چند روز قبل ہی بازار میں فروخت کیلئے پیش ہونیوالی ڈیوڈ ای سینگر کی تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے پاک فوج کے افسران کی ٹیلیفون پر بات چیت سن رہے تھے اور جاسوس طیاروں کے ذریعے حملوں کا فیصلہ ایسی ہی اعلیٰ سطح کی گفتگو سننے کے بعد کیا گیا جس میں طالبان کو پاکستان کیلئے ”اسٹریٹجک اثاثہ“ قرار دیا گیا تھا۔ ”دی اِن ہیریٹنس ۔ امریکی طاقت کو درپیش چیلنجز اور وہ دنیا جس کا اوباما کو سامنا ہے“ کے نام سے تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی علاقوں پر حملوں کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ آئی ایس آئی مکمل طور پر طالبان کا ساتھ دے رہی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی [این ایس اے] نے ایسے پیغامات کا سراغ لگایا جن سے اشارہ ملتا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسران افغانستان میں ایک بہت بڑا بم حملہ کرانے کیلئے منصوبہ بندی میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں تاہم اس کا ہدف واضح نہیں تھا۔ چند روز کے بعد قندھار جیل پر طالبان نے حملہ کیا ا ور سیکڑوں طالبان کو رہا کرالیا۔
اگر کتاب میں عائد کردہ الزامات درست ہیں تو جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی فوج کے دوسرے سربراہ ہونگے جن کی گفتگو امریکیوں نے سنی ہے۔ قبل ازیں ایف بی آئی نے صدر پرویز مشرف کی بینظیر بھٹو کیساتھ ہونیوالی وہ گفتگو سنی تھی جب پرویز مشرف نے انہیں دھمکی دی تھی کہ پاکستان میں ان کی سلامتی کا انحصار انکے [پرویز مشرف] ساتھ تعلقات پر ہے۔ بھارتیوں نے بھی جنرل پرویز اور جنرل عزیز کی گفتگو اس وقت ریکارڈ کی تھی جب کارگل جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف بیجنگ میں تھے۔ مصنف، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 20 جنوری کو جارج بش کے صدارت چھوڑنے سے قبل وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونیوالے متعدد اجلاسوں میں خفیہ ریکارڈ تک براہِ راست رسائی دی گئی تھی، نے کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ این ایس اے پہلے بھی ایسی گفتگو سن چکی ہے کہ پاکستان آرمی کے یونٹس قبائل میں اسکول کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ پیشگی انتباہ کر رہے ہیں کہ کیا ہونیوالا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے لازماً 1-008-HAQOANI
ڈائل کیا ہوگا۔ یہ بات اس شخص نے کہی ہے جو اس سے آگاہ تھا۔
ایک اور پیرا گراف کے مطابق اسکول کو بھیجی گئی وارننگ کی تفصیلات تقریباً مضحکہ خیز تھیں۔ اس میں کہا گیا تھاکہ ”اوئے! ہم تمہاری جگہ کو چند روز میں نشانہ بنانے والے ہیں لہٰذا اگر وہاں کوئی اہم آدمی موجود ہے تو اس سے کہو کہ وہ چیخ و پکار کرے“۔ کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ امریکا کو ان زمینی حقائق سے پوری آگاہی تھی اور انہوں نے پاکستانی علاقوں میں اس وقت حملے کرنا شروع کئے جب انہوں نے سوچا کہ پاکستانی فوج اور خُفیہ ادارے طالبان سے لڑنے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔
کتاب کے باب نمبر 8 ”کراسنگ دی لائن“میں پاکستان کے حوالے سے مصنف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کس طرح پاک فوج کے ایک میجر جنرل نے امریکی جاسوسی ادارے کے سربراہ مائیک میک کونیل کے سامنے دانستہ پاک فوج کے پورے خفیہ منصوبے کو کھول کر رکھ دیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے خفیہ ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پرویز مشرف ان کیساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں ۔ ایک جانب تو وہ امریکا کو یقین دلاتے تھے کہ صرف وہی طالبان کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو دوسری جانب وہ عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ پرویز مشرف کے دُہرے معیار کا ریکارڈ جانا پہچانا تھا۔
مصنف نے پاکستان پر یہ باب امریکا کے دو اعلیٰ خفیہ اداروں کے سربراہان مائیک میک کونیل اور مائیکل ہیڈن جن کی عرفیت ” Two Mikes
” تھی کے خفیہ دوروں کی بنیاد پر تحریر کیا ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف سمیت پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ مئی 2008ء کے آخر میں میک کونیل نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا جو نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر بننے کے بعد ان کا چوتھا یا پانچواں دورہ تھا اور اس کے نتیجے میں بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں پاکستان میں سرحد پار سے خفیہ ایکشن بہت زیادہ بڑھ گیا تھا
پوسٹ کے عنوان سے کیا مراد ہے؟ کیا امریکی بغیر کسی لائن مین کے ان لوگوںکی گفتگو نہیں سن سکتے؟
باتمیز صاحب
آپ شاید ٹیلیفون کے نظام سے واقف نہیں ۔ راز کی باتیں اول تو ٹیلیفون پر کی ہی نہیں جاتیں اور اگر کی جائیں تو ہاٹ لائین پر کی جاتی ہیں جو لائین مین تو کیا چھوٹے موٹے عہدیدار کی دسترس میں نہیں ہوتا
:grin: وہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ جب ایسا ہی ہوتا ہے تو اس پوسٹ کے عنوان کا مطلب کیا ہوا؟
باتمیز صاحب
عنوان کا مطلب ہے ۔ سچ بولنا بیوقوفی ہے