ایک ۔ 24 فروری کو مرکزی حکومت نے باقاعدہ طور پر امریکی حکومت کو آگاہ کیا کہ کل یعنی 25 فروری کو نواز شریف اور شہباز شریف کو نااہل قرار دیا جا رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ آقا سے آشیرباد ملنے کے بعد یہ قدم اُٹھایا گیا
دو ۔ 25 فروری کی دوپہر جب ابھی شریف برادران کی نااہلی کے فیصلے کا اعلان نہیں ہوا تھا مسلم لیگ ق کی ایک عہدیدار نوشین سعید سفما کے ظہرانے میں شریک تھی کہ اسکے موبائل فون پر پیغام آیا کہ شریف برادران کو نااہل قرار دے کر پنجاب میں گورنر راج نافذ کیا جا رہا ۔ اس پر وہ ششدر رہ گئی
تین ۔ 25 فروری کو عدالت سے شریف برادران کی نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد جب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی صدر زرداری کے پاس گئے تو اُن کا خیال تھا کہ صدر زرداری مسلم لیگ ن کو پنجاب میں دوبارہ حکومت بنانے کا کہیں گے ۔ اس کے برعکس اُن کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی خبر دی گئی جس سے وہ پریشان ہوئے
چار ۔ 26 فروری کو زرداری کے مشیروں نے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے کا مشورہ دیا تاکہ وہ ملک میں ہونے والے احتجاج کو نہ ٹی وی پر دکھائیں اور نہ اخباروں میں اس کی تفصیل لکھیں ۔ اس کا جب وزیر اطلاعت شیری رحمان کو علم ہوا تو اُس نے کہا کہ “محترمہ بینظیر بھٹو نے مرنے سے قبل آزاد ذرائع ابلاغ کا وعدہ کیا تھا ۔ اسلئے اگر پابندی لگائی گئی تو میں وزارت سے مستعفی ہو جاؤں گی”
پانچ ۔ گورنر پنجاب نے جو رولز آف بزنس میں تبدیلی کی ہے آئین کے مطابق یہ صوبائی اسمبلی کا کام ہے جو صوبائی کابینہ یا وزیر اعلٰی سرانجام دیتا ہے اور اُن کی عدم موجودگی میں مُلک کی پارلیمنٹ یہ کام کرتی ہے ۔ چنانچہ رولز آف بزنس میں تبدیلی اور جو بے شمار اعلٰی عہدیداروں کو تبدیل کیا گیا ہے یا او ایس ڈی بنایا گیا اور جو نئے عہدیدار تعینات کئے گئے ہیں یہ سب آئین اور قانون کی خلاف ورزی ہے
چھ ۔ آج رائے وِنڈ میں پنجاب مسلم لیگ ن کی صوبائی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا ۔ اس میں مسلم لیگ ن کے علاوہ مسلم لیگ ق کے 33 ارکان پنجاب اسمبلی نے شرکت کی ۔ مسلم لیگ ق کے ایک رکن پنجاب اسمبلی جو اس وقت بلوچستان میں ہیں نے موبائل فون کے ذریعہ مسلم لیگ ن کو اپنی حمائت کا یقین دلایا ۔ مسلم لیگ ق کے ایک رکن پنجاب اسمبلی جو اس وقت ملک سے باہر ہیں ایک دو دن میں واپس پہنچ رہے ہیں ۔ ان کے متعلق بھی کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حمائت کریں گے ۔ مسلم لیگ ن کے پنجاب اسمبلی میں 170 ارکان ہیں اور حکومت بنانے کیلئے اُنہیں مزید صرف 16 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ مسلم لیگ ق کے 35 اور دوسرے 7 ارکان اُن کے ساتھ ہیں جو کُل 212 بنتے ہیں ۔ اگر باقی تمام ارکان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل بھی جائیں تو کل 157 بنتے ہیں ۔ چنانچہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کا کوئی امکان نہیں ۔ اسلئے ہو سکتا ہے کہ گورنر راج کو غیر آئینی طریقہ سے طول دیا جائے
افتخار جی ایک مشرف گیا تو دوسرا آگیا ۔ میراث ھے پاکستان ان حکمرانوں کی اور عوام ابھی تک احتجاج کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری ۔ کب پاکستانیوں کو اس بات کا شعور آئے گا کب وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو پہچان سکیں گے ۔ کب ان حکمرانوں کے ڈارمے بند کروایں گے ۔اگر یہ احتجاج پارٹی کے لیے کر سکتے ہیں تو عوام اپنے لیے آواز حق بلند کیوں نہیں کرتی ۔
بہت زبردست معلومات دینے کا شکریہ۔
اگر یہ معلومات درست ہیں تو اللہ سبحان و تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آمین
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » وضاحت