کچھ قابلِ قدر قارئین نے پُرزور فرمائش کی کہ میں سوات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا پسِ منظر اور تاریخ بیان کروں ۔ ہرچند کہ میں تاریخ دان نہیں ہوں لیکن اپنے مُلک کے متعلق تھوڑا بہت علم حاصل کرنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے ۔
میرے خالق و مالک ۔ میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے اور میرا کام میرے لئے آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ۔ آمین
ہمارے نویں دسویں جماعت میں تاریخ کے اُستاذ سبغت اللہ قریشی کہا کرتے تھے “ہماری قوم کی تاریخ بڑی کمزور ہے”۔ جب ہم نے میٹرک پاس کر لیا اور سکول شاباشیں لینے گئے ہوئے تھے تو ایک ساتھی نے اُستاذ سے پوچھا “ہماری قوم کی تاریخ کیسے کمزور ہے ؟” اُستاذ مُسکرا کر بولے “جب میری عمر کو پہنچو گے تو معلوم ہو جائے گا”۔ درُست کہا تھا اُنہوں نے ۔ ہماری قوم کی اکثریت کو تاریخ تو کیا کل کی بات یاد نہیں رہتی
جب انگریز ہندوستان چھوڑنے پر راضی ہو گئے تو اُنہوں نے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے اندر داخلی طور پر خودمختار ریاستوں کا فیصلہ اُن کے حاکموں پر چھوڑ دیا کہ اپنے عوام کی رائے کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں ۔ چالبازی یہ کی گئی کہ پاکستان کو نہ دولت اور اثاثوں کا حصہ دیا گیا اور نہ اسلحہ کا ۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی سے مجوزہ پاکستان سے دور علاقوں میں تعینات کر دیا گیا تھا ۔ وہیں اُنہیں غیر مسلحہ کر کے گھروں کو جانے کا حُکم دیا گیا ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ پاکستان بنا تو نہ اس کے پاس حکومت چلانے کو کچھ تھا اور نہ اپنا دفاع کرنے کا سامان ۔ اس صورتِ حال سے مکمل فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے بھارت کے اندر یا بھارت سے ملحق تمام ریاستوں کو بھارت کے ساتھ الحاق کا حُکم دیا ۔ جن چار ریاستوں [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ منادور ۔ حیدآباد دکھن اور جموں کشمیر] نے لیت و لعل کیا اُن پر یکے بعد دیگرے فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ۔ اس کے بر عکس پاکستان کی حکومت نے پاکستان کے اندر ریاستوں کو داخلی خود مختاری دیئے رکھی جب تک کہ وہ ریاستیں خود ہی پاکستان میں ضم نہ ہوئیں ۔
چنانچہ ریاست سوات نے 1969ء میں پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا ۔ اُس وقت تک وہاں اسلامی نظامِ عدل رائج تھا ۔ یہ نظام ہندوستان پر انگریزوں کے صد سالہ دورِ حکومت کے دوران بھی رائج تھا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذکے بعد وہاں کا مروجہ نظام ختم کر کے انگریزوں کا بنایا ہوا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس کے کچھ سال بعد قتل کی سالانہ وارداتیں جو کبھی دہائی کے ہندسہ میں نہ پہنچی تھیں سینکڑے کے ہندسہ میں پہنچ گئیں ۔ قانونی چارہ جوئی جو پہلے 3 سے 6 ماہ میں فیصل ہو جاتی تھی وہ سالوں تک بغیر کسی نتیجہ کے جاری رہنا شروع ہو گئی ۔ سوات کے لوگ اس صورتِ حال سے پریشان ہو کر احتجاج کرتے رہے اور اُنہیں 1973ء کے آئین کی وہ شِقیں دکھا کر چُپ کرایا گیا جن کے تحت مُلک میں کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جا سکتا اور اسلام کے منافی موجود قوانین کو کلعدم قرار دیا جائے گا ۔ 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور اسلام کا نام لیا جانے لگا ۔ پھر افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف جنگ شروع ہو گئی جس سے وقتی طور پر سواتیوں کا مطالبہ دب گیا
افغانستان سے روسوں کے انخلاء کے بعد پھر سواتیوں کا زبانی احتجاج شروع ہوا اور بالآخر 1994ء میں جب ملک میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی مطالبہ زور پکڑ گیا جسے پولیس اور ریجرز کے ذریعہ فوجی کاروائی سے دبانے کی کوشش کی گئی تو تحریک نفاذ شریعت محمدی جس کے سربراہ صوفی محمد تھے نے ہتھیار اُٹھا لئے ۔ سوات ۔ شانگلہ ۔ دیر ۔ کوہستان اور مالاکنڈ کے دیگر علاقوں میں چوٹیوں پر مورچے قائم کرلئے اور ان علاقوں کو جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے ۔ 70 کے قریب سرکاری اہلکار جن میں پولیس کے افسران اور جج بھی شامل تھے یرغمال بنا لئے اور سیدو شریف کی ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیا ۔ اپنی دال گلتی نہ دیکھ کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلٰی آفتاب شیر پاؤ کی سربراہی میں ایک وفد کو صوفی محمد سے مذاکرات کا کہا ۔ صوفی محمد سے وعدہ کیا گیا کہ امن کی صورت میں اُن کے علاقہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جائے گی
تمام زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں میجر جنرل فضل غفور جو اُن دنوں فرنٹیئر کور کا انسپکٹرجنرل تھا کچھ سرکاری اہلکاروں اور صوفی محمد کو ساتھ لے کر روانہ ہوا ۔ ہیلی کاپٹر متذکرہ بالا اور دیگر علاقوں جہاں جہاں جنگجو موجود تھے باری باری اترتا رہا اور صوفی محمد اسلحہ برداروں کو سمجھاتا رہا کہ رینجر بھی مسلمان ہیں اور مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنا اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔ یہ ایک خطر ناک مُہِم تھی اور اس میں صوفی محمد کی اپنی جان کو بھی خطرہ تھا کیونکہ سارے اسلحہ بردار صوفی محمد کی تحریک سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ بہرحال صوفی محمد کی کوششوں سے ٹکراؤ ختم ہو گیا اور سب راستے کھول دیئے گئے اس وعدہ پر کہ علاقہ میں اسلامی شریعت کا قانون نافذ کیا جائے گا مگر حکومت نے مروجہ انگریزی قانون میں جج اور کورٹ کی بجائے قاضی اور قاضی کورٹ لکھ دیا اور اسی طرح کی اور لیپا پوتی [cosmetic changes] کر کے اُسے شریعت ریگولیشن کا نام دے دیا
پنجابی میں ایک محاورہ ہوا کرتا تھا “سیاسہ والا” یہ “سیاسہ” لفظ “سیاست” ہی ہے ۔ مطلب تھا۔ ہوشیار دھوکہ باز جو پکڑائی نہ دے ۔ یہ محاورہ ہمارےاکثر حُکمرانوں پر چُست بیٹھتا ہے جو قوم کو بار بار دھوکہ دینے کے باوجود عوامی رہنما کہلاتے ہیں
جب لوگوں کے عدالتی معاملات لٹکتے چلے گئے اور سالہا سال بغیر فیصلہ کے رہے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا ۔ صرف نام بدلے گئے تھے اور کچھ بھی نہ ہوا تھا ۔ اس پر پھر احتجاج شروع ہوا ۔ اُس وقت ملک میں مسلم لیگ کی حکومت تھی ۔ 1999ء تک بے اطمینانی تمام علاقہ میں پھیل گئی اور بدامنی کا احتمال ہوا تو مسلم لیگ کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے بنائے ہوئے شریعت ریگولیشن میں کچھ تبدیلیاں کر کے نافذ کر دیا ۔ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل تو کیا اُس نظامِ عدل کے بھی قریب نہ تھا جو 1973ء کے آئین سے قبل سوات میں رائج تھا
فطری طور پر کچھ عرصہ لوگ نئے شریعت ریگولیشن کے عملی پہلو کا جائزہ لیتے رہے ۔ 2001ء میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور سب کی توجہ اس بڑی آفت کی طرف ہو گئی ۔ 2002ء میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت آ گئی ۔ اُنہوں نے اسلامی شریعت کے حوالے سے تین سال میں حسبہ کے قانون کا مسؤدہ تیار کیا جو مرکزی حکومت نے نامنظور کر دیا تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کی اُمیدیں بے بنیاد تھی ۔
ان مذاق رات [مذاکرات] کے نتیجہ میں نافذ ہونے والے نام نہاد شریعت ریگولیشنز کی عملی صورت سے پریشان ہو کر تین سال قبل پھر احتجاج شروع ہوا ۔ کسی کے توجہ نہ کرنے کے نتیجہ میں سوات کے لوگوں نے تین ماہ بعد اپنی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ پھر خود ہی تاریخ مؤخر کرتے رہے ۔ آخر چھ ماہ بعد ایک قاضی مقرر کر دیا اور اپنے فیصلے خود کرنے کا عندیہ دیا ۔ دو سال قبل پچھلی حکومت نے امریکہ کے حُکم پر اُن کے خلاف فوجی کاروائی شروع کر دی ۔ موجودہ جمہوری حکومت نے امریکہ سے اپنی وفاداری جتانے کیلئے فوجی کاروائیوں میں شدت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں نہ صرف دونوں طرف کافی جانی نقصان ہوا بلکہ عوام بیچارے دونوں طرف کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں مرنے والے کم از کم 70 فیصد عام شہری ہیں جن میں بوڑھے جوان مرد عورتیں اور بچے شامل ہیں ۔ حکومت سوات کے لوگوں کو تحفظ مہیا نہ کر سکی نتیجہ یہ ہوا کہ سوات کے 80 فیصد علاقہ کے لوگ پاکستانی طالبان کے حمائتی ہو گئے ۔ ان حالات نے موجودہ حُکمرانوں کو امن کیلئے مذاکرات پر مجبور کر دیا
جس نظامِ عدل ریگولیشن پر اب اتفاق ہوا ہے سننے میں آیا ہے کہ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل نہیں بلکہ 1999ء کے ترمیم شُدہ شریعت ریگولیشن میں کچھ اور ترامیم کی جا رہی ہیں ۔ اللہ کرے کہ موجودہ حکومت اس سلسلہ میں نیک نیتی برتے اور درست اسلامی نظامِ عدل نافذ کرے ۔ ویسے حالات کچھ سازگار نہیں لگتے ۔ حالیہ معاہدہ جو کہ صدر کی منظوری سے ہوا پر صدر کا دستخط کرنے کے عمل کو متاءخر کرنے اور کچھ مرکزی وزراء کے بیانات سے شبہات جنم لے چکے ہیں اور پاکستانی طالبان نے ہتھیار پھنکنے اور لڑکیوں کے سکول کھولنے کیلئے پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے کی شرط عائد کر دی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے امن معاہدےکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پشاور میں پاکستانی طالبان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک کو دیر ضلع میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا ۔ تنبیہہ کے طور پر طالبان نے سوات میں نئے تعینات ہونے والے ڈی سی او خوشحال خان کو چھ ساتھیوں سمیت اغواء کر لیا تھا اور بعد میں رہا کر دیا
صوفی محمد مغربی طرز کے جمہوی نظام کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے ۔ [اس پر انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا] اس نظریہ اور متذکرہ خدشات کے باوجود وہ امن قائم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے تن من کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔ صوفی محمد لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں ۔ اگر پھر 1994ء کی طرح صوفی محمد کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تو نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔ نہ صرف موجودہ حُکرانوں کیلئے بلکہ مُلک کیلئے بھی ۔ یہ معاملہ صرف سوات کا نہیں ہے بلکہ پورے مالاکنڈ ۔ پورے دیر ۔ چترال ۔ شانگلہ ۔ بُنر اور کوہستان کا بھی ہے
عارضی امن کے نتیجہ میں سوات میں ایک عرصہ کے بعد کاروبارِ زندگی شروع ہو گیا ہے ۔ کل یعنی پیر 23 فروری سے سکول بھی کھُل گئے ہیں لیکن ہزاروں لوگ جو اپنے ہی مُلک میں مہاجر بن چکے ہیں وہ اس انتظار میں گھڑیاں گِن رہے ہیں کہ کب اسلامی نظامِ عدل نافذ ہو ۔ پائیدار امن معرضِ وجود میں آئے ۔ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں اور اُن کی کس مپُرسی ختم ہو
اس معاہدے جوکہ دراصل معاہدہ نہیں بلکہ باہمی اتفاق کی یاد داشت [Memorandum of understanding ] ہے کا خوشگوار اثر یہ بھی ہوا ہے کہ باجوڑ میں جنگجوؤں [طالبان] نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے ۔ مرکزی اور صوبائی تمام قبائلی علاقوں کے طالبان افغانستان کے مُلا عمر کو اپنا سُپریم کمانڈر کہتے ہیں ۔ مُلا عمر نے تمام طالبان کو کسی پاکستانی فوجی پر فائرنگ نہ کرنے کا کہا ہے
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پاکستان کو محفوظ رکھے ۔ پاکستانیوں بالخصوص حُکمرانوں کو مُلک و قوم کی بھلائی سوچنے اور اس کیلئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
باقی اِنْ شَاء اللہ کل
جناب بہت شکریہ کہ آپ نے اتنی معلوماتی تاریخ سے آگا ہ کیا، آپ کی یہ بات صد فیصد درست ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ سے سطحی آگاہی ہے۔ جو کہ کوئی اچھی بات نہیں۔
اس سے میں بالکل متفق ہوں کہ ۱۹۴۷ میں جب پاکستان نے ریاستی خودمختاری برقرار رکھی تھی، تو وہ کون سے عوامل تھے کہ ۱۹۶۹ میں والئی سوات کو اپنی ریاست پاکستان میں مدغم کرنا پڑی۔
دوسری چیز، کہ اگر حکومت پاکستان اس وقت ریاستی خودمختاری کی اتنی حامی تھی، تو آج کئی طرح سے ریاستی خودمختاری میں پس و پیش سے کیوں کام لے رہی ہے۔
ریسری چیز، اگر ابھی بھی یہ معائدہ کیا جا رہا ہے، تو کس کے ساتھ کیا جا رہا ہے، مطلب کیا ہم یہ مان لیں کہ پہلے والئی سوات کے ساتھ معائدہ ہوتا تھا، اب وہی معائدے نئے والئی مولوی فضل اللہ اور مولانا صوفی محمد ہیں۔
عمر احمد بنگش صاحب
سوات میں چند بارسوخ لوگ ہر چیز کے بادشاہ بن بیٹھے تھے جس کی وجہ سے ریاست کے عوام پریشان تھے ۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے عوام عوام کا اور انقلاب کا نعرہ لگایا تو عوات میں جوانوں نے سمجھا کہ نجات کا ذریعہ بغاوت ہے ۔ والئ سوات نے حالات بدلتے دیکھے تو ریاست پاکستان میں ضم کر دی ۔ دوسرے سوال کے جواب کیلئے پھلے میری کل آنے والی تحریر پڑھ لیجئے ۔ معاہدہ زبانی طور پر تو طالبان کے ساتھ ہوا ہے جو اس وقت وہاں ایک متبادل طاقت ہے لیکن جب قانون بن جائے گا تو معاہدہ وہاں کے عوام کے ساتھ ہو گا جس پر عمل کرنا حکومت اور عوام دونوں پر فرض ہو گا
ہمیں اس وقت ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو عوام سے نیا معاہدہ کرنا پڑے گا ورنہ حالات اس سے بھی بدتر ہونگے۔ ابھی تو ٹریلر چل رہا ہے۔ یہ فلم ابھی چلنی باقی ہے۔سوات کھڑا نہیںسوات چل رہا ہے بقول بی بی سی کے ایک کالم نگار کے۔ سو ان سواتوں کو روکنے کے لیے ہمیں بہت کچھ پھر سے سیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ انتہاپسندی، طالبانائزیشن، مارے گئے لُٹے گئے کے نعرے لگانے سے کچھ نہیںہوگا۔ ہمیں سنجیدگی سے ان مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ مملکت پاکستان خاکم بدہن رہتی نظر نہیں آتی۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » پہاڑوں پر لگی آگ
دوست صاحب
آپ کا بیان اس لحاظ سے درست ہے کہ پورے مُلک میں نہ تو کہیں آئین کی پاسداری نظر آتی ہے اور نہ قانون کی ۔ عوام کی اکثریت پستے پستے برداشت کی آخری حد کو پہنچ چکی ہے اور یہ آتش فشاں کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے ۔ جو کچھ سوات میں ہوا اس کو طالبانیت کہہ کر مطمئن ہو جانا حماقت سے کم نہیں ۔ اس سانحہ کی بنیاد ہر لحاظ سے پسی ہوئی عوام کا ردِ عمل ہے ۔ ورنہ طالبان جو صرف سینکڑوں کی تعداد میں ہیں حکومتی طاقت کے سامنے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے ۔ دوسرا عنصر غیر مُلکی شیطانی خواہشات اور پیشہ ور مجرمین پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی ہے ۔ حکومت کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیئے کہ جو کچھ بھی مُلک کا آئین اور قانون ہے اُس پر سختی سے پہلے اپنے اہلکاروں اور پھر عوام سے عمل کرائے ۔ دوسرے مرحلہ میں آئین اور قانون کی اس طرح سے درستگی کرے کہ یہ کسی شخص یا مخصوص گروہ کے تحفظ کی بجائے عوام کا تحفظ کریں
Pingback: ملاکنڈ حصّے میں شریعت
Pingback: فروری2009 کے بلاگ
آج کے حالات سن کر سرشرم سے جھک جاتا ھے۔ لوگوں کوحکومت پہ نہیں اپنے آپ پہ بھروسا کرنا سیکھنا ہوگا۔ تعلیم کے میدان میں آگے جانا ھو گا۔ ایمانداری سے ہرآدمی اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ اللہ سے دعا ہے میرے وطن کو اچھا حکمران دے۔۔۔۔۔۔ آمین
محمد عمران صاحب
اللہ آپ کی دعا جو میری بھی ہے قبول فرمائے
Pingback: فروری2009 کے بلاگ | منظرنامہ