Monthly Archives: February 2009

سوات ۔ طالبان اور حُکمران ۔ قصور کس کا ؟

کچھ قابلِ قدر قارئین نے پُرزور فرمائش کی کہ میں سوات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا پسِ منظر اور تاریخ بیان کروں ۔ ہرچند کہ میں تاریخ دان نہیں ہوں لیکن اپنے مُلک کے متعلق تھوڑا بہت علم حاصل کرنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے ۔

میرے خالق و مالک ۔ میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے اور میرا کام میرے لئے آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ۔ آمین

ہمارے نویں دسویں جماعت میں تاریخ کے اُستاذ سبغت اللہ قریشی کہا کرتے تھے “ہماری قوم کی تاریخ بڑی کمزور ہے”۔ جب ہم نے میٹرک پاس کر لیا اور سکول شاباشیں لینے گئے ہوئے تھے تو ایک ساتھی نے اُستاذ سے پوچھا “ہماری قوم کی تاریخ کیسے کمزور ہے ؟” اُستاذ مُسکرا کر بولے “جب میری عمر کو پہنچو گے تو معلوم ہو جائے گا”۔ درُست کہا تھا اُنہوں نے ۔ ہماری قوم کی اکثریت کو تاریخ تو کیا کل کی بات یاد نہیں رہتی

جب انگریز ہندوستان چھوڑنے پر راضی ہو گئے تو اُنہوں نے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے اندر داخلی طور پر خودمختار ریاستوں کا فیصلہ اُن کے حاکموں پر چھوڑ دیا کہ اپنے عوام کی رائے کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں ۔ چالبازی یہ کی گئی کہ پاکستان کو نہ دولت اور اثاثوں کا حصہ دیا گیا اور نہ اسلحہ کا ۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی سے مجوزہ پاکستان سے دور علاقوں میں تعینات کر دیا گیا تھا ۔ وہیں اُنہیں غیر مسلحہ کر کے گھروں کو جانے کا حُکم دیا گیا ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ پاکستان بنا تو نہ اس کے پاس حکومت چلانے کو کچھ تھا اور نہ اپنا دفاع کرنے کا سامان ۔ اس صورتِ حال سے مکمل فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے بھارت کے اندر یا بھارت سے ملحق تمام ریاستوں کو بھارت کے ساتھ الحاق کا حُکم دیا ۔ جن چار ریاستوں [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ منادور ۔ حیدآباد دکھن اور جموں کشمیر] نے لیت و لعل کیا اُن پر یکے بعد دیگرے فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ۔ اس کے بر عکس پاکستان کی حکومت نے پاکستان کے اندر ریاستوں کو داخلی خود مختاری دیئے رکھی جب تک کہ وہ ریاستیں خود ہی پاکستان میں ضم نہ ہوئیں ۔

چنانچہ ریاست سوات نے 1969ء میں پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا ۔ اُس وقت تک وہاں اسلامی نظامِ عدل رائج تھا ۔ یہ نظام ہندوستان پر انگریزوں کے صد سالہ دورِ حکومت کے دوران بھی رائج تھا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذکے بعد وہاں کا مروجہ نظام ختم کر کے انگریزوں کا بنایا ہوا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس کے کچھ سال بعد قتل کی سالانہ وارداتیں جو کبھی دہائی کے ہندسہ میں نہ پہنچی تھیں سینکڑے کے ہندسہ میں پہنچ گئیں ۔ قانونی چارہ جوئی جو پہلے 3 سے 6 ماہ میں فیصل ہو جاتی تھی وہ سالوں تک بغیر کسی نتیجہ کے جاری رہنا شروع ہو گئی ۔ سوات کے لوگ اس صورتِ حال سے پریشان ہو کر احتجاج کرتے رہے اور اُنہیں 1973ء کے آئین کی وہ شِقیں دکھا کر چُپ کرایا گیا جن کے تحت مُلک میں کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جا سکتا اور اسلام کے منافی موجود قوانین کو کلعدم قرار دیا جائے گا ۔ 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور اسلام کا نام لیا جانے لگا ۔ پھر افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف جنگ شروع ہو گئی جس سے وقتی طور پر سواتیوں کا مطالبہ دب گیا

افغانستان سے روسوں کے انخلاء کے بعد پھر سواتیوں کا زبانی احتجاج شروع ہوا اور بالآخر 1994ء میں جب ملک میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی مطالبہ زور پکڑ گیا جسے پولیس اور ریجرز کے ذریعہ فوجی کاروائی سے دبانے کی کوشش کی گئی تو تحریک نفاذ شریعت محمدی جس کے سربراہ صوفی محمد تھے نے ہتھیار اُٹھا لئے ۔ سوات ۔ شانگلہ ۔ دیر ۔ کوہستان اور مالاکنڈ کے دیگر علاقوں میں چوٹیوں پر مورچے قائم کرلئے اور ان علاقوں کو جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے ۔ 70 کے قریب سرکاری اہلکار جن میں پولیس کے افسران اور جج بھی شامل تھے یرغمال بنا لئے اور سیدو شریف کی ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیا ۔ اپنی دال گلتی نہ دیکھ کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلٰی آفتاب شیر پاؤ کی سربراہی میں ایک وفد کو صوفی محمد سے مذاکرات کا کہا ۔ صوفی محمد سے وعدہ کیا گیا کہ امن کی صورت میں اُن کے علاقہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جائے گی

تمام زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں میجر جنرل فضل غفور جو اُن دنوں فرنٹیئر کور کا انسپکٹرجنرل تھا کچھ سرکاری اہلکاروں اور صوفی محمد کو ساتھ لے کر روانہ ہوا ۔ ہیلی کاپٹر متذکرہ بالا اور دیگر علاقوں جہاں جہاں جنگجو موجود تھے باری باری اترتا رہا اور صوفی محمد اسلحہ برداروں کو سمجھاتا رہا کہ رینجر بھی مسلمان ہیں اور مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنا اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔ یہ ایک خطر ناک مُہِم تھی اور اس میں صوفی محمد کی اپنی جان کو بھی خطرہ تھا کیونکہ سارے اسلحہ بردار صوفی محمد کی تحریک سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ بہرحال صوفی محمد کی کوششوں سے ٹکراؤ ختم ہو گیا اور سب راستے کھول دیئے گئے اس وعدہ پر کہ علاقہ میں اسلامی شریعت کا قانون نافذ کیا جائے گا مگر حکومت نے مروجہ انگریزی قانون میں جج اور کورٹ کی بجائے قاضی اور قاضی کورٹ لکھ دیا اور اسی طرح کی اور لیپا پوتی [cosmetic changes] کر کے اُسے شریعت ریگولیشن کا نام دے دیا

پنجابی میں ایک محاورہ ہوا کرتا تھا “سیاسہ والا” یہ “سیاسہ” لفظ “سیاست” ہی ہے ۔ مطلب تھا۔ ہوشیار دھوکہ باز جو پکڑائی نہ دے ۔ یہ محاورہ ہمارےاکثر حُکمرانوں پر چُست بیٹھتا ہے جو قوم کو بار بار دھوکہ دینے کے باوجود عوامی رہنما کہلاتے ہیں

جب لوگوں کے عدالتی معاملات لٹکتے چلے گئے اور سالہا سال بغیر فیصلہ کے رہے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا ۔ صرف نام بدلے گئے تھے اور کچھ بھی نہ ہوا تھا ۔ اس پر پھر احتجاج شروع ہوا ۔ اُس وقت ملک میں مسلم لیگ کی حکومت تھی ۔ 1999ء تک بے اطمینانی تمام علاقہ میں پھیل گئی اور بدامنی کا احتمال ہوا تو مسلم لیگ کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے بنائے ہوئے شریعت ریگولیشن میں کچھ تبدیلیاں کر کے نافذ کر دیا ۔ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل تو کیا اُس نظامِ عدل کے بھی قریب نہ تھا جو 1973ء کے آئین سے قبل سوات میں رائج تھا

فطری طور پر کچھ عرصہ لوگ نئے شریعت ریگولیشن کے عملی پہلو کا جائزہ لیتے رہے ۔ 2001ء میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور سب کی توجہ اس بڑی آفت کی طرف ہو گئی ۔ 2002ء میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت آ گئی ۔ اُنہوں نے اسلامی شریعت کے حوالے سے تین سال میں حسبہ کے قانون کا مسؤدہ تیار کیا جو مرکزی حکومت نے نامنظور کر دیا تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کی اُمیدیں بے بنیاد تھی ۔

ان مذاق رات [مذاکرات] کے نتیجہ میں نافذ ہونے والے نام نہاد شریعت ریگولیشنز کی عملی صورت سے پریشان ہو کر تین سال قبل پھر احتجاج شروع ہوا ۔ کسی کے توجہ نہ کرنے کے نتیجہ میں سوات کے لوگوں نے تین ماہ بعد اپنی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ پھر خود ہی تاریخ مؤخر کرتے رہے ۔ آخر چھ ماہ بعد ایک قاضی مقرر کر دیا اور اپنے فیصلے خود کرنے کا عندیہ دیا ۔ دو سال قبل پچھلی حکومت نے امریکہ کے حُکم پر اُن کے خلاف فوجی کاروائی شروع کر دی ۔ موجودہ جمہوری حکومت نے امریکہ سے اپنی وفاداری جتانے کیلئے فوجی کاروائیوں میں شدت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں نہ صرف دونوں طرف کافی جانی نقصان ہوا بلکہ عوام بیچارے دونوں طرف کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں مرنے والے کم از کم 70 فیصد عام شہری ہیں جن میں بوڑھے جوان مرد عورتیں اور بچے شامل ہیں ۔ حکومت سوات کے لوگوں کو تحفظ مہیا نہ کر سکی نتیجہ یہ ہوا کہ سوات کے 80 فیصد علاقہ کے لوگ پاکستانی طالبان کے حمائتی ہو گئے ۔ ان حالات نے موجودہ حُکمرانوں کو امن کیلئے مذاکرات پر مجبور کر دیا

جس نظامِ عدل ریگولیشن پر اب اتفاق ہوا ہے سننے میں آیا ہے کہ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل نہیں بلکہ 1999ء کے ترمیم شُدہ شریعت ریگولیشن میں کچھ اور ترامیم کی جا رہی ہیں ۔ اللہ کرے کہ موجودہ حکومت اس سلسلہ میں نیک نیتی برتے اور درست اسلامی نظامِ عدل نافذ کرے ۔ ویسے حالات کچھ سازگار نہیں لگتے ۔ حالیہ معاہدہ جو کہ صدر کی منظوری سے ہوا پر صدر کا دستخط کرنے کے عمل کو متاءخر کرنے اور کچھ مرکزی وزراء کے بیانات سے شبہات جنم لے چکے ہیں اور پاکستانی طالبان نے ہتھیار پھنکنے اور لڑکیوں کے سکول کھولنے کیلئے پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے کی شرط عائد کر دی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے امن معاہدےکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پشاور میں پاکستانی طالبان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک کو دیر ضلع میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا ۔ تنبیہہ کے طور پر طالبان نے سوات میں نئے تعینات ہونے والے ڈی سی او خوشحال خان کو چھ ساتھیوں سمیت اغواء کر لیا تھا اور بعد میں رہا کر دیا

صوفی محمد مغربی طرز کے جمہوی نظام کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے ۔ [اس پر انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا] اس نظریہ اور متذکرہ خدشات کے باوجود وہ امن قائم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے تن من کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔ صوفی محمد لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں ۔ اگر پھر 1994ء کی طرح صوفی محمد کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تو نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔ نہ صرف موجودہ حُکرانوں کیلئے بلکہ مُلک کیلئے بھی ۔ یہ معاملہ صرف سوات کا نہیں ہے بلکہ پورے مالاکنڈ ۔ پورے دیر ۔ چترال ۔ شانگلہ ۔ بُنر اور کوہستان کا بھی ہے

عارضی امن کے نتیجہ میں سوات میں ایک عرصہ کے بعد کاروبارِ زندگی شروع ہو گیا ہے ۔ کل یعنی پیر 23 فروری سے سکول بھی کھُل گئے ہیں لیکن ہزاروں لوگ جو اپنے ہی مُلک میں مہاجر بن چکے ہیں وہ اس انتظار میں گھڑیاں گِن رہے ہیں کہ کب اسلامی نظامِ عدل نافذ ہو ۔ پائیدار امن معرضِ وجود میں آئے ۔ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں اور اُن کی کس مپُرسی ختم ہو

اس معاہدے جوکہ دراصل معاہدہ نہیں بلکہ باہمی اتفاق کی یاد داشت [Memorandum of understanding ] ہے کا خوشگوار اثر یہ بھی ہوا ہے کہ باجوڑ میں جنگجوؤں [طالبان] نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے ۔ مرکزی اور صوبائی تمام قبائلی علاقوں کے طالبان افغانستان کے مُلا عمر کو اپنا سُپریم کمانڈر کہتے ہیں ۔ مُلا عمر نے تمام طالبان کو کسی پاکستانی فوجی پر فائرنگ نہ کرنے کا کہا ہے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پاکستان کو محفوظ رکھے ۔ پاکستانیوں بالخصوص حُکمرانوں کو مُلک و قوم کی بھلائی سوچنے اور اس کیلئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

باقی اِنْ شَاء اللہ کل

بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ

میں ریاست اسرائیل کی مختصر تاریخ قسط وار مندرجہ ذیل تواریخ کو لکھ چکا ہوں ۔ صیہونیوں کے کردار کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیا جائے

10-01-2009 14-01-2009 18-01-2009 24-01-2009
30-01-2009 01-02-200905-02-2009 09-02-2009

حصہ اوّل ۔ 585 قبل مسیح تک

حضرت ابراھیم علیہ السّلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السّلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السّلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السّلام اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے آج سے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت آدم علیہ السّلام نے کعبہ بنایا اور اور مشہور طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السّلام نے اسے تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السّلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔

حضرت اسحاق علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السّلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا اللہ کا بندہ ۔ بنی اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السّلام کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السّلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السّلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد صحراۓ سینائی کے علاقہ میںحضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے ۔

جب حضرت داؤد علیہ السّلام نے طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل کے پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صَول نے حسبِ وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مِشَیل سے کر دی ۔ صَول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جِن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السّلام نے جنّوں کی مدد سے ایک عبادت گاہ اُس جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السّلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی

جاگتے رہنا

پہلے تازہ خبر ۔ ابھی ابھی یعنی صبح 8 بج کر 49 منٹ اور 55 سیکنڈ پر اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے

میں جب چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا [1949ء] تو انگریزی کے رسالے میں ایک بند پڑھا تھا جو میں کبھی نہ بھُول سکا ۔ اُس کا میں نے اُردو میں ترجمہ کر کے اپنے دوستوں سے داد و تحسین وصول کی ۔ کسی ساتھی نے ہمارے اُستاذ صاحب کو بتا دیا ۔ اُس زمانہ میں اگر اُستاذ صاحب ہمیں بلائیں تو جان ہی خانے سے جاتی تھی سو ہوا یہی کہ ایک بڑی جماعت کا لڑکا آیا اور کہا کہ فلاں اُستاذ صاحب بُلا رہے ہیں ۔ میرا حال ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔ ایک ایک من کا ایک ایک قدم اُٹھاتا پہنچا ۔ اُستاذ صاحب نے پوچھا “یہ تم نے لکھا ہے ؟” مجھے نہ کچھ نظر آ رہا تھا اور نہ کچھ سُنائی دے رہا تھا ۔ جب تیسری بار اُستاذ صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا” بیٹا ۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ تم نے لکھا ہے ؟ ” پھر جب اُنہوں خود ہی کہا “آخر ایسے جماعت میں اوّل نہیں آتے”۔ تو مجھے سمجھ میں آیا کہ استاذ صاحب کیا کہہ رہے تھے ۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو کہنے لگے “شاباش ۔ یہ میں اپنے پاس رکھوں گا ”

جو جانے اور نہ جانے کہ جانے ہے ۔ سویا ہے ۔ جگا دو
جو نہ جانے اور جانے کہ نہ جانے ہے ۔ سادہ ہے ۔ تربیت دو
جو نہ جانے اور نہ جانے کہ نہ جانے ہے ۔ احمق ہے ۔ دُور رہو
جو جانے اور جانے کہ جانے ہے ۔ عقلمند ہے ۔ تقلید کرو

انگریزی کا بند یہ تھا

He, who knows and knows not he knows, is asleep. Awake him
He, who knows not and knows he knows not, is simple. Teach him
He, who knows not and knows not he knows not, is fool. Shun him
He, who knows and knows he knows, is wise. Follow him

کیا اعلٰی عہدیداروں میں شامل غداروں کے بغیر یہ ممکن ہے ؟

چند روز قبل ہی بازار میں فروخت کیلئے پیش ہونیوالی ڈیوڈ ای سینگر کی تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے پاک فوج کے افسران کی ٹیلیفون پر بات چیت سن رہے تھے اور جاسوس طیاروں کے ذریعے حملوں کا فیصلہ ایسی ہی اعلیٰ سطح کی گفتگو سننے کے بعد کیا گیا جس میں طالبان کو پاکستان کیلئے ”اسٹریٹجک اثاثہ“ قرار دیا گیا تھا۔ ”دی اِن ہیریٹنس ۔ امریکی طاقت کو درپیش چیلنجز اور وہ دنیا جس کا اوباما کو سامنا ہے“ کے نام سے تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی علاقوں پر حملوں کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ آئی ایس آئی مکمل طور پر طالبان کا ساتھ دے رہی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی [این ایس اے] نے ایسے پیغامات کا سراغ لگایا جن سے اشارہ ملتا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسران افغانستان میں ایک بہت بڑا بم حملہ کرانے کیلئے منصوبہ بندی میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں تاہم اس کا ہدف واضح نہیں تھا۔ چند روز کے بعد قندھار جیل پر طالبان نے حملہ کیا ا ور سیکڑوں طالبان کو رہا کرالیا۔

اگر کتاب میں عائد کردہ الزامات درست ہیں تو جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی فوج کے دوسرے سربراہ ہونگے جن کی گفتگو امریکیوں نے سنی ہے۔ قبل ازیں ایف بی آئی نے صدر پرویز مشرف کی بینظیر بھٹو کیساتھ ہونیوالی وہ گفتگو سنی تھی جب پرویز مشرف نے انہیں دھمکی دی تھی کہ پاکستان میں ان کی سلامتی کا انحصار انکے [پرویز مشرف] ساتھ تعلقات پر ہے۔ بھارتیوں نے بھی جنرل پرویز اور جنرل عزیز کی گفتگو اس وقت ریکارڈ کی تھی جب کارگل جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف بیجنگ میں تھے۔ مصنف، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 20 جنوری کو جارج بش کے صدارت چھوڑنے سے قبل وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونیوالے متعدد اجلاسوں میں خفیہ ریکارڈ تک براہِ راست رسائی دی گئی تھی، نے کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ این ایس اے پہلے بھی ایسی گفتگو سن چکی ہے کہ پاکستان آرمی کے یونٹس قبائل میں اسکول کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ پیشگی انتباہ کر رہے ہیں کہ کیا ہونیوالا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے لازماً 1-008-HAQOANI
ڈائل کیا ہوگا۔ یہ بات اس شخص نے کہی ہے جو اس سے آگاہ تھا۔

ایک اور پیرا گراف کے مطابق اسکول کو بھیجی گئی وارننگ کی تفصیلات تقریباً مضحکہ خیز تھیں۔ اس میں کہا گیا تھاکہ ”اوئے! ہم تمہاری جگہ کو چند روز میں نشانہ بنانے والے ہیں لہٰذا اگر وہاں کوئی اہم آدمی موجود ہے تو اس سے کہو کہ وہ چیخ و پکار کرے“۔ کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ امریکا کو ان زمینی حقائق سے پوری آگاہی تھی اور انہوں نے پاکستانی علاقوں میں اس وقت حملے کرنا شروع کئے جب انہوں نے سوچا کہ پاکستانی فوج اور خُفیہ ادارے طالبان سے لڑنے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔

کتاب کے باب نمبر 8 ”کراسنگ دی لائن“میں پاکستان کے حوالے سے مصنف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کس طرح پاک فوج کے ایک میجر جنرل نے امریکی جاسوسی ادارے کے سربراہ مائیک میک کونیل کے سامنے دانستہ پاک فوج کے پورے خفیہ منصوبے کو کھول کر رکھ دیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے خفیہ ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پرویز مشرف ان کیساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں ۔ ایک جانب تو وہ امریکا کو یقین دلاتے تھے کہ صرف وہی طالبان کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو دوسری جانب وہ عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ پرویز مشرف کے دُہرے معیار کا ریکارڈ جانا پہچانا تھا۔
مصنف نے پاکستان پر یہ باب امریکا کے دو اعلیٰ خفیہ اداروں کے سربراہان مائیک میک کونیل اور مائیکل ہیڈن جن کی عرفیت ” Two Mikes
” تھی کے خفیہ دوروں کی بنیاد پر تحریر کیا ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف سمیت پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ مئی 2008ء کے آخر میں میک کونیل نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا جو نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر بننے کے بعد ان کا چوتھا یا پانچواں دورہ تھا اور اس کے نتیجے میں بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں پاکستان میں سرحد پار سے خفیہ ایکشن بہت زیادہ بڑھ گیا تھا

کیا پورے پاکستان میں خون خرابہ کرنا ہو گا ؟

مالاکنڈ بشمول سوات میں تباہی اور خُون خرابہ بسیار کے بعد کل یعنی 15 فروری 2009ء کو صوبہ سرحد کے حکومتی اہلکاروں نے صوفی محمد کے ساتھ مذاکرات کئے جس کے نتیجہ میں 10 روز کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ۔ آج صبح پشاور میں جرگہ ہوا جس میں معاہدہ طے پایا کہ نظام عدل ریگولیشنزکے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی ۔ عدالتوں میں شرعی قوانین کا علم رکھنے والے ججز کو تعینات کیا جائے گا ۔ شرعی عدالتیں دیوانی مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ اورفوجداری کا فیصلہ 4 ماہ میں کریں گی ۔ مالاکنڈ میں شریعت سے متصادم قوانین کالعدم ہونگے اور شریعت کے خلاف کوئی قانون قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اللہ کرے اب اس معاہدے پر نیک نیّتی سے عمل کیا جائے اور اس کا حشر پچھلے معاہدوں کی طرح نہ ہو ۔

یہ مت سمجھا جائے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہو رہی ہے جیسا کہ دین بیزار لوگ کہتے آئے ہیں ۔ یہ اقدام پاکستان کے آئین کے عین مطابق پہلا قدم ہے ۔ ملاحظہ ہوں آئین کی متعلقہ شقات اس تحریر کے آخر میں

اگر ایس قانون مالاکنڈ جو کہ پاکستان کا حصہ ہے مین نافذ ہو سکتا ہے تو پورے پاکستان مین کیوں نافذ نہیں ہو سکتا ؟
کیا پورے پاکستان میں شرعِ اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کیلئے پورے پاکستان میں بھی خُون خرابہ کرنا ہو گا ؟
کیا اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے پاکستان کے تمام صوبوں اور شہروں کی سڑکوں ۔ گلیوں اور گھروں کو مسلمان مردوں ۔ عورتوں ۔ بوڑھوں ۔ جوانوں اور بچوں کے خون سے سینچنا ضروری ہے ؟

کون دے گا ان سوالوں کا جواب ؟

آئینِ پاکستان سے متعلقہ اقتباسات

Preamble

Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;
Wherein the independence of the judiciary shall be fully secured;
Faithful to the declaration made by the Founder of Pakistan, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, that Pakistan would be a democratic State based on Islamic principles of social justice;

Article 62

(d) he is of good character and is not commonly known as one who violates Islamic Injunctions;
(e) he has adequate knowledge of Islamic teachings and practises obligatory duties prescribed by Islam as well as abstains from major sins ;
(f) he is sagacious, righteous and non-profligate and honest and ameen;
(g) he has not been convicted for a crime involving moral turpitude or for giving false evidence;
(h) he has not, after the establishment of Pakistan, worked against the integrity of the country or opposed the Ideology of Pakistan

بھارت نیا مشروب پیش کرتا ہے ۔ گائے کا پیشاب

راشٹریہ سوامی سیوک سَنگھ خالص ہندو مشروب [گائے کا پیشاب] بھارت میں متعارف کرانے کی عملی طور پر تیاری کر رہی ہے ۔ اس مشروب کو پائدار بنانے کیلئے تجربات شروع ہو چکے ہیں جو اگلے دو تین ماہ تک جاری رہنے کی توقع ہے ۔

[سیوک سَنگھ۔ مہاسبھا اور اکالی دل وہ جماعتیں ہیں جن کے تربیت یافتہ جتھوں نے ہندو فوجیوں کی پُشت پناہی سے 1947ء میں جموں ۔ مشرقی پنجاب اور گرد و نواح میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا]

گائے کے پیشاب کو ہندو بہت متبرک جانتے ہیں اور ہندوؤں کے تہواروں پر اکثر ہندو اپنے پاپ [گناہ] جھاڑنے کیلئتے گائے کا پیشاب پیتے ہیں ۔ ہندوؤں کا دعوٰی ہے کہ گائے کے پیشاب میں 70 کے لگ بھگ بیماریوں کا علاج موجود ہے اور اس سے پوری دنیا کے لوگ استفادہ حاصل کر سکیں گے ۔ اسلئے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ گائے کے پیشاب سے بھری بوتلوں کی ترسیل دنیا کے تمام ممالک کو کی جائے گی ۔

عام رواج ہے کہ بچہ پیدا ہونے پر گٹی یا گڑتی دی جاتی ہے یعنی بچے کے منہ میں پہلی کوئی چیز ڈالنا جو عام طور پر قدرتی شہد کا ایک قطرہ یا مصفّا پانی کی ایک چھوٹی چمچی ہوتا ہے اور کوئی نیک خاتون یا ماں کے علاوہ بچے سے بہت زیادہ نزدیک خاتون دیتی ہیں ۔

ہم نے بچپن میں سُنا تھا کہ جب کسی ہندو کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو اُسے گٹی یا گڑتی کے طور پر گائے کے پیشاب کی ایک چمچی پلائی جاتی ہے ۔ لیکن میرا چشم دید واقع یہ ہے کہ 1947ء کے شروع میں میں بازار میں جا رہا تھا کہ ایک گائے نے پیشاب کیا اور قریب سے گزرتے ہوئے ایک پینتیس چالیس سالہ ہندو کا آدھا پاجامہ گائے کے پیشاب سے بھیگ گیا ۔ میں نے ناک منہ چڑھایا لیکن ہندو شخص بخوشی ‘پاپ جھڑ گئے” کہتا ہوا چلا گیا ۔

حقائق جاں گُداز ہیں یا رب ۔ بڑھا دے حوصلہ میرا

کِسے روئیں اور کِسے دلاسا دیں
یا رب ۔ تیرے بندے کدھر جائیں

پہلے ایک خبر جس کی شاید کسی پاکستانی کو توقع نہ ہو ۔ پھر ایک انٹرویو

خبر
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئر پرسن اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینئر خاتون سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ادارے سی آئی اے کے ڈرون [بغیر پائلٹ طیارے] پاکستان سے ہی اڑائے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرپرسن ڈیان فائن اسٹائن نے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں پر پاکستان کے احتجاج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طیارے پاکستان ہی سے اڑائے جاتے ہیں۔ سی آئی اے نے ڈیان فائن اسٹائن کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے تاہم سابق انٹیلی جنس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹی چیئرپرسن کا موقف درست ہے۔ ادھر فائن اسٹائن کے ترجمان فلپ جے لا ویلے نے کہا ہے کہ کمیٹی چیئرپرسن کا بیان واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونیوالے بیانات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر پہلے ہی اخبار میں شایع ہوچکی ہے کہ جاسوس طیارے اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس سے اڑائے جاتے ہیں۔

انٹرویو
اس نے کہا کہ آپ نے ایک عورت کی کہانی لکھی جو بیوہ تھی اور اپنے بچوں کو پالنے کے لئے نوکری کر رہی تھی لیکن ہم نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ اگر آپ کو جاننا ہے کہ اس بیوہ عورت کو کس نے قتل کیا تو آپ مینگورہ تشریف لائیے ہم آپ کو اس عورت کی بہن اور بہنوئی سے ملوا دیں گے اور وہ آپ کو بتا دیں گے کہ اسے ہم نے نہیں بلکہ اس کے ایک رشتہ دار نے قتل کیا ۔ میں نے فون کرنے والے سے کہا کہ ابھی چند دن قبل سوات سے ہو کر آیا ہوں بار بار اتنا لمبا سفر کرنے کی ہمت نہیں آپ مجھے مقتولہ کے بہنوئی کا فون نمبر دے دیں میں رابطہ کر لوں گا

فون کسی اور نے لے لیا اور پنجابی میں مجھے کہا گیا کہ جب آپ ہمیں دیکھیں گے تو پہچان لیں گے لہٰذا گھبرائیے نہیں ۔ مجھے یہ آواز جانی پہچانی لگی اور میں نے ہمت کر کے ملاقات کے لئے حامی بھر لی لیکن طے ہوا کہ ملاقات بٹ خیلہ میں نہیں بلکہ مردان میں ہوگی۔ اگلی دوپہر مردان اور تخت بھائی کے درمیان ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ملاقات ہوئی تو میں نے عبداللہ کو فوراً پہچان لیا۔ یہ گورا چٹا باریش نوجوان مجھے اسلام آباد لال مسجد میں عبدالرشید غازی صاحب کے اردگرد نظر آیا کرتا تھا۔ عبداللہ کے ساتھ تین دیگر افراد بھی تھے جن میں دو کی جیکٹوں کے نیچے چھپا ہوا اسلحہ مجھے نظر آرہا تھا اور تیسرا شخص مقتولہ زینب کا بہنوئی تھا۔ یہ سہما ہوا شخص بالکل خاموش تھا۔ عبداللہ نے اس سہمے ہوئے شخص کو حکم دیا کہ میر صاحب کو بتاؤ کہ تمہاری بیوہ سالی کوطالبان نے نہیں بلکہ اس کے چچا نے قتل کیا۔ خوفزدہ شخص نے محض اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے پوچھا کہ چچا نے کیوں قتل کیا؟ خوفزدہ شخص نے کہا کہ چچا کہتا تھا کہ ہمارے خاندان کی عورتیں نوکری نہیں کر سکتیں ۔ زینب نوکری سے باز نہ آئی تو چچا نے اسے قتل کر دیا۔

میں ہوٹل کی کھڑکی میں سے بار بار اپنے ڈرائیور اور محافظ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گھبرائیے نہیں، ہم آپ کو اغوا نہیں کریں گے ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سوات کے علاقے میں ہونے والے ہر جرم، قتل، ڈکیتی اور اغوا کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ یہ سن کر میں کچھ بے چین ہو گیا اور میں نے کرسی پر پہلو بدل کر عبداللہ سے کہا کہ سوات میں 200 سے زائد گرلز اور بوائز اسکولوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ عبداللہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اس نے کہا کہ جب ان اسکولوں کو فوج اپنے مورچے بنا لے تو پھر ان اسکولوں کو تباہ کرنا جائز ہے۔ آپ کو ہمارے تباہ کئے ہوئے اسکول تو نظر آتے ہیں لیکن جن اسکولوں میں فوج کے مورچے قائم ہیں آپ دنیا کو وہ کیوں نہیں دکھاتے؟

میں نے اعتراف کیا کہ میڈیا اتنا مضبوط نہیں جتنا اسے سمجھا جاتا ہے لیکن اسکولوں کو تباہ کرنا اور گداگر عورتوں کو قتل کرنا صرف میڈیا کے نزدیک نہیں بلکہ عام پاکستانیوں کے نزدیک بھی غیر اسلامی ہے۔ یہ سن کر عبداللہ نے سخت سرد موسم میں پانی کا گلاس غٹاغٹ پیا اور زہریلے لہجے میں بولا کہ یہ عام پاکستانی اس وقت کہاں تھے جب اسلام آباد کی لال مسجد پر بم برسائے گئے اور جب جامعہ حفصہ پر بلڈوزر چلائے گئے تو کیا وہ سب کچھ اسلامی تھا؟

میرا جواب یہ تھا کہ عام پاکستانی اس وقت بھی بے اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار ہیں، عام پاکستانیوں کی بڑی اکثریت نے جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن کو غلط سمجھا اور اس آپریشن کی ذمہ دار حکومت کے خلاف 18 فروری کے انتخابات میں ووٹ کا ہتھیار استعمال کیا لہٰذا لال مسجد اور جامہ حفصہ کے خلاف آپریشن کی سزا عام پاکستانیوں اور ان کی بچیوں کو دینا بالکل ناجائز ہے۔

عبداللہ میری کسی دلیل کو تسلیم کرنے پر راضی نظر نہ آتا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک بیوہ عورت کے قتل پر آپ نے پورا کالم لکھ دیا، پاکستان کی این جی اوز مینگورہ کی ایک ڈانسر شبانہ کے قتل پر لانگ مارچ کے اعلانات کر رہی ہیں لیکن جب جامعہ حفصہ کی سینکڑوں بچیوں کو فاسفورس بموں سے جلا کر راکھ کیا گیا اس وقت یہ این جی اوز کہاں تھیں؟ 18 فروری سے پہلے مشرف کی مخالف سیاسی جماعتیں کہتی تھیں کہ وہ اقتدار میں آکر مشرف کا محاسبہ کریں گے اور جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کریں گی لیکن مشرف تو آزادانہ پوری دنیا میں گھوم رہا ہے اور اس کی پالیسی بھی جاری ہے، امریکی جاسوس طیاروں کے حملے بھی جاری ہیں کچھ بھی نہیں بدلا۔ آپ کی نام نہاد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی کہ قبائلی علاقوں اور سوات سے فوج واپس بلائی جائے گی اور معاملات ڈائیلاگ سے حل کئے جائیں گے لیکن فوج واپس نہیں بلائی گئی بلکہ ہم پر فضائی بمباری ہوگئی لہٰذا ہم بھی وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اور یاد رکھیئے کہ ہم اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں ہیں۔

میں نے عبداللہ سے کہا کہ تم گوجرانوالہ کے رہنے والے ہو تمہارا خاندان وہاں محفوظ ہے لیکن تم سوات والوں کو غیر محفوظ بنا رہے ہو۔ عبداللہ تنک کر بولا کہ میں لال مسجد کے قتل عام کا انتقام لے رہا ہوں، میرے ساتھ باجوڑ کے وہ نوجوان شامل ہیں جن کے گھر فوجی آپریشن میں تباہ ہوئے اور جب تک انتقام مکمل نہیں ہوتا وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔

میں نے اپنا لہجہ تبدیل کیا اور منت کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے انتقام سے اسلام کو بدنام کر رہے ہواللہ کے واسطے ڈائیلاگ کی طرف آؤ۔ میری بات سن کر وہ ہنسنے لگا اور مجھے یاد دلاتے ہوئے کہنے لگا کہ میر صاحب آپ نے عبدالرشید غازی کو بھی ڈائیلاگ کا مشورہ دیا تھا، انہوں نے ڈائیلاگ شروع کر دیا، بہت کچھ مان بھی گئے لیکن مشرف نے انہیں شہید کروا دیا، مشرف ابھی تک زندہ ہے، ہمیں انصاف نہیں ملا لہٰذا ڈائیلاگ کی بات نہ کرو ہمیں کسی پر اعتبار نہیں رہا۔