ایک گروپ کے اصرار پر میں نے لیکچر دینے کی حامی بھر لی۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ہال میں تقریباً 125 پڑھے لکھے حضرات ملک بھر سے موجود ہیں۔ کوئی پچاس منٹ کی گفتگو اور اتنے ہی وقت پر محیط سوال و جواب کے سیشن کے بعد باہر نکلا تو ایک گورے چٹے رنگ والا خوبرو نوجوان عقیدت مندی کے انداز میں میرے ساتھ چلنے لگا۔ اس نے نہایت مہذب الفاظ میں اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ
“میرا تعلق وزیرستان سے ہے ۔ میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ میرے علاقے وزیرستان میں ہر شخص ایک انجانی موت کے خوف تلے زندگی گزار رہا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتا ہے کہ کسی لمحے بھی امریکی ڈرون کے میزائل یا طالبان یا دہشت گردوں یا پاکستانی فوج کی گولی اس کی زندگی کا چراغ بجھا دے گی۔ ہمارے ایک سروے کے مطابق وزیرستان کے 90 فیصد لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں، بے چارگی اور بے بسی نے ان سے زندہ رہنے کا احساس چھین لیا ہے، لوگ حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کیلئے رکا، اس نے نگاہیں جھکا لیں اور خوفزدگی کے عالم میں کہا سر! ہمارے لوگ اب پاکستان سے علیحدگی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ملک اور اس کی حکومت ہمیں احساس تحفظ نہیں دے سکتی اس ملک کے ساتھ رہنے کا کیا فائدہ؟”
اس کا یہ فقرہ سن کر مجھے ایک جھٹکا سا لگا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں امریکی ڈرون کے میزائل کا نشانہ بن گیا ہوں۔ میں چلتے چلتے رک گیا۔
ملک اور حکومت تحفظ کا احساس بھی دیتی اگر موت بانٹنے سے فرصت ملتی
اسلامُ علیکم
حکمرانوں کی آنکھیں کیسے کھُلیں گی، بقول شاعر۔۔۔
“ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے، انجامِ گُلستاں کیا ہوگا”۔
نا جانے ہم ایک پاکستان سے اور کتنے بنگلہ دیش بنائیں گے۔
فی امان اللہ
مرزا صاحب نے ایویں ای نہیں کہا کہ
کعبہ کس منہ سے جاو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
سیّدہ صبا صاحبہ اور ڈِفر و عبدالقدوس صاحبان
آدھی صدی سے زائد پہلے پیچھے سُنا تھا اور اب دیکھا
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
شائد وہ چراغ تھا ہی نہیں جسے ہم چراغ سمجھتے رہے ہیں۔ :sad: