محاورہ ہے ۔ ۔ ۔ چور چوری سے جائے پر ہیراپھیری سے نہ جائے ۔ ۔ ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ چور نہ چوری چھوڑتا ہے اور نہ ہیراپھیری ۔ دو دہائیاں پیچھے ایک چور نے جو کہ توبہ تائب ہو چکا تھا میرے سامنے کچھ اس طرح اعتراف کیا “مجھے بچپن سے چوری کی عادت پڑ گئی ۔ گرفتاری کے بعد جیل میں ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جس نے مجھے سمجھایا اور میں نے چوری سے توبہ کر لی ۔ لیکن کچھ سمجھ نہیں آتی مجھے کیا ہو جاتا ہے جب کوئی قیمتی یا خوبصورت چیز مجھے نظر آتی ہے میں اُسے چُرانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کبھی کبھی اُٹھا کر چھُپا بھی لیتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ کیا کر رہا ہوں تو واپس رکھ دیتا ہوں”۔ البتہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی قادر و کریم ہے کسی پتھر دِل میں اپنا خوف ڈال دے تو وہ پانی ہو جائے
بینظیر بھٹو کا دوسرا دور تھا ۔ میں اسلام آباد میں ایک قومی اعلٰی سطح کے اجلاس میں شریک تھا ۔ چائے کے وقفہ میں سندھ سے آئے ہوئے ایک اعلٰی عہدیدار جو خالص سندھی تھے سے میں نے تفصیلی حال احوال پوچھا تو میرے قریب ہو کر جواب دیا “بھائی ۔ ایسی باتیں سرِ عام نہ پوچھا کریں”۔ یہ کہہ کر وہ صاحب اپنی چائے لے کر دور ایک چھوٹی میز پر جا بیٹھے ۔ لمحہ بعد میں نے بھی اپنی چائے کی پیالی اُٹھائی اور اُن کے پاس جا بیٹھا اور پوچھا “ہاں جناب ۔ پھر کیا حال ہے ؟ سُنا ہے کہ آپ نے کراچی جِمخانہ کی زمین بھی لے لی ہے”۔ جواب ملا “بھائی کیا پوچھتے ہو ۔ اب تو کراچی میں شاید کوئی پولٹری فارم بھی نہیں رہا جس میں مردِ اوّل کا حصہ نہ ہو”۔ میں نے کہا “تو ٹَین پرسَینٹ [ten per cent] کو ٹوَینٹی یا تھرٹی پرسَینٹ [twenty or thirty percent] کرنا پڑے گا؟” جواب ملا “یہ کچھ سال رہ گیا تو ڈر ہے کہ ہنڈرڈ پرسَینٹ [hundred per cent] نہ ہو جائے ۔ ہمارا کیا بنے گا؟”۔ میرے ساتھ گفتگو کرنے والے پیپلز پارٹی کے خاص آدمیوں میں شمار ہوتے تھے
یہ تو ہے تاریخ ۔ اب کچھ تازہ بتازہ
عوام آج تک نہیں سمجھ پائے کہ 20 ستمبر 2008ء کو کس نے میریئٹ ہوٹل[Marriat Hotel] اسلام آباد کو تباہ کرنے کی سازش کی اور اتنے ہائی سکیورٹی زون میں تین چیک پوسٹیں عبور کرتا ہوا بارود سے بھرا ٹرک کیسے میریئٹ ہوٹل تک پہنچ گیا ؟ اسلام آباد کے اعلٰی دائرے میں چلیں جائیں تو اس سلسلہ میں سب مطمئن نظر آئیں گے ۔ میں نے چند روز قبل لکھا تھا کہ ہمارے لوگوں کو کل کی بات یاد نہیں رہتی ۔ آصف زرداری کے مُلک میں واپس آ نے کے بعد ایک خبر اخبار میں چھپی تھی کہ میریئٹ ہوٹل اسلام آباد زرداری نے خرید لیا ہے ۔ ہوا یہ تھا کہ زرداری نے صدرالدین ہاشوانی سے ہوٹل مانگا تھا لیکن اُس نے دینے سے انکار کر دیا ۔ جس کی سزا اُسے 20 ستمبر 2008ء کو دی گئی
اسلام آباد کے سیکٹر ایف ۔ 11/3 اور سیکٹر ای ۔ 11 کے درمیان گرین ایریا پر ایک سکول ہے ۔ یہ سکول بنانے کیلئے زمین کا ٹکڑا بینظیر بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں سکول کے مالکوں کو تحفہ کے طور پر دیا تھا یعنی رعائتی قیمت پر ۔ حال ہی میں مِسٹر ٹَین پرسَینٹ کے آدمی نے سکول کے مالکوں سے کہا کہ اس زمین کی مارکیٹ ویلیو [maket value] اتنی بنتی ہے اسلئے اس حساب سے بقایا جات کی ہمیں ادائیگی کی جائے ۔ کوئی جواب نہ ملنے پر سکول کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور مالکوں کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں
بزنس بزنس ہوتا ہے [business is business] اور بزنس مین [bsinessman] جہاں بھی بیٹھ جائے بزنس ہی کرتا ہے ۔ اس کی دو مثالیں میاں نواز شریف نے اپنی شیخو پورہ کی تقریر میں پیش کیں ۔ صدر آصف زرداری سے نواز شریف کی آخری ملاقات میں زرداری نے کہا تھا “آپ پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کی توثیق کر دیں تو میں آپ کی بات مان لیتا ہوں “۔ اس کے بعد جب صدر نے وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف کو کھانے پر بُلایا تھا تو اُسے کہا “میرے ساتھ بزنس ڈِیل کرو ۔ آپ عبدالحمید ڈوگر کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے آئینی ترمیم میں میری مدد کریں اور میں آپ کے نااہلی کے مقدمات کا فیصلہ آپ کے حق میں کروا دیتا ہوں”
اللہ ہمیں ہر بُرائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے
اسلامُ علیکم
زرداری تو ہائی اسٹینڈرد چور ہے اور یہ بات ہماری عقل بند عوام نہیں سمجھے گی۔
یہ میریٹ ہوٹل والی بات کچھ ہضم نہیں ہوئی۔ :smile:
بھوپال صاحب، کیا زرداری اور کیا شریف، سارے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، جس کا جتنا “دا” لگتا ہے، اتنا نوچ لیتا ہے، شریفوں کی شرافتیں بھی ابھی پرانی نہیں ہوئیں، اور زرداری نے تو قربانیاں بڑی دی ہیں
فیصل صاحب
میں اتفاق سے کچھ ایسی باتوں کا شاہد بھی ہوں جو آج تک مجھے ہضم نہیں ہو سکیں تو میں آپ کو کونسا چُورن تجویز کروں ۔
آپ دیکھئے سیّدہ صبا صاحبہ نے کیا لکھا ہے ۔ یہ سندھ کے ایک اعلٰی سطح کے قابلِ احترام اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہی ۔ سی ایس ایس کر کے سندھ میں مجسٹریٹ کے فرائض بھی انجام دیئے ۔ ان کی ایک خوبی جس نے مجھے ان سے متعارف کرایا تھا وہ ان کا سچ بولنا ہے ۔
عمر احمد بنگش صاحب
مجھے آپ سے اتفاق نہیں ہے ۔ میں نے ایوب خان ۔ یحیٰ حان ۔ ڈوالفقار علی بھتو ۔ ضیاء الحق ۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف سب کی حکومت کے دوران کچھ اہم اسامیوں پر کام کیا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو سے میری ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ وہ اپنی سکیورٹی کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے باقی سب سے ملاقاتیں ہوئیں اور تبادلہ خیال بھی ۔ بینظیر اور جواز شریف کے زمانہ میں میں نہ صرف سینئر افسر تھا بلکہ کچھ نیشنل فورمز پر میرا عمل دخل تھا ۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » جذبہ عشق
اگر آج جو ھکمران ھماری قوم کو میسر ھیں ان میں سے آگر سب کا موزنھ کیا جے تو ، میرے خیال میں آپ شریف خاندان کو سب سے بھتر پاے گے، کم سے کم یھ جام وخحیام سے تو پرھیز کرتے ھیں-
ارسلان بیٹے
اس میں کوئی شک نہیں کہ منظر پر موجود بڑا قابلِ بھروسہ سیاستدان اب نواز شریف ہی ہے