میں نے کل کچھ اُونچی باتیں اور خبریں لکھی تھیں جن کے متعلق استفسار ہوا ۔ ایسی سینہ بسینہ چلنے والی باتوں کا ثبوت دینا مشکل ہوتا ہے ۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ بات آگے پہنچانے سے پہلے خبربرداروں کو پرکھ لوں کہ کتنے عام زندگی میں کتنے سچے ہیں ۔ بہرحال ان باتوں کی موجودہ صورتِ حال یہ ہے
ایک ۔ اب دنیا نیوز ٹی وی چینل پر بھی نشر ہو چکی ہے
دو ۔ تین اور چار ۔ اخبار دی نیوز میں شائع ہو گئی ہیں
پانچ ۔ یہ آئینی صورتِ حال ہے ۔ جو کچھ گورنر اور صدر نے پنجاب کے بارے میں کیا ہے سب غیر آئینی ہے ۔ ایک پرانی مثال ہے کہ نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو سندھ میں حالات خراب ہونے پر گورنر راج نافذ کیا گیا تو صوبائی اسمبلی کے سپیکر مستعفی ہو گئے ۔ مرکزی حکومت نے اسمبلی کا کام جاری رکھنے کیلئے رولز آف بزنس تبدیل کر کے ڈپٹی سپیکر کو اسمبلی چلانے کو کہا ۔ اس کے خلاف رِٹ پیٹیشن دائر کی گئی ۔ عدالتِ عالیہ نے فیصلہ دیا کہ آئین کے مطابق رولز آف بزنس اور دوسرے صوبائی کام صوبائی اسمبلی یا اس کی نمائندہ کابینہ یا وزیر اعلٰی اور اگر یہ نہ ہوں تو پارلیمنٹ یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ مل کر چلا سکتے ہیں ۔ چنانچہ مرکزی حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا تھا ۔
چھ ۔ یہ تو اب تمام ٹی وی چینلز سے نشر ہو چکا ہے اور اخبارات میں چھپ چکا ہے