کیا پورے پاکستان میں خون خرابہ کرنا ہو گا ؟

مالاکنڈ بشمول سوات میں تباہی اور خُون خرابہ بسیار کے بعد کل یعنی 15 فروری 2009ء کو صوبہ سرحد کے حکومتی اہلکاروں نے صوفی محمد کے ساتھ مذاکرات کئے جس کے نتیجہ میں 10 روز کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ۔ آج صبح پشاور میں جرگہ ہوا جس میں معاہدہ طے پایا کہ نظام عدل ریگولیشنزکے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی ۔ عدالتوں میں شرعی قوانین کا علم رکھنے والے ججز کو تعینات کیا جائے گا ۔ شرعی عدالتیں دیوانی مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ اورفوجداری کا فیصلہ 4 ماہ میں کریں گی ۔ مالاکنڈ میں شریعت سے متصادم قوانین کالعدم ہونگے اور شریعت کے خلاف کوئی قانون قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اللہ کرے اب اس معاہدے پر نیک نیّتی سے عمل کیا جائے اور اس کا حشر پچھلے معاہدوں کی طرح نہ ہو ۔

یہ مت سمجھا جائے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہو رہی ہے جیسا کہ دین بیزار لوگ کہتے آئے ہیں ۔ یہ اقدام پاکستان کے آئین کے عین مطابق پہلا قدم ہے ۔ ملاحظہ ہوں آئین کی متعلقہ شقات اس تحریر کے آخر میں

اگر ایس قانون مالاکنڈ جو کہ پاکستان کا حصہ ہے مین نافذ ہو سکتا ہے تو پورے پاکستان مین کیوں نافذ نہیں ہو سکتا ؟
کیا پورے پاکستان میں شرعِ اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کیلئے پورے پاکستان میں بھی خُون خرابہ کرنا ہو گا ؟
کیا اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے پاکستان کے تمام صوبوں اور شہروں کی سڑکوں ۔ گلیوں اور گھروں کو مسلمان مردوں ۔ عورتوں ۔ بوڑھوں ۔ جوانوں اور بچوں کے خون سے سینچنا ضروری ہے ؟

کون دے گا ان سوالوں کا جواب ؟

آئینِ پاکستان سے متعلقہ اقتباسات

Preamble

Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;
Wherein the independence of the judiciary shall be fully secured;
Faithful to the declaration made by the Founder of Pakistan, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, that Pakistan would be a democratic State based on Islamic principles of social justice;

Article 62

(d) he is of good character and is not commonly known as one who violates Islamic Injunctions;
(e) he has adequate knowledge of Islamic teachings and practises obligatory duties prescribed by Islam as well as abstains from major sins ;
(f) he is sagacious, righteous and non-profligate and honest and ameen;
(g) he has not been convicted for a crime involving moral turpitude or for giving false evidence;
(h) he has not, after the establishment of Pakistan, worked against the integrity of the country or opposed the Ideology of Pakistan

This entry was posted in خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

23 thoughts on “کیا پورے پاکستان میں خون خرابہ کرنا ہو گا ؟

  1. ڈفر

    اللہ کرے کہ ہماری حکومت اب ہوش کے ناخن لے
    ہمارے بہت سے صحافی اور سیاستدان حضرات بھی میدان میں کود پڑے ہیں جو اس معاہدے کو حکومت کی نا اہلی اور ریاست کے اندر ریاست سے تشبیہ قرار دے رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ حکومت اتنی سمجھداری کا مظاہرہ کرے گی کہ غلط اور صحیح کو پہچانے اور صحٰیح بات ر ڈٹی رہے۔ اس بات کا بھی اہتمام ہونا چاہئے کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرے جس کے لئے میڈیا کا سہارا لے۔ اور جیو کو بالکل بند کر دے جو پروپیگنڈا ماسٹر ہے۔

  2. شعیب صفدر

    آپ اسے ریاست کے اندر ریاست قرار دینے کے خلاف ہیں!!!
    مگر میں اسے اس سے ملتی جلتی بات ہی قرار دوں گا! وجہ سادہ ہے! کیوں کہ یہ قانون معاہدہ کی بناء پر نافذ ہوا ہے۔ لوگوں کی نہیں فرد کی مرضی کے مطابق! اُس علاقے میں ریفرنڈم نہیں ہوا ایک ریاست سے لڑنے والے سے امن معاہدہ ہوا ہے!
    جس کی پہلی ڈیڈ لائن دس دن کی ہے!
    بات سادہ ہے اعتدال کی راہ اختیار کی جانی چاہئے!

  3. فیصل

    اللہ تعالی کے ہر کام میں خیر ہوتی ہے اور وہ شر کے باطن سے بھی خیر کو بر آمد کر سکتا ہے۔ شائد یہ سواتیوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ وہاں ایسا ہونے جا رہا ہے۔ اس بات میں شک نہیں کہ لوگوں نے شروع شروع میں طالبان کو خوش آمدید کہا تھا کیونکہ وہ کم از کم شخصی سطح ہر انصاف برتتے تھے یعنی لوگوں‌کے آپس کے روز مرہ معاملات میں انصاف کرتے تھے۔
    مجھے یہ نہیں سمجھ آئی کہ قرار داد مقاصد کا اطلاق کیسے ریاست کے اندر ریاست ہو سکتا ہے، کیا مشرف کی کئی مرتبہ کی قانون شکنی ریاست کی کھلی تذلیل نہیں تھی؟ یہ تو ملک کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے، فوج تو پنڈی سے روانہ ہو کر اسلام آباد پر قبضہ کر لیتی ہے، اسوقت ریاست کو کچھ نہیں ہوتا؟

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ڈِفر صاحب
    اتفاق کی بات ہے کہ مذاکرات کے عمل کی تائید جیو کے اہلکار کر رہے ہیں بالخصوص حامد میر نے اس سلسلہ میں بہت پروگرام کئے ہیں

    شعیب صفدر صاحب
    آپ اسے ریاست کے اندر ریاست کہنے کی بجائے آئین کے مطابوق علاقہ کیوں نہیں کہتے ۔ رہا ریفرینڈم تو یہ کیا کم ہے کہ کئی ماہ کی ناکہ بندی اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود فوج سے لڑنے والوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی گئی ۔ مالاکنڈ میں رہنے والوں میں 70 سے 80 فیصد لوگ اس نظام کے حامی ہیں ۔ وہاں یہی نظام نافذ تھا 1974ء میں انگریزی قانون نافظ کیا گیا ۔ اس وقت سے وہاں پر وقتاً فوقتاً مطالبہ زور پکڑتا رہا اور بے دلی سے اسلامی نظامِ عدل نافذ ہوتا اور نہ ہوتا رہا ۔ جب فوجی کاروائی شروع ہوئی تو معاملہ ہاتھ سے نکل گیا ۔ آپ فکر نہ کریں وہاں وکلاء ہی اس نظام کو چلاتے ہیں :lol:

    فیصل صاحب
    آپ کا خیال درست ہے ۔ قرادادِ مقاصد پاکستان کے آئین کا حصہ ہے اور متعلقہ سقیں میں نے اپنے تحریر میں شامل کیں ہیں ۔ ان کے مطابق دیکھا جائے تو صدر ۔ وزیر اعظم اور اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کی بھاری اکثریت نااہل ہے ۔

  5. شعیب صفدر

    یہ آج کے دن میں میرے پیشے پر آپ کا دوسرا حملہ ہے! :shock:
    باقی میں اپنی بات کے سلسلے میں کسی پوسٹ میں بست بیان کروں گا اببی کام ہے تھوڑاس سا!

  6. شعیب صفدر

    پہلا حملہ آپ نے میرے بلاگ پر تبصرے میں کیا تھا :sad: میں وکالت ایک مشن کے تحت کر رہا ہوں اسے صرف پیشہ ہی نہیں بنایا!
    باقی آپ بڑے ہیں اور اتنا تو آپ ہم چھوٹوں پر یقین رکھے کسی بات پر اختلاف اپنی جگہ مگر بڑوں سے بدتمیزی نہیں کر سکتے! وجہ بڑوں سے بد تمیزی خود اپنے پر بد اعتمادی کی ایک شکل ہے!
    لہذا مذاق میں بھی ایسا مت کہئے گا! آپ بڑے ہونے کی بناء پر نہ صرف ہم سے ذیادہ تخربہ کار ہیں بلکہ قابل عزت بھی!

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    شعیب صفدر صاحب
    جناب دست بستہ معافی کی درخواست ہے ۔ گر قبول اُتد زہے عزّ و شرف ۔ بڑی تو صرف اللہ کی ذات ہے میں نے اپنے آپ کو کبھی بڑا نہیں سمجھا سوائے اپنے بچوں کے سامنے ۔ رہی بات وکالت کی تو جناب میں کسی ایسے پیشے کا مخالف نہیں ہوں جو گناہ نہ ہو ۔ میں گداگری کو بہت بُرا سمجھتا ہوں لیکن کبھی کسی گداگر سے بھی بدتمیزی نہیں کی

  8. شعیب صفدر

    سر ہم بھی آپ کے بچو جیسے ہیں!
    اور بڑے بچوں سے معافی نہیں مانگتے! آپ پھر شرمندہ کر رہے ہیں!
    میں تجربہ کار لکھنا چاہ رہا تھا!
    j اور k ساتھ ساتھ ہیں ناں!!!

  9. ڈفر

    لیکن موقع سے فائدہ اٹھائیے
    اس وقت شعیب صاحب جذباتی ہو گئے ہیں
    آپ دو تھپڑ بھی لگا لیں تو برا نہیں مانیں گے :mrgreen:

  10. عمر احمد بنگش

    محترم اجمل بھوپال صاحب!۔
    بڑی معلوماتی تحریر ہے، اگر کچھ وقت مل جائے تو ہم جیسے کم علموں کے واسطے اگر مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذ شریعت اور رائج قوانین کی کچھ تاریخ سہل انداز میں قلمبند کر دیں گے؟ اس سے ہمیں اس کو صحیح طرح سے سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی، کیونکہ والی سوات سے لے کر آج تک کیا کیا قوانین اور کیا ہوا تھا، کچھ ٹیڑھی کھیر جیسا ہے۔
    اصل میں یہ سب کچھ آج کل بعض ٹی وی چینلوں پر دکھایا جاتا ہے، لیکن صحافت کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں جب ہر چینل اپنے طور پر اسے بیان کرتا ہے۔

  11. نعمان

    آئین پاکستان میں جس کے ایک حصے کا آپ نے اوپر حوالہ دیا ہے، کسی بھی قانون کو آئین کا حصہ بنانے کا ایک طریقہ کار بیان ہوا ہے۔ کوئی بھی شخص یا گروہ اگر آئین میں بیان کردہ راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی بھی قانون سازی کے لئے جدوجہد کرتا ہے تو یقینا خون خرابے سے بچا جا سکتا ہے۔

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عمر احمد بنگش صاحب
    واقعی اس معاملہ کی ہئیت پروپیگنڈہ میں گم ہو کر رہ گئی ہے ۔ میرا خیال ہے آپ کا تعلق مانسیرہ سے ہے ۔ آپ کو تو زیادہ معلوم ہونا چاہیئے

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    اگر حکومت آئین کے مطابق کام کرتی تو واقعی خون خرابے سے بچا جا سکتا تھا ۔ جو ہزار سے زائد وردی والے مارے گئے ہیں وہ بھی تو پاکستانی اور غریب گھروں کے چراغ تھے لیکن ایئرکنڈیشنڈ کوٹھیوں اور کاروں میں رہنے والوں کو اُن کی کیا پرواہ ؟
    آئین کے مطابق کام سے مراد ہے اسمبلی میں قانون منظور کرنا اور نافذ کرنا ۔ کیا جو کچھ آئین میں لکھا ہے وہ مُلک میں نافذ ہوا ہے ؟ نہیں ۔ تو جب ایسی صورتِ حال ہو تو عوام کیا کریں گے ؟ احتجاج ۔ جب احتجاج پر حُکمران توجہ نہ دیں گے تو امنِ عامہ کو خطرہ لاحق ہو گا ۔ یہ تو ہے عمومی صورتِ حال ۔
    مالا کنڈ بشمول سوات کا مسئلہ کچھ اور بھی ہے ۔ وہاں کے لوگ پچیس سالوں سے احتجاج کر رہے تھے ۔ اُن کے ساتھ دو تین دفعہ مذاکرات کے بعد نظامِ عدل نافذ کرنے کا وعدہ کیا گیا لیکن عملی طور پر اُس کا اُلٹ کیا گیا ۔ تنگ آ کر اُنہوں نے ڈھائی سال قبل تین ماہ بعد اپنی عدالتیں قائم کرنے کی دھمکی دی ۔ حکومت کے وعدہ پر تاریخ آگے بڑھاتے رہے ۔ آخر چھ ماہ بعد ایک قاضی مقرر کر دیا ۔ بجائے مذاکرات کے اُن کے خلاف فوجی کاروائی شروع کر دی گئی ۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں مرنے والے کم از کم 70 فیصد عام شہری ہیں جن میں بوڑھے جوان مرد عورتیں اور بچے شامل ہیں ۔ فوجی کاروائی کے نتیجہ میں مالاکنڈ کے 80 فیصد علاقہ کے لوگ نام نہاد پاکستانی طالبان کے حمائیتی ہو گئے کیونکہ حکومت اُنہیں تحفظ مہیا نہ کر سکی اور جنگجوؤں نے اُنہیں تحفظ مہیا کیا ۔

  14. نعمان

    گر حکومت آئین کے مطابق کام کرتی تو واقعی خون خرابے سے بچا جا سکتا تھا۔

    اگر لوگ اپنے مطالبات منوانے کے لئے قانونی جدوجہد کرتے تب بھی خون خرابے سے بچا جاسکتا تھا۔

    جو ہزار سے زائد وردی والے مارے گئے ہیں وہ بھی تو پاکستانی اور غریب گھروں کے چراغ تھے لیکن ایئرکنڈیشنڈ کوٹھیوں اور کاروں میں رہنے والوں کو اُن کی کیا پرواہ ؟

    انہیں مارنے والے بھی تو اسلام کے نام لیوا تھے کم از کم انہیں تو اس کی پرواہ کرنا چاہئے تھی۔

    آئین کے مطابق کام سے مراد ہے اسمبلی میں قانون منظور کرنا اور نافذ کرنا ۔ کیا جو کچھ آئین میں لکھا ہے وہ مُلک میں نافذ ہوا ہے ؟

    جدوجہد کا پہلا حصہ قانون سازی ہے اگر وہ نافذ نہ ہو تو اس کے لئے بھی آئین میں طریقہ کار بیان ہوا ہے۔ لیکن اگر آپ پہلے حصے میں ہی قانون کے مطابق نہیں چلتے تو نفاذ کی نوبت کیسے آئے گی؟

    فوجی کاروائی کے نتیجہ میں مالاکنڈ کے 80 فیصد علاقہ کے لوگ نام نہاد پاکستانی طالبان کے حمائیتی ہو گئے کیونکہ حکومت اُنہیں تحفظ مہیا نہ کر سکی اور جنگجوؤں نے اُنہیں تحفظ مہیا کیا ۔

    حکومت انہیں کس سے تحفظ کرتی؟‌ طالبان سے؟ لیکن طالبان تو بہت انصاف پسند ہیں۔ اور ظاہر ہے اگر لوگ ان کے خلاف نہیں چلیں گے تو خود بخود لوگوں کو طالبان سے تحفظ حاصل ہوجائیگا۔ اس لئے لوگوں کو مجبورا طالبان کی حمایت کرنا پڑی اور اسی لئے غالبا صوفی نامی بابا کہتے ہیں کہ وہ جمہوریت میں یقین نہیں رکھتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ووٹ ڈالے گئے تو انہیں بالکل عوامی حمایت حاصل نہیں ہوگی۔

  15. عمر احمد بنگش

    محترم اجمل بھوپال صاحب:
    جی بالکل میرا تعلق مانسہرہ سے ہے، لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اگر کوئی شخص مینگورہ میں بھی بیٹھا ہو، مٹہ کی صورتحال کے بارے میں تذبذب کا شکار ہے، کیونکہ افواہوں اور پروپیگنڈہ کا بازار اس خوبصورتی سے سرگرم کیا گیا ہے کہ حد کر دی ہے۔

  16. افتخار اجمل بھوپال Post author

    نعمان صاحب
    آپ کے خیالات اپنی جگہ درست ہیں لیکن اگر کوئی آئین پر عمل نہ کرے تو اس سے عام آدمی کیسے آئین پر عمل کروا سکتے ہیں ؟ از راہِ کرم اس کی وضاحت کر دیجئے ۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ آئین کی دھجیاں بکھیرنے والے ہمیشہ مزے میں رہے اور غریب عوام ہمیشہ پِستے رہے ۔ ایک فرد واحد نے آئین کا حُلیہ بگاڑ کے رکھ دیا اور موجودہ نام نہاد جمہوری اور آئینی حکومت کے وزیرِ قانون اُسے بارہا جائز قرار دے چکے ہیں ۔

    ایک سنگین حقیقت شاید آپ کے علم میں نہیں کہ سوات میں خون خرابہ کا آغاز فضل اللہ نے شروع نہیں کیا بلکہ سکیورٹی فورسز نے شروع کیا ۔ کیا یہ آئین میں درج ہے کہ پاکستان کے عوام پر بلاتمیز بوڑھا۔ جوان۔ عورت ۔ مرد یا بچہ گولیوں اور گولوں کی بوچھاڑ اسلئے کر دی جائے کہ وہ لوگ آئین میں درج اپنا حق مانگ رہے تھے ؟ اور کیا یہ بھی آئین میں درج ہے کہ ایسی صورت میں وہ لوگ آنکھیں بند کر کے خاندانوں کے خاندان ہلاک کروا لیں ؟

    اگر حکومت اپنے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان تو بہت دور کی بات ہے تحفظ بھی فراہم نہیں کر سکتی تو پھر اُسے حکومت کیوں کہا جاتا ہے ؟ ایسی صورت میں جو جس کا جی چاہے سو کرے اور یہی ہو رہا ہے ملک میں

  17. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عمر احمد بنگش صاحب
    آپ نے درست کہا ۔ میں انشاء اللہ دو ایک دن میں اس سارے دھندے کی مختصر روئیداد اپنے بلاگ پر شائع کروں گا ۔ کام کافی لمبا ہے اسلئے وقت لگ رہا ہے ۔ ضخامت بھی بہت بن گئی ہے اسے مختصر بھی کرنا ہو گا

  18. Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » پہاڑوں پر لگی آگ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.