آج سپریم کورٹ عمارت میں تین رکن بنچ نے جسٹس موسیٰ کے لغاری کی سربراہی میں شریف برادارن کی انتخابی اہلیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ
شریف برادران اہلیت کیس میں چیف سیکرٹری اور اسپیکر پنجاب متاثر ہ فریق نہیں ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ تمام ججز نے آئین کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے ۔ عبوری آئین کا حلف غیر متعلقہ بات ہے ۔ نواز شریف کے تجویز و تائید کنندہ اس وقت فریق بن سکتے ہیں جب عدالت انہیں اجازت دے ۔ تجویز اور تائید کنندہ کا فریق ہونا ضروری نہیں ۔ عدالتی بینچ کی دست برداری کا فیصلہ جج کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔ اسے کوئی دست بردار ہونے کی ہدایت نہیں دے سکتا
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ دیا اور بعد میں شریف برادارن اہلیت کیس نمٹاتے ہوئے تین رکنی بنچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کونااہل قراردیا
اس فیصلے اور بالخصوص اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری نہ صرف نواز شریف بلکہ پوری قوم کو دھوکہ دیتا رہا ہے اور سب کو لے کر چلنے کی بات جھوٹ پر مبنی تھی
اب خود زرداری صاحب کے دن بھی گنے چا چکے ہیں۔ نواز اور شریف شہباز فرشتے تو نہیںلیکن اب شہیدوںمیں نام لکھوا لینگے۔ وہ بھی شائد یہی چاہتے تھے۔
دیکھیے اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
درویش جی، کسی کروٹ بھی بیٹھے، بھٹہ تو عوام کا ہی بیٹھنا ہے!! :sad:
درست فرمایا
جن معاشروں سے انصاف اٹھ جاتا ہے وہ معاشرے تباہ اور قومیں برباد ہوجاتی ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ہمارا یعنی پاکستانی قوم کا یہ حال ہو۔
اللہ کی شان ہے کہ ملک و قوم کا ڈیڑھ سو ارب روپیہ بغیر ڈکار لیے شیرِ مادر سمجھ کر پی جانے والے تو مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے خود ساختہ
این آر او کے تحت بہ یک جنبش قلم نہ صرف معاف کر دئیے جائیں بلکہ عزت مآب قرار دئیے جائیں بلکہ قوم کے بادشاہ قرار دئیے جائیں اور جو لوگ ملک و قوم سے تھوڑی سی بھی محبت کا دم بھریں انہیں تین پی سی او جج جن کی اپنی پوسٹنگ ہی مشکوک بلکہ غیر آئینی ہے وہ چھ کروڑ عوام کے انتخاب کو ایک سال مسلسل سماعت کی سولی پہ لٹکانے کے بعد ناہل قرار دے دیں۔ ہمیں شریف بردران سے بھی گلے شکوے ہیں مگر جس طریقے سے اور جیسے انہیں نااہل قرار دیا گیا ہے اس سے پاکستان کے موجودہ نطامِ کار سے گھن آتی ہے۔ پاکستان کو “بنانا اسٹیٹ” بنانے والوں کو ایک نہ ایک دن اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا۔ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی ذاہانت کی گئی توہین ہے کہ چند ایک لوگ پاکستان کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کا معاملہ صرف زرداری یا ملک پہ مسلط مشرف کی باقیات کا نہیں بلکہ یہ ہم سب کا معاملہ ہے۔ یہ اٹھارہ کروڑ عوام کا معاملہ ہے۔ عدلیہ آزاد ہوگی تو چوروں کو چور کی سزا اور نیکو کاروں کو نیکی کا اجر ملے گا۔ معاشرے میں نیک اور اچھے لوگوں کے ہاتھ مظبوط ہونگے۔ اہل لوگوں سامنے آئینگے اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ اہلیت کو اولیت ملے گی اور ترقی ناگزیر ہوجائے گی جس کے ثمرات بالآخر عام آدمی تک پہنچیں گے۔ راہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔
جاوید گوندل صاحب
میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں