میں نے کسی خاص شخص یا گروہ کی طرف اشارہ نہیں کیا ۔ میرے مخاطب تمام ہموطن مسلمان ہیں ۔ آپ نے درست کہا ہے کہ “وحدت و اخوت کی بات کرنی چاہیے”۔ لیکن کس سے ؟ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ سب انسان برابر ہیں سوائے اسکے کہ کو تقوٰی میں زیادہ ہو ۔ پرویز مشرف بھی وحدت اخوت کی بات کرتا تھا ۔ زرداری بھی کرتا ہے اور امریکہ کا صدر بھی کرتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں ہمیں بحیثیت مسلمان جو اخوت و وحدت کی بات کرنا ہے وہ اُس طرح کرنا ہے جس طرح ہمارے پیارے نبی رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے کی اور اُن کے صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم نے کی ۔ آپ ان جشنوں میں شامل ہو کر غور کیجئے کہ ہم اپنے نبیۖ کی پیروی کر رہے ہیں یا عیسائیوں اور ہندؤں کی ۔
آپ نے طالبان کی بات کی ہے ۔ بیت اللہ اور فضل اللہ وغیرہ کو میں نہیں جانتا ۔ دیگر ابھی تک واضح نہیں ہوا کہ رحمان بابا کے مزار پر دھماکہ کس نے کیا ۔ میں صرف اتنا کہوں گا کہ کسی کے مزار پر دھماکہ کرنے والا اگر پاگل نہیں ہے تو وہ مسلمان بھی نہیں ہے ۔
الحمد للہ نعت خوانی صحابہ کرام کی سنت ہے کسی ہندو یا عیسائی کا تتبع نہیں۔
موضوع سے ہٹ کر ایک بات کہ اس پر بھی غور کیجیے گا:
جب ریاست کسی گروہ کو اسلحہ سے مسلح کرے تو پھر یہ بھی اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ گروہ اس اسلحہ کا صرف جہاد میں ہی استعمال کرے نہ کہ مسلکی ترویج کے لیے۔
پاکستان میں بین المسالک بدامنی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔
اجمل صاحب اس سلسلے کی دونوں تحریریں عمدہ ہیں۔ نہ معلوم کیوں تبصروں میں وہ بات زیر بحث آنی شروع ہوگئی جس کا آپ کی تحریر میں تذکرہ تک نہیں ہے اور اس بات کو پس منظر میں دھکیل دیا گیا جو تحریر کا اصل مقصد تھا۔ میرا بھی یہی موقف ہے کہ ہر انسان کو عقائد اور مذہب پر عمل کی پوری آزادی ہے لیکن کیا عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے جو طریقے اور ذرائع اپنائے گئے ہیں کیا براہ راست وہ رسول اللہ کی تعلیمات سے متصادم نہیں؟ کراچی شہر میں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ مذہبی اور سیاسی اجتماعات اور جلوسوں کے راستے دانستہ ایسے رکھے جاتے ہیں جہاں اختلاف کرنے والوں کی اکثریت ہو یا جہاں تصادم کا بھرپور اندیشہ ہو ۔۔ یہ عقیدت کا یا خوشی منانے کا کون سا انداز ہے؟
الف نظامی صاحب
جو کُتب کمال مہربانی فرماتے ہوئے مجھے عنائت کی تھیں اُن میں تو اس کا تذکرہ نہیں ۔ جہاں تک میرا خیال ہے اندازے والی بات ہے کیونکہ اس دور میں شعر میں بات کرنا ایک مہذب وصف سمجھا جاتا تھا ۔ رسولۖ اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے لوگ ان کو اللہ کی عنائت کردہ اوصاف کو دہراتے تھے اور اپنی عقدت کا نذرانہ بھی پیش کرتے تھے ۔ مگر دورِ حاضر کا مسئلہ تو یہ ہے کہ نعت گوئی کو فلمی گانوں کی طرح گایا جاتا ہے یا پھر عیسائیوں کے سرمن یا ہندوؤں کے بھجن کی طرح ۔ اور میلاد کی محفلوں میں کچھ ایسی نظمیں بھی پڑی جاتی ہیں جو دین اسلام کی نفی کرتی ہیں ۔ ان میں سے ایک کا ذکر وہاج الدین احمد صاحب نے کیا ہے ۔
گُستاخی معاف ۔ ریاست گروہ اور اسلحہ والی بات کا میری تحریر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
راشد کامران صاحب
جس بات کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے اور میرے خیال کے مطابق اُردو بلاگنگ کی تیز ترقی میں بھی یہی خُو حائل ہے ۔ جتنی اُردو بلاگنگ میں دلچسپی لی جا رہی ہے اگر صحتمند بحث کی جائے تو اس کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہو جائے ۔
“۔مگر دورِ حاضر کا مسئلہ تو یہ ہے کہ نعت گوئی کو فلمی گانوں کی طرح گایا جاتا ہے یا پھر عیسائیوں کے سرمن یا ہندوؤں کے بھجن کی طرح ۔ اور میلاد کی محفلوں میں کچھ ایسی نظمیں بھی پڑی جاتی ہیں جو دین اسلام کی نفی کرتی ہیں۔”
۔معذرت کے ساتھ یہ بالکل غلط perception ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ مخالفین سنت مطابق نعتیہ محافل کیوں نہیں کرواتے۔ میرے مشاہدے کی بات ہے کہ ایک دیوبندی عالم نے پچھلے دو سال سے ۱۲ ربیع الاول کو اپنی مسجد میں محفل نعت منعقد کروانا شروع کی تو اس سال ان کی مخالفت انہی کے مقتدیوں نے یہ کہہ کر کرنا شروع کردی کہ یہ کیا بدعتیوں والے اعمال شروع کردیے ہیں ، یعنی نعت پڑھنا ان کے نزدیک بدعت ہے۔
آپ منافقت پر مبنی رویہ پر لکھتے ہیں، رحمان بابا کے مزار پر ربیع الاول کے مہینہ میں دھماکہ ہوا آپ نے اس کچھ نہیں لکھا ، ہوسکتا ہے شاید یہ خبر آپ کی نظر سے نہ گذری ہوگی ریاست اور اسلحہ والی بات کا اسی سے تعلق ہے جس کو آپ چند سال قبل ۱۲ ربیع الاول کو ہونے والے سانحہ نشتر پارک کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
والسلام مع الاکرام
اللہ سبحان و تعالٰی نے قرآنِ کریم میں اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود و سلام بیجھا ہے اور مسلمانوں کو ایسا کرنے کی ھدایت کی ہے۔
مسلمان کے لیے فرض ہے کہ وہ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دنیا کی ہر شئے سے زیادہ عزیز رکھے۔ مسلمان کو اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہر رشتے سے بڑھ کر محبت ہو ۔ یعنی ماں باپ بیوی بچے الغرض دنیا کے ہر رشتے سے بڑھ کر اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت ہو تو تب جا کر مسلمان کا ایمان کامل ہوتا ہے اور مسلمانی کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور یہ شرط ہے۔
ظاہر ہے جو ( محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) ہر چیز اور ہررشتے سے بڑھ کر عزیز ہو ، محبوب ہو ۔ اس کا حق بھی ہم پہ اتنا ہی زیادہ بنتا ہے کہ ہم ان (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) سے اپنی محبت کا اظہار زبانی طور پر (درود و سلام بیجھ کر کریں) اور عملی طور پر ( اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی تعلیمات کے مطابق اسلام کے بتائے رستے پہ کر چل کریں۔ قران و سنت پہ عمل کرنا ہی درحقیقت اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اظہار محبت اور عقیدت ہے۔ اور ہر روز ہر دن اور دن کے چوپیس گھنٹے مسلمانوں کے لیے محبت کا یہ اظہار شرط ہے۔ یہ محبت بھی ہے ۔ عقیدت بھی ہے۔ اور عبادت بھی ہے۔ اور میری ذاتی رائے میں آپ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کے اظہار کے لیئے اگر مذید ایک پورا دن، ان صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یوم ولادت کے دن اگر سارا دن درود و سلام بیجھ کر گزار لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چہے یہ اجتماعی فیصلہ ہو یا انفرادی، جب معاشرے نے مل جل کر یوم ودلات کو خصوصی طور پہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طور پہ چن لیا ہے اور اس دن ہر کوئی اپنی استاعت کے مظابق درود و سلام کی محفل کا بندوبست کرتا ہے تو یہ احسن اقدام ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ آپ حیات طیبہ کے مطابق کسی کو تنگ نہ کیا جائے۔ کسی کا دل نہ دکھایا جائے۔
آپ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دنیا میں سراپا مجسم رحمت تھے۔ آپ کے اسوہ حسنہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا تھا۔ کبھی کسی کو تنگ نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ انصاف اور میانہ روی سے کام لیا۔ آپ کے عدل اور انصاف کی وجہ سے دوسرے مذاہب والے بھی آپ سے اپنے فیصلے کرواتے تھے ۔ اور جو نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسقدر انصاف پسند ہو اور مجسم ڑحمت ہو ان کے ماننے والوں کو ان کی تعلیمات پہ عمل کرنا فرض بنتا ہے۔ ان کی سنت پہ عمل کرنا لازم بنتا ہے۔
میری ذاتی رائے میں یہاں تک تو کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم کسی خاص دن کو اس مقصد کے ہی الٹا مناتے ہیں جس مقصد کے لیے صاحب دن ( محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے اپنے شب و روز سے انسانیت کے لیے وہ مثال قائم کر دی کہ جو روز قیامت تک کوئی دوسرا نہیں قائم کر سکے گا اور نہ ہی ماضی میں ہی کسی نے انسانیت کے لیے ایسی بے مثال، بے داغ اور روشن مثال قائم کی۔ ساری دنیا کے غیر مسلم دانشور بھی اس بات پہ متفق ہیں کہ دنیا میں بہترین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے۔ اس لئیے اگر اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اپنے امتی ہی ان سے محبت کا دم بھرے کا دعوایٰ کرتے ہوئے وہ کام کریں جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچے خواہ وہ تکلیف جسمانی ہو یا ذہنی تو میرٰی رائے میں ایسے لوگ اسلام اور اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کو نہیں سمجھتے ۔
مسلمانوں کو کبھی بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کو تنگ کریں اور وہ بھی اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کا دم بھرتے ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارتی فلموں کی دھنوں پہ گائی کی نعتیں بھی بنائی گئین ہیں اور ےو ٹیوب وغیرہ پہ عام ملتی ہیں اور اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر مبارک بھارتی فلموں کی دھنوں پہ سن کر دل کو کوفت ہوتی ہے ۔اس لئیے میری نظر میں بے جا بینڈ باجے جلوس اور بھارتی فلموں کی سرقہ دھنوں پہ نعتیں وغیرہ اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کے منافی ہیں۔
ہم مسلمانوں کو ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ و مغرب اور سابقہ سویت ہونین کے درمیان کئی دہائیوں پہ مشتمل مشہور زمانہ ُُسرد جنگ، میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پروپگنڈہ نہائیت ہی سیاسی اور تکنیکی بنیادوں پہ کیا جاتا تھا تب سے یہ باقاعدہ ایک فن بن چکا ہے ۔ اس تکنیک کی ایک خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی نظام کو مذہب یا ازم کو عام آدمی کی نظر میں خراب کرنے کے لیئے اسی نظام۔ مذہب یا ازم کا لبادہ اوڑھ کر ایسی حرکات کی جائیں جس سے عم ذہن رکھنے والا آدمی بھی اس مخصوص نظام ،مذھب یا ازم سے بد ظن ہوجائے ۔ اور مسلمانوں میں سے کچھ کم عقل لوگ یہ خام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں ۔ اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور ماننے والوں میں سے زیادہ کے اعمال ایسے کہ ان سے گھن آئے ۔ ایسے میں وہ کونسا اسلامی ماڈل ہے جو ہم غیر مسلموں کو پیش کر کے اسلام کی طرف راغب کرسکتے ہیں؟ اس لئیے ظروری ہے کہ یوم عید میلاد النبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناے کا طریقہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو اور اس کے لئیے مسلمان علماء اور دانشور ایک ضابطہ اخلاق بنائیں جس پہ عمل کر کے ہم ایسی عملی مثال قائم کر سکیں جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اسلام کی طرف راغب ہوں۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
جاوید گوندل صاحب
آپ نے بالکل درست کہا ۔ مجھے اسی سے دُکھ ہوتا ہے کہ جس عظیم ہستی کے نام سے ہم ایک دن مناتے ہیں اُسی کی تعلیمات کے خلاف عمل کرتے ہیں تو یہ محبت ہوئی یا ۔ ۔ ۔
الف نظامی صاحب
آپ نے میرے بیان کو “بالکل غلط ادراک” قرار دے دیا ۔ میں بجائے مزید بحث کرنے کے آپ کو آپ کے حال پر چھوڑنا مناسب سمجھتا ہوں ۔ انشاء اللہ وہ وقت آئے گا جب آپ اپنے آپ کو غلط اور مجھے درست کہیں گے لیکن اُس وقت شاید میں اس دنیا میں نہ ہوں ۔
آپ بتائیں کہ رحمان بابا کے مزار پر دھماکے سے سوائے عمارت کے اور کیا نقصان ہوا ہے ؟ ملک میں دھماکوں اور فائرنگ سے آئے دن بیگناہ لوگ مر رہے ہیں ۔ اُس کے متعلق کچھ بتایئے
رحمان بابا کے مزار پر دھماکے سے سوائے عمارت کے اور کیا نقصان ہوا ہے ؟
——————————
یہ ایک پیغام ہے جیسا کہ چند سال قبل 12 ربیع الاول کو سانحہ نشتر پارک میں دیا گیا تھا جس میں کئی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔رحمان بابا کے مزار پر دھماکے سے کیا نقصان ہوا اگر آپ یہ سمجھ نہیں سکتے تو میں معذور ہوں۔
—————————————
ملک میں دھماکوں اور فائرنگ سے آئے دن بیگناہ لوگ مر رہے ہیں ۔ اُس کے متعلق کچھ بتایئے۔
—————————————
بہت افسوسناک ہے۔ آپ کو یقینا علم ہوگا کہ ان خودکش دھماکوں کے پیچھے کون ہے میں ان کا تذکرہ کرنا نہیں چاہتا۔
علما و دانشور حضرات کو اس مسلہ کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
lets agree to disagree.
والسلام مع الاکرام۔
ول
الف نظامی صاحب
آپ نے خود ہی وہ بات کہہ دی جو میرے ذہن میں تھی ۔ نشتر پارک میں دھماکہ طالبان نے نہیں کرایا تھا بلکہ ایم کیو ایم نے کروایا تھا اور اپنے مخالف تمام بڑے بڑے مولویوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ اس سانحہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ مسئلہ درپیش مسلمان اور مسلمان دشمن کا ہے ۔ جلسے جلوس کا نہیں ہے ۔ اسلام کے دشمن تو واضح ہیں لیکن اُن کا کیا کیا جائے جو اسلام کا نام لے کے اسلام دُشمنی کر رہے ہیں ۔آپ اللہ جانے کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ۔جتنی بھی بحث آپ کے ساتھ ہوئی ہے اس کا ان تحریروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جن پر آپ بحث کر رہے ہیں ۔