پہلے تازہ خبر ۔ ابھی ابھی یعنی صبح 8 بج کر 49 منٹ اور 55 سیکنڈ پر اسلام آباد میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے
میں جب چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا [1949ء] تو انگریزی کے رسالے میں ایک بند پڑھا تھا جو میں کبھی نہ بھُول سکا ۔ اُس کا میں نے اُردو میں ترجمہ کر کے اپنے دوستوں سے داد و تحسین وصول کی ۔ کسی ساتھی نے ہمارے اُستاذ صاحب کو بتا دیا ۔ اُس زمانہ میں اگر اُستاذ صاحب ہمیں بلائیں تو جان ہی خانے سے جاتی تھی سو ہوا یہی کہ ایک بڑی جماعت کا لڑکا آیا اور کہا کہ فلاں اُستاذ صاحب بُلا رہے ہیں ۔ میرا حال ہوا کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔ ایک ایک من کا ایک ایک قدم اُٹھاتا پہنچا ۔ اُستاذ صاحب نے پوچھا “یہ تم نے لکھا ہے ؟” مجھے نہ کچھ نظر آ رہا تھا اور نہ کچھ سُنائی دے رہا تھا ۔ جب تیسری بار اُستاذ صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا” بیٹا ۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ تم نے لکھا ہے ؟ ” پھر جب اُنہوں خود ہی کہا “آخر ایسے جماعت میں اوّل نہیں آتے”۔ تو مجھے سمجھ میں آیا کہ استاذ صاحب کیا کہہ رہے تھے ۔ میں نے ہاں میں سر ہلایا تو کہنے لگے “شاباش ۔ یہ میں اپنے پاس رکھوں گا ”
جو جانے اور نہ جانے کہ جانے ہے ۔ سویا ہے ۔ جگا دو
جو نہ جانے اور جانے کہ نہ جانے ہے ۔ سادہ ہے ۔ تربیت دو
جو نہ جانے اور نہ جانے کہ نہ جانے ہے ۔ احمق ہے ۔ دُور رہو
جو جانے اور جانے کہ جانے ہے ۔ عقلمند ہے ۔ تقلید کرو
انگریزی کا بند یہ تھا
He, who knows and knows not he knows, is asleep. Awake him
He, who knows not and knows he knows not, is simple. Teach him
He, who knows not and knows not he knows not, is fool. Shun him
He, who knows and knows he knows, is wise. Follow him
کیا پرانے زمانے کے اٌستاذ ویسے ہوتے تھے کہ صرف بلانے پر ہاتھ پیر کانپ جائیں؟ :razz:
ماشا اللہ، اسکا مطلب ہے کہ آپ فطرتاً ذہین ہیں
جی شعیب صاحب۔اساتذہ تو ہمارے بھی ایسے ہی ہوتے تھے اور شائد سرکاری سکولوں میں ابھی تک ہوتے ہوں گے۔ اس زمانے میں ”چائلڈ فرینڈلی سکولز“ بھی تو نہیں ہوتے تھے نا اب یہ مت پوچھیے گا کہ یہ کونسے سکول ہوتے ہیں؟
شعیب صاحب
وہ اُستاذ بہت بارُعب مگر بہت مُشفق ہوا کرتے تھے ۔ عام طور پر اُستاذ کسی طالب علم کو اپنے دفتر میں نہیں بُلاتے تھے اسلئے اگر کسی کو وہ دفتر میں بُلائیں تو طالب علم یہی سوچتا تھا کہ کوئی گڑبڑ ہو گئی ہے
ڈِفر صاحب
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے
واہ، کیا ترجمہ کیا ہے، یہ انگریزی بند شاید میں نے سقراط کی سوانح عمری میں اس سے منسوب پڑھا ہے، اس کا ترجمہ آپ نے خوب کیا ہے۔ :razz:
اور اساتذہ کی مار اور رعب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجی نہ ہی چھیڑیں یہ داستان تو اچھا ہے، ابھی سے جوڑ جوڑ دکھنے لگا ہے۔
سب کو سلام
ماسٹر صاحب کے بلانے کا ذکر چل پڑا ھے تو یہ بھی سن لین گو بات ویسی نہین ھے جیسی آپ نے لکھی ھے
مین ساتوین جماعت مین ککرالی سکول ضلع گجرات مین داخل ھوا تو ایک دن ھیڈ ماسٹر صاحب نے بلایا مین چھوٹا سا تھا اور ابھی اردو ھی بولتا تھا ھندوستان سے آنے کے بعد
پوچھا “نماز آتی ھے؟” مین نے بڑے فخر سے جواب دیا “جی ھان”
کہنے لگے ” بھول جاوّ ”
اب مین پریشان کیا جواب دون۔ مجھے مخمصے مین دیکھ کر بولے
اگر نھین بھولنا ھے تو پڑھا کرو۔
عمر احمد بنگش صاحب
درست ہے لیکن ہمارے زمانہ کے اُستاد طلباء کے ساتھ پیار بھی بہت کرتے تھے ۔ چلیئے اپنے اساتذہ کے بارے بھی انشاء اللہ لکھوں گا
بھائی وھا ج الد ین ا حمد صاحب ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
بہت خُوب ۔ واقعی میرے اور آپ کے زمانہ کے اساتذہ طلباء کی تربیت ایسے انداز سے کرتے تھے کہ بات کبھی نہ بھُولے
السلام علیکم چاچا اجمل صاحب!
بند پڑھ کر بہت اچھا لگا اور اسی کو اپنی زبان میں ترجمہ کرنے کا سوچ رہاہوں۔
ترجمہ ہو چکنے کے بعد آپکو بھی دکھلاؤنگا۔انشاءاللہ۔
خیر اندیش۔
محترم افتخار اجمل صاحب
السلام علیکم ورحمۃاللہ و برکاتہ
انگریزی کوٹیشن کے آپ کےترجمے نےمجھے کسی مسلمان مفکر کی اس سے مختلف ،مگر اسلامی تمدن کی ترجمان سوچ یاد دلا دی:
”آں کس کہ بداند بداند کہ نداند و آں کس کہ نداند و بداند کہ بداند در جہل مرکب ماند۔۔۔۔‘‘
(وہ شخص کہ جو جانتا ہےوہ سمجھتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔اور وہ شخص جو کچھ نہیں جانتا مگراس کا زعم ہے کہ جانتا ہے، دراصل وہ جہل مرکب میں مبتلا ہے۔)
محبِ پاکستان صاحب
ترجمہ کا انتظار رہے گا
عبدالحادی احمد صاحب
یاد دہانی کا شکریہ ۔ الفاظ شیخ سعدی صاحب کے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ میں نے آڑھویں جماعت میں اُن کی کتاب میں پڑھے تھے
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » جنہوں نے مجھے انسان بنایا