المعروف عوامی دور میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک بدنام جج کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا تو اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی صاحب نے توہینِ عدالت کے موضوع کے تحت اس جج کی کرامات لکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جج کو چیف جسٹس بنانا توہینِ عدالت ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے الطاف حسن اور اس کے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن کو گرفتار کر لیا اور ان کا رسالہ اُردو ڈائجسٹ بند کر دیا ۔ مکافاتِ عمل دیکھیئے کہ بعد میں اعلٰی عدالت کے جس بنچ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی اُس میں متذکرہ بالا جج بھی شامل تھا
فرح حمید ڈوگر کے ایف ایس سی کے نمبر بڑھانے کے واقع سے سب واقف ہو چکے ہیں ۔ اس غلط کام کے خلاف دائر پیٹیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کرتے ہوئے فرح حمید ڈوگر کی کاپیوں کی ری اسیسمنٹ [re-assessment] کو قانونی قرار دیا تھا ۔ عوامی اور پالیمانی دباؤ سے مجبور ہو کر مرکزی وزیرِ تعلیم نے محکمانہ تحقیقات کا حکم دے رکھا تھا جس کی رپورٹ تیار ہو چکی ہے جو وزیر تعلیم کے دساور سے واپسی پر وزیرِاعظم کی منظوری کے بعد جاری کی جائے گی ۔ اس رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین کو فرح حمید ڈوگر کی جوابی امتحانی کاپیوں کی ری اسیسمنٹ کرانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا ۔ غلط فیصلہ دینے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس 11 مارچ 2009ء کو ریٹائر ہونے والے تھے ۔ صدر نے اُنہیں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عظمٰی کی عزت افزائی ہے یا توہین ؟
پچھلے سال کے آخری مہینوں میں ایک خبر سامنے آئی تھی کہ گوجرانوالہ کا مشہور اور طاقتور ٹھگ نانو گورایہ جس نے شہر کے تمام تاجروں کو یرغمال بنا رکھا تھا گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ پھر اس سال فروری کے شروع میں یہ بات سامنے آئی کہ گوجرانوالہ کے اُس وقت کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کے ساتھ نانو گورایہ کے بہت قریبی تعلقات تھے اور یہ تینوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے ۔ اُس ڈی آئی جی کو 25 فروی 2009ء کو پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ختم کرنے کے بعد انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب لگا دیا گیا تھا ۔ چند دن قبل نانو گورایہ کے دوست جج کو صدر نے لاہور ہائی کورٹ سے اٹھا کر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ لگا دیا ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عالیہ کی عزت افزائی ہے یا توہین ؟
پچھلے دو ہفتوں میں سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں جو دو درجن سے زائد نئے جج تعینات کئے گئے ہیں ان میں بھاری اکثریت اُن وکلاء کی ہے جو فروری 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار تھے لیکن الیکشن جیت نہ سکے ۔ باقی وہ وکلاء ہیں جنہوں نے وکلاء تحریک سے غداری کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف بیانات دیئے ۔ یہ عدل کا سامان ہے یا توہیںِ عدالت ؟