میں نے 585 قبل مسیح تک کی بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ 22 فروری کو لکھی تھی ۔ حالات کے اچانک تغیر کی وجہ سے وقفہ طویل ہو گیا ۔ حاضر ہے 585 قبل مسیح کے بعد کی تاریخ اختصار کے ساتھ
فلسطین کی ریاست 586 قبل مسیح میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو ع ہوئے اور انہوں نے اُس جگہ کے قریب اپنی عبادت گاہ تعمیر کی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں
وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138-118 عیسوی) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن پھر بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا اور اُن کا واپس فلسطین آنا ممنوع قرار دے دیا ۔
بعد میں 614 سے 624 عیسوی تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھُلی چھٹی دے دی مگر یہودیوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم و تشدّد شروع کر دیا ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے یہودیوں کی سرکوبی کی ۔ 636 عیسوی میں بازنطینی حکومت نے مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہُ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس اُن کے حوالے کر دیا ۔ اِس طرح فلسطین پر سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم کی اُمّت کی عملداری میں آ گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہُ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639ء میں اُس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اُسے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 709ء سے 715ء کے درمیان خلیفہ ولید نے اس مسجد کی تعمیرِ نو کروائی اور اُس کا نام غالباً معراج یا اِسراء کے حوالہ سے مسجد الاقصٰی رکھا ۔ 747 عیسوی کے زلزلہ سے مسجد بُری طرح متاءثر ہوئی تو نئے سرے سے مگر وسیع مسجد بنائی گئی ۔ 1033ء میں صلیبی جنگوں نے اسے خاصہ نقصان پہنچایا ۔ مزید صلیبی بادشاہوں نے اُسے اپنے محل میں تبدیل کر دیا ۔ 1927ء اور 1936ء کے زلزلوں سے اس کی عمارت کو بہت نقصان پہنچا جس کے باعث اس کی کُلی طور پر نئے سرے سے تعمیر شروع کی گئی جس کے دوران حضرت عیسٰی علیہ السّلام سے پہلے کا عمارتی سامان بھی وہاں سے برآمد ہوا ۔
636ء سے 1918ء تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا سیّدنا محمد صلّی اللہ علیہ و سلّم کی امّت مسلمہ کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے بعد کے چند سالوں کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد 1918ء میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا ۔
بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زَکَرِیّا علیہ السّلام اور حضرت یحٰی علیہ السّلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السّلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے اُنہیں بچالیا اور اّن کا کوئی ہم شکل سولی پر چڑھا دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے
واقعی پھٹکاری ہوئی قوم ہے،
سر جی چند سوالات ہیں اگر آپ رہنمائی کر سکیں؟
۱۔ ایسا کیوں ہے کہ ہر بادشاہ نے بنی اسرائیل کو فلسطین سے دور رکھنے کی کوشش کی؟
۲۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور بعد کے مسلمان بادشاہوں کا رویہ کیسا رہا، اس بارے زرا تفصیل سے آگاہ کر دیں تو، کیوں کہ اکثر کتابوں اور تحاریر میں اس بارے کافی اختلافی بیان پڑھ چکا ہوں۔
۳۔ ہیکل سلیمانی کی کیا حقیقت ہے؟
رہنمائی کا بہت بہت شکریہ سر جی، واقعی مزہ آ گیا تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر! :smile:
محترم عمر احمد بنگش صاحب!
امید کرتا ہوں ذیل میں آپ کے کچھ سوالوں کی کسی حد تک تشفی ہو سکے گی۔ تاریخ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل (یہود) ناشکرے اور شرارتی لوگ رہے ہیں۔ مطلب اور ضرورت پڑنے پر یہ عیسائیوں کے ساتھ گرجوں میں عیسائی بن کر عبادت بھی کر لیں گے اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مسلمان بن کر نمازیں بھی پڑھ لیں گے اور نیز کسی بھی مذہب کا لبادہ آسانی سے اوڑھ لیں گے۔ اور تب تک اوڑھیں رکھیں گے جب تک اس معاشرے یا سوسائٹی کو اندر سے کمزور کر کے اس پہ غالب نہیں آجاتے۔ اور نتیجتاً وہاں سے ملک بدر نہیں کیے جاتے۔ تاریخ میں کئی ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی بھی قوم کے مذھب کی تحضیک کرنے سے باز نہیں آتے خواہ اس وقت غلامی کی ہی زندگی کیوں نہ گزار رہے ہوں اور ان کی ننگی پیٹھ پہ کوڑے کیوں نہ پڑ رہے ہوں انکی عادت، سازش، فتنہ اور فساد کی رہی ہے اور اس لئیے ہر قوم سے نکالے گئے ۔اسکی بنیادی وجہ وہ برتری کا وہ خناس بھی ہے جو ان کے دماغوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ یہ (یہود) ہرقوم سے برتر ہیں۔
قرآن کریم تاریخی کتاب نہیں جس کا مطلب محض تاریخ بیان کرنا ہو ، بلکہ قرآن کریم کتاب اللہ اور کلام اللہ ہے جس میں بنی نوح انسان کے لیے ضابطہ حیات بیان کیا گیا ہے اور اس پہ عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے اورسزا اور جزا کا ذکر کیا گیا ہے ۔ مگر جہاں جہاں اللہ سبحان و تعالٰی نے بنی نوع انسان اور مسلمانوں کو سمجھنے کی خاطر ضروری سمجھا وہاں وہاں پچھلی قوموں کا ذکر کیا ہے جس میںسب ذیادہ بنی اسرائیل کا ہے اور انکے فتنہ و فساد کا ذکر ہے۔ یہ کسی بھی حال میں مطمئین اور شاکر ہونے والے لوگ نہیں رہے ۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے ان کے لئیے آسمانوں سے من و سلوٰی بیجھا اور یہ اس سے بھی اکتا گئے ۔ اور اللہ سبحان و تعالٰی سے بھی معاذ اللہ ٹھٹھا کرنے سے باز نہ آئے۔
کوئی بھی فلسطینی اس بات کی تصدیق کرے گا کہ فلسطینیوں کے بقو انھیں اس یہودی سے اتنا خطرہ نہیں جو کہے کہ میں یہودی ہوں اور تم فلسظینیوں کو دیکھ لوں گا بلکہ اس یہودی سے بقول فلسطینیوں کے ہوشیار رہتے ہیں جو یہودی اپنے آپ کو اچھا یہودی بنا کر پیش کرے۔ اور فلسطینیوں کے حق میں ہو، کیونکہ یہ ناممکن اور سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے اور ایسے یہودی سے فلسطینی کہتے ہیں ہوشیار رہنا چاھیہے۔
فرانس سے کیمونسٹ پارٹی کے فرانس کی صدارت کے لئیے ایک سابقہ امیدوار ( جن کا نام بد قسمتی سے اس وقت یاد نہیں آرہا ) جو بعد میں مسلمان ہو گئے اور انھہوں نے اسپین کے شہر قرطبہ میں تینوں الہامی مذاھب اسلام، عسائیت اور یہودیت پہ تحقیق میں عمر گزار دی تو انہوں نے ایک مقامی بڑے اخبار کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایک بات کی جو نہائیت دلچسپ ہے انہوں نے فرمایا تھا کہ” نوے فیصد یہودی خدا کے وجود پہ یقین نہیں رکھتے مگر جب اسرائیل کی بات ہو تو سو فیصد اسرائیل کو خداد مانتے ہیں” یعنی اسرائیل کی وجہ سے انھیں خدا یاد آتا ہے۔ یہود نے فلسفہ گھڑ رکھا ہے کہ موجودہ فلسطین انکو خدا نے دیا تھا جس کو انہوں نے پانچ ھزار سال پہلے یا کم کم یا زیادہ سال بعد ( اس بارے میں بھی یہود اختلاف رکھتے ہیں) کھو دیا تھا اور اب پھر وہ واپس اپنے وطن لوٹ رہے ہیں ۔ جس طرح کریم میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے کہ انسان باقی ماندہ مخلوق سے افضل ہے اور جانوروں کو بابرداری اور خوراک لئیے استعمال میں لا سکتا ہے اسی طرح یہود کی کتاب ُتالمُود، جو بمشکل آپ کو کہیں نظر آئیگی اسمیں انکا فلسفہ حیات نہائیت خطرناک ہے ۔ جس میں یہ
نمبر 1): اپنے آپ کو اشرف النسل قرار دیتیتے ہیں ۔ اور دنیا کی ہر نسل سے اپنے آپ کو افضل سمجھتے ہیں۔
نمبر2): کہ ساری دنیا اللہ نے انکے ( یہود) کے لئیے بنائی ہے ۔ یہ ساری کائینات یہود کی ہے۔ اسمیں موجود سب چرند پرند یہود کی ملکیت ہیں۔
نمر 3): اور اسکائینات پہ حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف بنی اسرائیل کا ہے اور اس حق کو پانے کے لئیے کوئی سا بھی حربہ جائز ہے۔
محترم عمر احمد بنگش صاحب!
اس سے یہود کے پردہ اور در پردہ مقاد کے بار میں کوئی شک کسی کو نہیں رہتا اور یہ ہی وہ بڑی وجہ ہے جس کے لئیے یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے خوار ہوتے پھر رہے ہیں اور نا صرف بادشاہ اور خواص بلکہ عوام بھی انکے خلاف ہوتے رہے ہیں۔
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد اقصی اور مسجد نبوی شامل ہیں-
بیت المقدس یا القدس فلسطین کے وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں- اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں-
اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 16/1 میں لکھا ہے کہ ’’یروشلم کا عام عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدس (بعض بیت المقدس) لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمدقش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگا- یہ مصنفین ایلیا کا لفظ بھی جو Aelia سے لیا گیا، بکثرت استعمال کرتے ہیں- انہیں اس کا قدیم نام Jerusalem بھی معلوم تھا جسے وہ اور یشلم اور یسلم اور یشلم بھی لکھتے ہیں-‘‘ کتاب مقدس (بائبل سوسائٹی) میں اسے یروشلم لکھا گیا ہے- ’’بیت المقدس‘‘ سے مراد مبارک گھر‘‘ یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے سے گناہوں سے پاک ہوا جانا ہے- اقصی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بہت دور کے ہیں- ایک صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا- مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلو میٹر ہے- بیت لحم اور الخلیل بیت المقدس کے جنوب جبکہ رام اللہ شمال میں واقع ہے- بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے- انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون جس پر مسجد اقصی اور قبۃ الصخرۃ واقع ہیں- کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئی-
سب سے پہلے حضرت ابراہیم اور ان کے بھتیجے لوط نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی- 620ء میں نبی کریم جبریل کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس بہنچنے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے- مسجد اقصی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیرا مقدس ترین مقام ہے-
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصی یا الحرم القدس الشریف کہتے ہیں- یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے- یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں-
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے-
قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم نے اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائے یقینا اللہ تعالی ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے- (سورہ الاسراء آیت نمبر 6)حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے:
’’میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام (بیت اللہ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسی ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: مسجد اقصی، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال، پھر جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لو کیونکہ اسی میں فضیلت ہے- (صحیح بخاری حدیث نمبر 3366، صحیح مسلم حدیث نمبر 520) حضرت یعقوب نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا- پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی- اسی لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے تھے-
اسلامی عہد میں مسجد اقصی کی تعمیر:
137ق م میں رومی شہنشہاہ ہیڈرین نے یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیا- چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے- جب نبی کریم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اس وقت یہاں کوئی ہیکل نہ تھا، چنانچہ قرآن میں مسجد کی جگہ ہی کو مسجد اقصی کہا گیا- 2ھ /624 تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا- 17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا-
بیت المقدس کے عیسائیوں سے معاہدہ صلح طے پانے اور مقدس شہر پر مسلمانوں کے قبضے کے بعد حضرت عمرنے بیت المقدس سے روانگی کے وقت صخرہ اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کی تھی- یہی مسجد بعد میں مسجد اقصی کہلائی (کیونکہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں اس مقام کو مسجد اقصی ہی کہا گیا ہے)-
جب حضرت عمر نے اس علاقے کو فتح کیا تو یہاں کا دورہ کیا- عین اس جگہ پہنچنے کے بعد آپ نے کعب الاحبار سے پوچھا کہ ہمیں کس جگہ مسجد تعمیر کرنی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ کے پیچھے تعمیر ہونی چاہیے- مگر خلیفہ دوم نے جواب دیا کہ تعمیر اس پہاڑ کے سامنے ہوگی کیونکہ مسلمان ہمیشہ مساجد کے سامنے نماز ادا کرتے ہیں- تاریخ التباری میں ہے کہ جب حضرت عمر نے کعب الاحبار سے دریافت کیا کہ مسجد کہاں تعمیر ہونی چاہیے تو انہوں نے کہا کہ پہاڑ کے پیچھے، حضرت عمر نے فرمایا میں مسجد کی تعمیر اس پہاڑ کے عین سامنے کروں گا جیسا کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسلمانوں کی تمام مساجد کیلئے قبلہ بنا دیا تھا-
جب خلیفہ دوم حضرت عمر کو یروشلم کی چابیاں دی گئیں تو اہل یروشلم نے خلیفہ کا استقبال نہایت جوش و خروش سے کیا- شہر میں داخل ہونے کے بعد خلیفہ دوم نے شکرانے کے نوافل کی ادائیگی کیلئے اہل علاقہ سے جگہ کی بابت دریافت کیا لوگوں نے آپ کی توجہ ایک گرجا گھر کی طرف دلائی لیکن حضرت عمر نے جو جواب دیا وہ قیامت تک اسلام کے ’’فلسفہ برداشت‘‘ کی روشن مثال ہے- آپ نے فرمایا کہ میں ہرگز گرجا میں نماز ادا نہیں کروں گا- مبادا کہ بعد میں آنے والے مسلمان اسے ایک فرض عمل نہ سمجھ لیں اور ہر گرجا گھر کو مسجد میں بدل نہ دیں- اس وجہ سے آپ نے وہاں نماز ادا نہ کی- حضرت عمر نے اس جگہ چند دن قیام کیا اور مسلمانوں کیلئے بلند جگہ پر مسجد کی تعمیر کی-
آج یہ مسجد ’’مسجد عمر‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے- جب یروشلم فتح ہوا تو سیدنا عمر نے ان سے کہا کہ مجھے مسجد دائود اور محراب دائود دکھائو کیونکہ اس کا ذکر قرآن میں ہے- انہیں اس مقدس جگہ کے دروازے پر لے جایا گیا جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے- وہاں عرصہ دراز سے صفائی نہ ہونے کے باعث گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے جس کی وجہ سے داخلی دروازے کا راستہ بند ہو چکا تھا- حضرت عمر فاروق نے دائیں اور بائیں دیکھا اور فرمایا کہ ’’میں قسم کھاتا ہوں اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ یہی وہ مسجد دائود ہے جس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کیا تھا-‘‘
اس کے بعد حضرت عمر فاروق نے اپنے بدن کے کپڑوں سے اس جگہ کی صفائی شروع کردی- یہ دیکھ کر وہاں پر موجود مسلمان بھی آپ کی پیروی کرنے لگے- اس کے بعد آپ مسجد میں داخل ہوئے- وہاں پر نماز ادا کی اور تلاوت قرآن کی- اس طرح سے وہ عمارت ایک مسجد کے روپ میں آج بھی موجود ہے-
اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کرلی- خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا- 1099ء (492ھ) میں یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے ستر ہزار مسلمان شہید کردیئے- 1087ء (583ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو آزاد کرالیا- خلیفہ عبد الملک نے مسجد اقصی کی تعمیر شروع کرائی اور خلیفہ ولید بن عبد الملک ( 705ء تا 715ء) نے مسجد اقصی کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین کی اور ابو جعفر منصور نے اس کی مرمت کرائی-
صلیبیوں نے جب بیت المقدس پر قبضہ کیا تو مسجد اقصی میں بہت ردوبدل کیا گیا- انہوں نے مسجد میں رہنے کے کئی کمرے بنالیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں- سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں شہر بیت المقدس فتح کر کے مسجد اقصی کو دوبارہ تعمیر کیا- مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ الصخر ہے جو اسلامی طرز تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے- وہ مسجد جو نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخر نہیں لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بناء پر اکثر مسلمان اسے ہی مسجد اقصی خیال کرتے ہیں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع ہے-
زمانۂ قدیم میں مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا امام ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ’’مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں، اس جگہ میں جسے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے-‘‘
قبۃ الصخرہ:
اموی خلیفہ عبد الملک (685ء تا 705ء) نے قبۃ الصخرہ کی تعمیر مکمل کی اور مامون الرشید اور معتصم کے زمانے میں اس کی تجدید ہوئی- مشہور مسلمان جغرافیہ نگار مقدسی یروشلم میں 375ء میں پیدا ہوا تھا، وہ قبۃ الصخرہ کے بارے میں لکھتا ہے ’’یہ ایک ہشت پہلو عمارت ہے- اس کے چار دروازے ہیں جن تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنچا جاتا ہے-
اندرونی حصہ تین ہم مرکز والانوں میں منقسم ہے جن کے ستون سنگ مرمر کے ہیں- اس کے وسط میں صخرہ ہے اور اس کے نیچے غار ہے جس میں ستر آدمی سما سکتے ہیں- صخرہ کے گرد ستونوں کا حلقہ اسے باقی حصوں سے جدا کرتا ہے، اس کے اوپر ایک دریچے دار ڈھولنا ایک خوبصورت گنبد کو اٹھائے ہوئے ہے- گنبد کی چھت تک بندی 100 باع (سواسو گز) ہے- گنبد لکڑی کے تین چوکھٹوں کا بنا ہوا ہے- نیچے والے پر سنہری تانبا چڑھا ہوا ہے، دوسرا لوہے کی سلاخوں کا ہے اور تیسرا لکڑی کا، جس پر دھات کے پترے چڑھے ہوئے ہیں-
ہیکل سلیمانی کی تباہی:
ہیکل سلیمانی اوربیت المقدس کو 586ق م میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کردیا تھا اور وہ ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا تھا- بیت المقدس کے اس دوربربادی میں حضرت عزیز کا وہاں سے گزر ہوا، انہوں نے اس شہر کو ویران پایا تو تعجب ظاہر کیا کہ کیا یہ شہر کبھی پھر آباد ہوگا؟ لیکن سو سال بعد بیت المقدس پھر آباد اور پررونق شہر بن چکا تھا- بخت نصر کے بعد 539ق م میں شہنشاہ فارس کوروش کبیر (سائرس اعظم) نے بابل فتح کر کے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی- یہودی حکمران ہیرو داعظم کے زمانے میں یہودیوں نے بیت المقدس شہر اور ہیکل سلیمان پھر تعمیر کرلیے تھے- یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی- رومی جرنیل ٹائٹس نے 70ء میں یروشلم شہر اور ہیکل سلیمانی دونوں مسمار کردیے-
بیت المقدس پر یہود کا قبضہ:
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی- نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی- اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہوگئے تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے- تیسری عرب اسرائیل جنگ (جوان 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا- یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے- اسی لیے اسے دیوار گریہ کہا جاتا ہے-
تابوت سکینہ کی حقیقت:
تابوت سکینہ مسلمانوں کے لئے صرف ایک صندوق جتنی اہمیت رکھتا ہے اور قرآن میں اس کے بارے میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسکو اس وقت فرشتوں نے اٹھایا ہوا
ہے مزید اسکے بارے میں قرآن اور حدیث میں خاموشی ہے-
لیکن تابوت سکینہ یہودی مزہب میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسے انتہائ مقدس سمجھا جاتا ہے- عیسائیت میں بھی یہ اہمیت کا حامل ہے اور اسکا زکر انکی کتابوں میں بھی ملتا ہے-
یہودیوں اور عیسائیوں کے نظریے کے مطابق تابوت سکینہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداکے کہنے پر بنایا تھا اور اس میں وہ پتھر کی لوحیں لاکر رکھیں تھیں جو انکو خدا نے کوہ سینا پر دی تھیں اور جن میں یہودی مزہب کی تعلیمات بیان کی گئ تھیں- مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں حضرت موسی کا اعصا، اور من بھی رکھا گیا تھا جو کہ بنی اسرایئل کے لوگون کے لئے اللہ تعالی نے آسمان سے نازل کیا تھا-
یہ بہت مقدس تابوت شمار کیا جاتا تھا اورہمیشہ مزہبی رہنما اسکو اٹھایا کرتے تھے اور اسکی حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ بھی ہمیشہ ساتھ رہتا تھا نیز یہ بنی اسرائیل کے نزدیک فتح اور برکت کی علامت تھا- اسکو جنگوں کے دوران لشکر سے آگے رکھا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس تابوت کی برکت کی وجہ سے جیت ہمیشہ بنی اسرایئل کی ہی ہو گی-
جب بنی اسرائیل اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنے لگے اور کھلم کھلا وہ کام کرنے لگے جن سے اللہ نے انہیں منع کیا تھا تو یہ تابوت ان سے ایک جنگ کے دوران کھو گیا اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا- یہ تابوت حضرت طالوت کے زمانے میں واپس مل گیا اور اسی بارے میں قرآن میں بھی ارشاد ہے،”ان لوگوں سے انکے نبی نے کہا کہ طالوت کے بادشاہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آ جائے گا جس میں تمہارےرب کی طرف سے تسکین قلب کا سامان ہے اور وہ کچھ اشیاء بھی ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون چھوڑ گئے تھے اسکو فرستے اٹھا کر لائیں گے اور بلاشبہ اسمیں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو”-
یہ تابوت جب تک مشرکین کے پاس رھا تب تک اسکی وجہ سے ان پر مشکلات نازل ہوتی رہیں اور آخر کار تنگ آکر انہوں نے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر اپنے علاقے سے باہر نکال دیا اور فرشتوں نے اس بیل گاڑی کو ہنکا کر واپس بنی اسرایئل تک پہنچا دیا اور غالبا”اسی بات کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے-
حضرت داؤد کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لئے کوئ خاص انتظام نہیں تھا اور اسکے لئے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے-لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان کے عہد میں مکمل ہوا اور اسکو ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے- اس گھر کی تعمیر کے بعدتابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا- اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا-
بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اسکو آگ لگا دی ، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا- اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئ چیز باقی نہیں ہے-
ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ کہیں غائب ہو گیا اور اسکا کوئ نشان نہیں ملا- آج بھی بہت سارے ماہر آثار قدیمہ اور خصوصا”یہودی مزہب سے تعلق رکھنے والے ماہر اسکی تلاش میں سرکرداں ہیں تاکہ اسکو ڈھونڈ کر وہ اپنی اسی روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی ان کو عطا کی گئ تھی-
تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں کچھ کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا، ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے- بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے
نوٹ: یہ مواد ادہر ادہر سے عاریتاً ادہر چھاپ دیا ہے محض آپ کی اور قارئین اکرام کی تسلی کے لئیے عرض ہے کہ میرا بنیادی مقصد آپ سب کو اس مضمون میں حصہ دار بنانا تھا اسے آپ سے شئیر کرنا ہی میرا مقصد تھا۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
عمر احمد بنگش صاحب
جاوید گوندل صاحب نے آپ کے سوالات کا جواب تفصل کے ساتھ دے دیا ہے
جاوید گوندل صاحب
آپ کا شکر گذار ہوں کہ میری زبردست مدد کی ۔ جزاک اللہ خیرٌ ۔ اللہ کے فضل سے میرے پاس دائرہ معارف الاسلامیہ مکمل موجود ہے ۔ جہاں آپ نے یہودیوں کے متعلق لکھا ہے کہ کہ وہ اپنی مطلب براری کیلئے عیسائی یا مسلمان بن جاتے ہیں اس میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ مقصد حاصل کرنے کیلئے یہودی اپنی بیوی ۔کو کسی با اثر عیسائی یا مسلمان کی وقتی طور پر بیوی بھی بنا دیتے ہیں ۔ ایران کی عیسائی سلطنت کو یہودیوں نے اسی طرح تباہ کیا تھا
بہت شکریہ اجمل صاحب اور جاوید صاحب
یہ پوسٹ معلومات میں بہت بہت بہت زیادہ اضافے کا سبب بنی
محترم اجمل صاحب!
آپ نے چونکہ یہود کی خواتین کا ذکر کیا ہے تو ان کے نزدیک اس طرح کی ُخدمات، گناہ تصور نہیں کی جاتیں۔ یہودی خواتین کو اس طرح کے امور کی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے۔اور یہود مطلب براری کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
یہاں اس امر کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ کہ یہود کی نسل یا شجرہ النسب مرد کی طرف سے نہیں بلکہ عورت کی طرف سے چلتا ہے۔ اور یہودی مذہب، مذاھب کی اس شرط پہ پورا نہیں اترتا کہ اسے کوئی غیر یہودی ، مذھب کی حیثیت سے اپنا سکے ۔ جیسے کوئی بھی عیسائی یا مسلمان بن سکتا ہے مگر یہودی نہیں بن سکتا۔ یہودی اپنے مذھب کی تبلیغ بھی اسی وجہ سے نہیں کرتے ، انکی مذھبی کتب بھی بہت کم ملیں گی ۔ یہود کے نزدیک کسی کو اسی وقت یہودی مانا جائے گا جب کم از کم اس کی ماں یہودی ہوگی۔
کچہ مخصوص کیسیز میں یہودی علماء کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک خاص طریقہ کار کے تحت کسی کو یہود میں شامل کر لیں، جیسا کہ اخبارات میں رشدی کے بارے آیا تھا مگر یہ عموماً نہیں ہوتا اور ایسے شخص کو پورے یہودی کا درجہ نہیں دیا جاتا اور غالباً ایسے شخص کے بعد اس کی نسل بھی یہودی نہیں کہلواتی۔
چونکہ یہود کا یہ ایمان ہے کہ پوری کائینات ان کے لئیے بنائی گئی ہے اور وہ ہی اس کائینات کے اصلی اور حقیقی وارث ہیں اور ایک دن زمیں پہ انکی حکومت ہوگی اور اس مقصد کو پا لینے کے لئیے کوئی سا بھی حربہ نا صرف جائز اور درست ہے بلکہ یہ عظیم مذھبی ُخدمت، بھی ہے ۔
آپ نے چونکہ یہود کی خواتین کا ذکر کیا ہے تو ان کے نزدیک اس طرح کی ُخدمات، گناہ تصور نہیں کی جاتیں۔ یہودی خواتین کو اس طرح کے امور کی باقاعدہ تربیت ہوتی ہے۔اور یہود مطلب براری کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔
جاوید گوندل صاحب، ابھی ابھی اپنے بلاگ پر آپکا تبصرہ پڑھا، :neutral: معافی کا خواستگار ہوں کہ میں نے واپسی کی اطلاع نہ دی، دراصل، آپ کے جوابات سے مجھے کافی ساری باتیں معلوم پڑ گئی تھیں، لیکن چند سوالات ابھی بھی میرے زہن میں ہیں جن کو لانگ مرچ :grin: کے قضیے میں ترتیب دینے کا موقع نہ ملا اور کل میرا پرچہ بھی ہے، سو اگر آپ مجھے کل تک کا موقع عنایت کریں تو میں پھر سے تفصیلاً اس بحث میں شامل ہوتا ہوں۔
اسلام و علیکم، دیر سے جواب ترسیل کرنے پر معذرت، اور جاوید گوندل صاحب آپ نے واقعی ایک مفصل اور جامع تبصرہ کیا،گوندل صاحب اور اجمل بھوپال صاحب، اگر تھوڑی تصحیح اور کر دیں تو مہربانی۔
۱۔ آپ نے تحریر کیا ہے یہودی اپنے آپ کو اشرف النسل اور ساری کائنات کے تن تنہا وارث سمجھتے ہیں، اس کی کوئی منطق بھی وجود رکھتی ہے، جو یقیناً مضحکہ خیز ہو گی، لیکن جاننا ضروری ہے؟
۲۔ ایک تاریخ نویس کے خیال میں یہودیوں نے امریکی حکومت اور معیشت کو اپنے قبضے میں لیا اور پھر اس کی مدد سے دنیا کی معاشی نس بندی کر رکھی ہے، جبکہ دوسری جانب اسلامی طاقتیں صرف ایران پر ہی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں، اس میں کس حد تک حقیقت ہے؟
۳۔ دیوار گریہ کا جو زکر آیا ہے، تو کیا واقعی اس نشانی سے یہودیوں کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ مسجد کو (اللہ نہ کرے) مسمار کر کے ہیکل یا اپنی کوئی عبادت گاہ بنانے کا حق رکھتے ہیں، میرا ایمان ہے کہ انھیں یہ حق حاصل نہیں ہے، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ کیوں انھیں ایسا حق حاصل نہیں، تو اگر اس بارے تھوڑی تصحیح کر دیں تو مہربانی۔
اجمل صاحب اور گوندل صاحب، واقعی میں آپ صاحبان کا تہہ دل سے شکر گذار ہوں کہ آپ اپنے قیمتی وقت میں سے ہم نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے اتنی تگ و دود کرتے ہیں، آپ صاحبان اور سارے حاضرین کو خدا خوش اور امت کو سلامتی دے، آمین :razz:
محترم عمر احمد بنگش صاحب مجھے خوشی ہے کہ آپ کو افتخار اجمل صاحب اور اس ناچیز کی مہیا کردہ معلومات سے دلچسپی ہے۔
آپ کا سوال:۔
۱۔ یہودی اپنے آپ کو اشرف النسل اور ساری کائنات کے تن تنہا وارث سمجھتے ہیں، اس کی کوئی منطق بھی وجود رکھتی ہے، جو یقیناً مضحکہ خیز ہو گی، لیکن جاننا ضروری ہے؟۔
عرض ہے
یہود کی مذھبی کتب میں سے زبور الہامی کتاب ہے جو داؤد علیۃ والسلام پہ نازل ہوئی پھر تالمود وغیرہ ہیں جو بلاشبہ ھزاروں صحفات پہ مشتمل ہیں ، جن میں جنتر، منتر ،جادو، تاریخ، ٹونے ٹوٹکے ، نسخے اور مذہبی رسومات، وغیرہ اور انھیں ادا کرنے کا طریقہ ہائے جات ہیں ۔ اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے یہ صحیفے زمانہ قدیم سے لکھتے چلے آرہے ہیں۔ آپکی دلچسپی کے لئیے یہودی ازم کے بارے میں بتاتا چلوں کہ ان کے جو لوگ عملی مذھبی ہیں وہ زبردست قسم کے وہمی اور سارا دن مزھبی توھمات و رسومات ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک دو مثالیں ہیں ان کے مذھبی اسکولو ں میں بچوں بچیوں کے کھانے الگ ہیں ۔وہاں اندہ یا انڈے کی زردی نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی غلطی سے کھانا مل جل جائے تو چیف کک لکڑی کو ہاتھ لگا کر اسے پاک کرتی ہے ، کچن میں جاتے ہوئے ہر دفعہ لکڑی کے اسٹیینڈ کو ھاتھ لگا کر اپنے حساب سے توبہ تللا کرتے آتی جاتی ہیں ۔توہمات کا بہت لمبا سلسلہ ہے ۔بہر حال
یہود تالمود سے حوالہ لیتے ہیں کہ یہود کے بقول اللہ سبحان و تعالٰی نے انکے بادشاہ (مسلمانوں کے نزدیک نبی ع ) داؤد علیۃ و السلام کو بنی اسرائیل کے لئیے ساری کائینات بخشی اور افضل النسل قرار دیا اور کائینات کا نقشہ بھی دیا وغیرہ وغیرہ ۔ اور اسرائیل کے موجودہ دور کے جھنڈے میں جو موجودہ چھ کونوں والا تارہ (ڈیوڈ اسٹار) نظر آتا ہے، بقول یہود کے یہ وہ ستارہ ہےجو کائینات کا نقشہ خدا نے انھیں داؤد علیۃ و السلام کے ذریعے عطا کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
جسطرح ہمارے ہاں عموماً آجکل کے کچھ عربوں کی اڑی یا ضد کی کیوجہ سے ان عربوں کے بارے میں از راہ تفنن کہا جاتا ہے پہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے۔، مگر ان کی اڑی نہ گئی۔ تو یہ بات درست نہیں۔ اس میں صرف اتنی صداقت ہے کہ کم وبیش تمام انبیاء عرب سرزمین پہ تشریف لائے اور جو حقیقت ہے وہ یہ کہ اللہ سبحان و تعالٰی نے جس قوم میں سب زیادہ پیغمبر بیجھے اور جس قوم کے سب سب قوموں سے بڑھ کر لاڈ اٹھائے وہ بنی اسرائیل ہیں یعنی یہود ہیں۔ اور شاید صدیوں تک اپنے آپ کو خدا کے لاڈلے سمجھنے کی وجہ سے انکا یہ مجموعی مزاج بنا ے جس پہ یہ مضحکہ خیزی تک اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں ۔
آپکا دوسرا سوال:۔
۲۔ ایک تاریخ نویس کے خیال میں یہودیوں نے امریکی حکومت اور معیشت کو اپنے قبضے میں لیا اور پھر اس کی مدد سے دنیا کی معاشی نس بندی کر رکھی ہے، جبکہ دوسری جانب اسلامی طاقتیں صرف ایران پر ہی اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکیں، اس میں کس حد تک حقیقت ہے؟
امریکہ اور ایران؟ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ نے یہود اور امریکہ کے بارے میں جو لکھا ہے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ درست ہے کہ یہودیوں نے امریکی حکومت اور معیشت کو اپنے قبضے میں لیا۔ مگر اس وقت کوئی ایسی اسلامی طاقت موجود نہیں تھی جسے ایران سے دلچسپی ہو ۔ جس وقت ریاست ھائے متحدہ امریکہ کی ایک ملک کی حیثیت تسکیل و تزوئین ہو رہی تھی اسوقت دو ایک ملک چھوڑ کر جیسے کہ ایران وغیرہ جو نیم آزاد تھے۔ باقی ساری اسلامی دنیا مغربی استعماری طاقتوں کے زیر نگین تھی۔ اس لئیے یہودیوں کا ریاست ھائے متحدہ امریکہ میں اثر و رسو قائم کرنا اور اسلامی طاقتوں کا ایران میں اپنا اثر و رسوخ کرنا عصری لحاظ سے درست نہیں، ان دونوں معاملوں میں کئی زمانوں کا فرق ہے۔
آپ کا تیسرا سوال:۔
۳۔ دیوار گریہ کا جو زکر آیا ہے، تو کیا واقعی اس نشانی سے یہودیوں کو یہ حق مل جاتا ہے کہ وہ مسجد کو (اللہ نہ کرے) مسمار کر کے ہیکل یا اپنی کوئی عبادت گاہ بنانے کا حق رکھتے ہیں، میرا ایمان ہے کہ انھیں یہ حق حاصل نہیں ہے، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ کیوں انھیں ایسا حق حاصل نہیں، تو اگر اس بارے تھوڑی تصحیح کر دیں تو مہربانی۔
واضح رہے کہ ”دیوار براق ” کو یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں۔ دیوار کی انچائی 18میٹر ہے ۔ یہودییوں نے اس دیوار پر اپنا حق جتانے کے لئیے کذب سے کام لیتے ہوئے اسے دیوار گریہ کہا ہے اور اپنے اس نظریے کو اس حد تک پاپولر کیا ہے اصلی حقائق سے مغرب اور عام آدم نے چشم پوشی اختیار کر لی ہے۔
یہود کے مطابق یہ دیوار مقدس معبد کی باقیات میں سے ہے اور اسی لئے یہودیت کے مقدس مقاموں میں سے ایک ہے۔ یہ یہودیوں کے لئے زیارت گاہک ی حیثیت رکھتی ہے اس کے قریب ہی یہودیوں کا مقدس ترین سینا گوچ ہے، جس کو بنیادی پتھر کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر یہودی ربیوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے اوپر، کوئی یہودی پیر نہیں رکھ سکتا اور جو ایسا کرتا ہے، عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہیہود مسجد اقصٰی کی بنیادیں کھودتے رہتے ہیں۔ بہت سے یہودیوں کے مطابق وہ تاریخی چٹان جس پر قبۃ الصخرۃ واقع ہے، یہ مقدس بنیادی پتھر ہے۔ جبکہ کچھ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ مقدس بنیادی پتھر دیوارِ گریہ کے بالکل مخالف سمت میں واقع الکاس آبشار کے نزدیک ہے۔ یہود اس پہ بھی اتفاق نہیں کرتے اور پتھر کو مختلف جگہوں پہ بیان کرتے ہیں ۔ یہود کے بقول جب مقدس معبد قائم تھا۔ تو یہ مقام ان کا مقدس ترین مقام تھا، یہود جو روایات بیان کرتے ہیں ان روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر انکے بادشاہ داؤد ( نبی داؤد علیہ سلام ) نے کی تھی اور موجودہ دیوارِ گریہ اُسی دیوار کی بنیادوں پر قائم کی گئی تھی، جس کی تاریخ ہیکلِ سلیمانی سے جاملتی ہے۔
بقول یہود کے ایک ھزار سال قبل مسیح بقول یہود کے انکے بادشاہ سلیمان ( ہمارے نزدیک نبی سلیمان ّعلیۃ والسلام) نے ہیکل اؤل سلیمانی نامی معبد تعمیر کیا تو اسے اہل بابل نے 586 قبل مسیح می تباھ کر دیا تھا اور ہزاروں لاکھوں یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے اور Esdras اور Nehemías بابل سے رہائی پانے کے بعد 445 قبل مسیح معبد دوئم کی بنیاد رکھی جسے 70 عیسوی میں رومنوں نےیہودیوں کی سازشوں سے تنگ آکر یہدیوں کی مشہور بغاوت کے دوران یہودیوں کے معبد کو تباہ کر دیا تھا ۔ یہود کہتے ہیں کہ اس جگہ ان کا معبد تقریباً چار سو سال پہلی مرتبہ اور دوسری تقریباً بھی چار سو سال قائم رہا اور 70 عیسوی میں رومن افواج کے سپہ سالار تیتو Tito نے آخری دفعہ سرا معبد برباد کر دیا اور اسے آگ لگا دی بقول یہود کے کہ صرف یہ دیوار رہنے دی تانکہ یہودی اس پہ اپنی بربادیوں کا نوحہ کہتے رہیں۔ اور یہاں سے یہودیت یا یہودی ازم میں گریہ یا دیوار گریہ داخل ہوتی ہے یہ تو تھا یہودیوں کا موقف۔
جکہ اصل حقیقت یوں ہے کہ Herod the Great نے اس جگہ پہ واقع موریا پہاڑی ارد گرد زمین ہموار کروا کے چاروں طرف بلند دیواریں تعمیر کروائیں تھیں تا کہ زمین یا ہموار سطح کی بنیادیں ادہر ادھر نہ کھسک جائیں اور یہ واقعہ 37 قبل مسیح کا ہے اور اس ہموار سطح پہ ہی وہ معبد پہلے سے قائم تھا جن کا حوالہ یہود دیتے ہیں
یہ دیوار یا اس دیوار کا کوئی بھی حصہ کا تعلق یہود کے معبد اؤل یا معبد ثانی سے نہیں مگر یہود نے اپنے سفید جھوٹ کو اسقدر پاپولر کر دیا ہے کہ اب اکثر و بیشتر مسلمان بھی اپنی لاعلمی کیوجہ سے اس پہ اعتراض نہیں کرتے۔ جبکہ اہل علم اس دیوار کو دیوار براق کہتے ہیں اور اسے مسجد اقصٰی کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔
محترم عمر احمد بنگش صاحب!
امید ہے کہ آپ کو کسی حد تک ان معلومات سے تشفی ہوئی گی ذیل میں اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں ایک لنک بیجھ رہا ہوں جن کے پڑھنے سے آپ ان کے بارے میں کافی باتیں سمجھ سکیں گے۔ یاد رہے کہ صاحب مضمون کوئی مسلمان نہیں بلکہ ایک آسٹریلوی ہے اور مضمون غالباً 1970 کا لکھا ہوا ہے مگر یوں چونکا دیتا کہ انکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔
اردو میں http://www.relfe.com/plus_5_urdu.html
انگریزی میں http://www.relfe.com/plus_5_.html
یہ مضمون بہت سی زبانوں مں چھپ چکا ہے
والسلام
خیر اندیش
جاوید گوندل – بآرسیلونا ، اسپین
جی گوندل صاحب بہت شکریہ
جی ایران اور امریکہ کی منطق جو میںنے دو ایک کتابوںمیںپڑھی ہے، وہ کچھ اس طرحسے ہے کہ جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیںکہ امریکی معیشت اور سیاست پر زیادہ اثر و رسوخیہودیوںکا ہے، تو یہ یہودیوںکا فیصلہ تھا کہ وہ کس طرحسے کسی ملک کی معیشت اور سیاست پر غیر محسوس طریقے سے قابضہو کر پوری دنیا پر اثر انداز ہوںگے۔ جبکہ دوسری جانب مسلمانوںمیںکچھ ایسا ہوا کہ امت کا تصور تحلیل ہوتا چلا گیا، قوموں، فرقوںاور نسلوںمیںبٹتے چلے گئے مسلمان، جیسے عرب قوم کا نعرہ، ترک قوم کا نعرہ، ایرانی قوم وغیرہ۔ اسی طرحفرقہ بندی، اور سیاسی لحاظ سے بھی یہ یک جسمی تصور باقی نہ رہا، جیسے جنوبی ایشیاء میںکئی مذہبی سیاسی پارٹیاںوجود رکھتی ہیں، مثلاً جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اہل حدیثوغیرہ۔ صرف ایران ایک ایسی جگہ تھی جہاںپر مسلمان مکمل نہ سہی، لیکن ایک حد تک سیاست، معاشرت، معیشت پر اثر انداز ہوئے۔ گو کہ یہ بھی صرف اس لیے ممکن ہو سکا کہ ایک فرقہ نہایت ہی مضبوط تھا!۔
اب جیسے پاکستان، تو پاکستان میںتنوع ہے اور مختلف مسالک کے لوگ ہیں، اسی طرحطرز معاشرت بھی نہایت وسیع اور نظریات بھی بہت سارے، پاکستان میںمختلف دھڑے وجود رکھتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی مذہبی، اسلامی سوشلسٹ اور اسی طرحقومیت پر مبنی جماعتیں، ایران میںایسا کچھ نہیں۔
عراق میںبھی فرقہ بندی، جیسے کرد، سنی، شیعہ وغیرہ
اسی طرحبنگلہ دیش اور پاکستان کی حالت تقریباًایک سی، صرف ایک ایٹم بم کا فرق :razz:
سعودی عرب اور مصر کی پالیسیاں، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں :sad:
کچھ اس طرحکی منطق ہے یہ!!!۔