مصری فوج کے ایک طبقہ پر 1967ء کی شکست نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔ انوارالسادات کے صدر بنتے ہی انہو ں نے اپنا صحراۓ سینائی
کا علاقہ اسرائیل سے واپس لینے کی تجاویز دینا شروع کر دیں ۔ اس وقت تک اسرائیل نے بلڈوزروں کی مدد سے نہر سویز کے کنارے کنارے 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنادی تھی ۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ ریت کا ڈھیرلگایا جاۓ تو ریت سِرک کر زمین کے ساتھ 40 درجے کے لگ بھگ زاویہ بناتی ہے ۔ اس طرح ریت کی 2 میٹراونچی دیوار کے لئے بنیاد یا قاعدہ ساڑھے پانچ میٹر چوڑا بنتا ہے جبکہ اوپر سے چوڑائی صفر ہو ۔ اگر 20 میٹر اونچی ریت کی دیوار بنائی جاۓ جس کی اوپر چوڑائی صرف 5 میٹر رکھی جائے تو زمین پر اس کی چوڑائی 60 میٹر یا 197 فٹ ہو گی ۔ اتنی چوڑی دیوار کو توڑنا ناممکن سمجھ کر ہی اسرائیل نے یہ دیوار بنائی ہو گی ۔
مصری فوج نمونے کے طور پر دریاۓ نیل کے کنارے ایک ریت کی دیوار بنا کر اسے توڑنے کی مشقیں کرنے لگی ۔ ان کو بہت مایوسی ہوئی کیونکہ ہر قسم کے بم اور میزائل ریت کی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہے ۔ ہوتا یوں تھا کہ میزائل ریت کے اندر پھٹتا مگر دیوار کو خاص نقصان نہ ہوتا ۔ ریت کو اگر کسی جگہ سے بھی ہٹائیں تو اس کے اوپر اور داہنے بائیں والی ریت اس کی جگہ لے لیتی ہے
مصری فوج کا ایک میجر جو کہ مکینکل انجنیئر تھا ریت کی دیوار گرانے کے ناکام تجربے دیکھتا رہا تھا ۔ ایک دن ڈویژن کمانڈر نے اس معاملہ پر غور کے لئے تمام آفیسرز کا اجلاس طلب کیا ۔ اس میجر نے تجویز دی کہ ریت کی دیوار آتشیں اسلحہ کی بجاۓ پانی سے گرائی جا سکتی ہے مگر کمانڈر جو کہ جرنیل تھا نے اس میجر کی حوصلہ افزائی نہ کی ۔ وہ میجر دُھن کا پکّا تھا اُس نے کہیں سے ایک پانی پھینکنے والا پمپ لے کر ایک کشتی پر نصب کیا اور ریت کی ایک چھوٹی سی دیوار بنا کر دریا نیل کا پانی اس پمپ سے نوزل [nozzle] کی مدد سے ریت کی دیوار پر ایک ہی جگہ پھینکتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں ریت کی دیوار میں شگاف بن گیا ۔ اُس نے اپنے کمانڈر کو بتایا مگر کمانڈر نے پھر بھی حوصلہ افزائی نہ کی
کچھ عرصہ بعد صدر انورالسادات اس علاقہ کے دورہ پر آیا تو اس میجر نے اس کے سامنے تجربہ کرنا چاہا مگر کمانڈر نے ٹال دیا ۔ بعد میں کسی طرح اس میجر کی انوارالسادات سے ملاقات ہو گئی اور میجر نے اس سے اپنے تجربہ کا ذکر کیا ۔ انوراسادات نے میجر سے کہا کہ خفیہ طور پر تجربہ کرتا رہے اور پھر حساب لگا کر بتاۓ کہ 20 میٹر اونچی دیوار میں شگاف ڈالنا ممکن بھی ہے یا نہیں ۔ میجر دلیر ہو گیا اور مصر میں موجود سب سے بڑا پمپ حاصل کر کے ریت کی بڑی دیوار بنا کر تجربہ کیا جو کامیاب رہا ۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سے بڑے پمپ چاہئیں تھے جو صرف خاص طور پر آرڈر دے کر یورپ کی کسی بڑی کمپنی سے بنواۓ جا سکتے تھے اور راز فاش ہونے کا خطرہ بھی تھا ۔ بہر کیف کسی طرح بہت بڑے پمپ بنوا کر درآمد کر لئے گئے ۔ پھر مضبوط کشتیاں بنائی گئیں 6 کشتیوں پر چھ چھ پمپ نصب کر کے مناسب وقت کا انتظار کیا جانے لگا
ماہ رمضان 1973ء میں یہ کاروائی کی گئی کہ ایک رات گولوں کی برمار کے دوران یہ کشتیاں نہر سویز میں اتار دی گئیں اور 20 میٹر اونچی دیوار کے تین مقامات کا رُخ کر کے تین کشتیوں کے پمپ چلا دیئے گئے ۔ چھ کشتیوں کے پمپ باری باری چلاۓ گئے اور چند گھنٹوں میں بیس میٹر اونچی دیوار میں تین جگہوں پر کافی چوڑے شگاف بن گئے ۔ پھر فوراً پُل بنا کر مصری فوج ہلکے ٹینکوں سمیت صحراۓ سینائی میں داخل ہو گئی اور ریت کی دیوار کے دوسری طرف موجود ساری اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ تو جناب یہ تھا پانی کا کمال اور مکینیکل انجنیئرنگ کے علم کمال ۔
لو جی یہ بات تو میں بنا مکینکل انجئینر ہوئے جانتا ہوں
وہ عبدلقدوس بھیا، بس آپ جیسے دو چار اور چاہیئں
اگر ایسے مکینکل انجینئر ہوتے ہیں تو پھر مجھے بھی اعزازی سند ملنا چاہئے
عبدالقدوس صاحب
صرف اتنا جاننا مکینیکل انجنیئرنگ نہیں ہوتا ۔ آپ نے بات سمجھے کی کوشش نہیں کی ۔ فوجی جرنیل بمقابلہ میجر مکینیکل انجیئر ۔ بات ذہن کی ہے
آپکے کہنے کا مطلب ہے کہ فوجی بمقابلہ دماغ؟
ڈِفر صاحب
بد دماغ کا دماغ سے مقابلہ
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ
Pingback: میری دنیا