دنیا میں ہر دور میں سب سے زیادہ انسانوں بشمول اللہ کے نبیوں پر ظُلم اور اُن کا قتلِ عام کرنے والوں کا قتل جو ہِٹلر کے زمانہ میں ہوا اُسے ہولو کاسٹ کا نام دیا گیا اور اس کی تفصیل میں مبالغہ آمیزی کی گئی ۔ ہولو کاسٹ تو کیا اس مبالغہ آمیزی پر بھی تنقید کرنا دُنیا کا سب سے بڑا جُرم قرار دیا جاتا ہے ۔
اس تنقید کو جُرم قرار دینے والے یہ کیوں بھُول جاتے ہیں کہ اسرائیلی فوجی اب تک ہزاروں کمسِن فلسطینی بچوں کو براہِ راست اپنی گولیوں کا نشانہ بنا چُکے ہیں اور لاکھوں بے قصور فلسطینیوں جن میں بچے عورتیں اور بوڑیھے بھی شامل تھے کا قتل کر چکے ہیں ۔ یہی نہیں اسرائیل کی پُشت پناہی کرنے والے کمپُوچیا ۔ ویت نام ۔ افریقہ ۔ عراق اور افغانستان میں لاکھوں در لاکھوں بے قصور جوانوں ۔ بوڑھوں ۔ عورتوں اور بچوں کا قتل کر چکے ہیں اور مزید کرتے جا رہے ہیں اور کسی کو آہ کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے ۔
اِن جنگلی بھیڑیوں کے کردار پر ذرا نظر ہو
وٹیکن نے بدھ کے روز ایک برطانوی بشپ کو حُکم دیا ہے کہ وہ یہودیوں کے قتل عام [ہولوکاسٹ] کے اپنے انکار کو واپس لینے کا برسرعام اعلان کریں ۔ وٹیکن کی جانب سے یہ قدم گذشتہ ماہ چرچ سے علیحدہ کیے گئے مذہبی رہنما کی چرچ میں واپسی پر پوپ بینیڈکٹ شش دہم کے خیر مقدم کے فیصلے پر ہونے والی چیخ و پکار پر اٹھایا گیا ہے ۔ ایک غیر دستخط شدہ بیان میں وٹیکن نے کہا ہے کہ سابق برطرف شدہ بشپ رچرڈ ولیم سن کو بطور مذہبی رہنما زندگی کا آغاز کرنے کی اس وقت تک اجازت نہیں دی جائے گی جب تک کہ وہ بالکل واضح طور پر اور برسرعام اپنے اس بیان کے غلط ہونے کا اعتراف نہیں کر لیتے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران کسی یہودی کو گیس چیمبر میں قتل نہیں کیا گیا ۔ وٹیکن نے کہا ہے کہ پوپ ذاتی طور پر اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ رچرڈ بار بار ہولوکاسٹ سے سرعام انکار کرتے رہے ہیں ۔
قبل ازیں وٹیکن نے ولیم سن کی بحالی پر تنقید کا دفاع کیا تھا حالانکہ روم میں چرچ کے اہلکاروں نے خود کو ولیم کے نظریات سے علیحدہ کر لیا تھا ۔ منگل کو وٹیکن کے سیکرٹری آف اسٹیٹ کارڈینل ٹارسیسو برٹن نے اعلان کیا تھا کہ معاملہ ختم ہو چکا ہے ۔ منگل کو جرمن چانسلر اینجیلا مرکل نے وٹیکن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یہ تاثر پیدا کر رہا ہے کہ ہولو کا سٹ کے انکار کو برداشت کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے چرچ پر زور دیا کہ وہ اپنی پوزیشن کی وضاحت کرے ۔ بدھ کو وٹیکن کی جانب سے نیا حُکم جاری کرنے کا متعدد یہودی گروپوں نے خیرمقدم کیا ہے
[نوٹ ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ خاص گیس چیمبرز بنا کر یہودیوں کو ہلاک کرنے کی کہانی من گھڑت ہے اور مرنے والے یہودیوں کی تعداد میں مبالغہ آمیزی کی گئی ہے ۔ میرے اس خیال کی بنیاد وہ استفسار ہے جو میں نے 1966ء اور 1967ء میں جرمنی میں اپنی رہائش کے دوران اُن جرمنوں سے کیے جو دوسری جنگِ عظیم میں حصہ لے چُکے تھے یا اُس وقت بالغ تھے ۔ دو جرمن انجیئروں جن میں سے ایک نے جنگ میں حصہ لیا تھا نے کہا “کاش ۔ ہِٹلر ایسا کرتا پھر دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی اور ہم لوگ بھی چین سے رہتے ۔ اب ہم یہودیوں کے غلام ہیں”۔]
اس میں بھی “مبالغہآمیزی” اور “منگھڑت کہانی” ہے۔
زکریا بیٹے
چلو ایسے ہی سہی ۔ بڑي اور دورِ حاضر کی طاقتور اور بڑی قوّتوں کے بڑے مبالغہ اور من گھڑت کے ساتھ ایک چھوٹے اور کمزور آدمی کا چھوٹا مبالغہ اور من گھڑت مل جائے گا تو کیا فرق پڑے گا ۔ ویسے بھی اس طاغوتی دنیا کا اصول ہے کہ جس کے پاس طاقت وہی سچا
مجھے زکریا بھائی کی بات سمجھ میں نہیں آئی،کیا یہی کہ امریکیوںنے ایسا کوئی قتلِ عام نہیں کیا؟ یا یہ اسرائیلیوں نے فلسطینیوں کو نہیں مارا؟
تو پھر اتنے فلسطینیوں کو کس نے مارا؟ حماس نے، یاسر عرفات نے یا عرب لیگ نے؟ ویت نامیوں، جاپانیوں، عراقیوں اور افغانوں کا قتل کس نے کیا اور اب بھی کر رہا ہے؟
بات کچھ پلے نہیں پڑی۔
فیصل صاحب
آج کی دنیا طاغوتی ہے ۔ جو جتنا مکّار ہو اُسے اتنا ہوشیار اور جو جتنا جھوٹا ہو اُسے اتنا سمجھدار کہا جاتا ہے ۔ اسرائیلی اہلکار کہتے ہیں
1 ۔ بچے اور شہری اس لئے مرتے ہیں کہ حماس والے خود کو بچانے کیلئے بچوں اور شہریوں کا اپنے اردگرد حصار بناتے ہیں
2 ۔ مسجدوں اور سکولوں پر اسلئے حملے کئے جاتے ہیں کہ وہ حماس والوں کی پناہ گاہیں ہیں
3 ۔ فلسطینی لوگ لاشیں زیادہ دکھانے کیلئے قبروں سے مردے نکال کر لے آتے ہیں
اللہ مسلمانوں کو چشمِ بصیرت اور عقلِ سلیم عطا فرمائے