راشٹریہ سوامی سیوک سَنگھ خالص ہندو مشروب [گائے کا پیشاب] بھارت میں متعارف کرانے کی عملی طور پر تیاری کر رہی ہے ۔ اس مشروب کو پائدار بنانے کیلئے تجربات شروع ہو چکے ہیں جو اگلے دو تین ماہ تک جاری رہنے کی توقع ہے ۔
[سیوک سَنگھ۔ مہاسبھا اور اکالی دل وہ جماعتیں ہیں جن کے تربیت یافتہ جتھوں نے ہندو فوجیوں کی پُشت پناہی سے 1947ء میں جموں ۔ مشرقی پنجاب اور گرد و نواح میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا]
گائے کے پیشاب کو ہندو بہت متبرک جانتے ہیں اور ہندوؤں کے تہواروں پر اکثر ہندو اپنے پاپ [گناہ] جھاڑنے کیلئتے گائے کا پیشاب پیتے ہیں ۔ ہندوؤں کا دعوٰی ہے کہ گائے کے پیشاب میں 70 کے لگ بھگ بیماریوں کا علاج موجود ہے اور اس سے پوری دنیا کے لوگ استفادہ حاصل کر سکیں گے ۔ اسلئے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ گائے کے پیشاب سے بھری بوتلوں کی ترسیل دنیا کے تمام ممالک کو کی جائے گی ۔
عام رواج ہے کہ بچہ پیدا ہونے پر گٹی یا گڑتی دی جاتی ہے یعنی بچے کے منہ میں پہلی کوئی چیز ڈالنا جو عام طور پر قدرتی شہد کا ایک قطرہ یا مصفّا پانی کی ایک چھوٹی چمچی ہوتا ہے اور کوئی نیک خاتون یا ماں کے علاوہ بچے سے بہت زیادہ نزدیک خاتون دیتی ہیں ۔
ہم نے بچپن میں سُنا تھا کہ جب کسی ہندو کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو اُسے گٹی یا گڑتی کے طور پر گائے کے پیشاب کی ایک چمچی پلائی جاتی ہے ۔ لیکن میرا چشم دید واقع یہ ہے کہ 1947ء کے شروع میں میں بازار میں جا رہا تھا کہ ایک گائے نے پیشاب کیا اور قریب سے گزرتے ہوئے ایک پینتیس چالیس سالہ ہندو کا آدھا پاجامہ گائے کے پیشاب سے بھیگ گیا ۔ میں نے ناک منہ چڑھایا لیکن ہندو شخص بخوشی ‘پاپ جھڑ گئے” کہتا ہوا چلا گیا ۔
اسکی یہاں مارکیٹ نکل آنی ہے۔ میں نے جیک ایس دو اعشاریہ پانچ دیکھی تھی اور اس میں کافی ڈسکسٹنگ چیزیں تھی
خدا کی پناہ!۔
گائیں تو ہمارے ہاں بھی کافی ہیں، اسکا مطلب ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹس بھی بڑھنے والی ہیں
میں نے یہ خبر http://ca.news.yahoo.com/s/reuters/090212/odds/odd_us_urine_drink_odd یہاں پڑھی۔
ان کا نام “راشٹِریَہ سُووَیَم سِیوَک سَنگھ” یعنی “قومی خود خدمت گار مجلس” ہے اور یہ وہ ملک مخالف طاقتیں ہیں جو بے لگامی کی حدود پار کرچکی ہیں۔
مجھے ان کے مشروب پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن یہ بعید نہیں کہ اب یہ اور لوگوں کو کلچر کے نام پر یہ اسکولوں میں مفت بانٹنے اور پھر ہر کسی کے اسے پینے پر زور دینے لگیں۔ اور نہ پینے والے کی پٹائی کریں یا نہ بیچنے والے کی دکان جلائیں۔ اور دوسری سیاسی جماعتیں بغلیں جھانکیں اور کہیں یہی عوام کی مرضی ہے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اور پھر ایک فتوی نکلے کہ دوسروں مذاہب کا احترام ہر مسلمان پر فرض ہے اور رواداری کی خاطر ہم نے اسے اپنی دکانوں پر ضرور فروخت کرنا چاہئے۔
چلو جی ایک اس کی کمی تھی۔ اب پاکستان کو جلدی سے ہندوستان سے تعلقات درست کرنے چاہیے تاکہ میںبھی اپنی گائے سے کچھ منافع کما سکوں اور نہیں تو چارے کا خرچہ تو نکل ہی آئیگا۔ :grin:
باتمیز صاحب
اگر آپ امریکا کی بات کر رہے ہیں تو وہاں اسکی بڑی فروخت کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ امریکی بہت توہم پرست ہیں
عمر احمد بنگش و ساجد اقبال صاحباں
ہندوستان کے ایک وزیراعظم مرارجی ڈیسائی ہو گذرے ہیں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ روزانہ اپنے پیشاب کا ایک گلاس پیتے تھے ۔
آپ دونوں مل کر اپنی گائیوں کے پشاب کا کاروبار شروع کر سکتے ہیں لیکن ابھی اس کا اظہار نہ کیجئے گا ورنہ مسلم دشمنی میں ہندو اپنا ارادہ ترک کر دیں گے
ڈِفر صاحب
کسی کو سوچنا چاہیئے ۔ گائے پالنے والوں کا بھلا ہو گا
اردودان صاحب
اللہ ایسے مسلمانوں پر رحم کرے اور انہیں سیدھی راہ دکھائے
ویسے بڑا مسئلہ ہو جائے گا روشن خیالوں کے لئے
پہلے ہی انھیں مولویوں سے چڑ ہے کہ وہ بسنت اور دیوالی جیسے ہندوستان کے قدیم ثقافتی کلچر کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اب اس ہندی ثقافت کے نادر نمونے کو اپنانے میں بھی روشن خیالوں کو تکلیف دینا شروع کر دیں گے۔
سیفی صاحب
بڑی دور کی سوچی آپ نے
ڈیسائی صاحب کی خوب کہی۔ لگتا ہے انکے استاد نے کہا تو ”گائے“ ہو گا جسکو و”ڈیسائی“ سمجھے
ہا ہا ہا۔ میری بیگم جے ساتھ کچھ ہندستانی خواتین کام کرتی ہیں، ایک روز انکا ایک آسٹریلین کولیگ کہنے لگا کہ آپ لوگ گائے کا پیشاب پیتے ہیں، وہ خواتین فورا مکر گئیں مگر وہ صاحب بھی دھن کے پکے تھے، کہنے لگے میںنے خود دیکھا ہے۔ ان لوگوں کو بیحد شرمندگی ہوئی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہمارے مذہب میںکوئی ایسی بات نہیں ورنہ ہمیں بھی سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ یا تو مذہب سے ہاتھ دھونا پڑتے اور یا شرمندگی جھیلنا پڑتی۔
دوست صاحب
آپ بالکل پریشان نہ ہوں ۔ ابھی آپ وہ بہت سے عوامل نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں لیکن لیکھنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ ہندو اور یہود کی اکثریت ایک جیسے ہیں عمل کے لحاظ سے
فیصل صاحب
نہ ماننا الگ بات ہے ۔ میں دس سال کا تھا جب پاکستان بنا ۔ میں کچھ عوامل کا شاہد ہوں
آپ بالکل پریشان نہ ہوں ۔ ابھی آپ وہ بہت سے عوامل نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں لیکن لیکھنا مناسب نہیں سمجھتا
ف
یہ تو غلط بات ہے۔ اسی طرح تو علم دنیا سے اٹھتا جا رہا ہے کہ لوگ کسی وجہ سے بیان نہیں کرتے۔ اور یہی میں نے کہا تھا کہ لوگ بہت سے حقائق کو احمقانہ کہہ کر جھٹلا دیتے ہیں۔ اور مثال ہند کی دی تھی کیا میری بات سچ نہیں کہ حقیقت احمقانہ بھی ہو سکتی ہے؟
یعنی اگلی بقرعید پر کھالوں کے ساتھ ساتھ گائے کا پیشاب بھی جمع ہونا شروع ہوجائے گا۔۔ پڑوسی ملک میں مارکیٹجو نکل آئی پندرہ منٹ کی شہرت کے لیے کیسے کیسے آئیڈیاز نکالتے ہیں لوگ۔
شی شی شی لاحول ولاقوہ الا باللہ
پیشاب کی کمائ آپ بھی کیسے لالچی ھو جی :grin:
باتمیز صاحب
جن عوامل کا میں نے حوالہ دیا ہے اُن سے علم میں اضافہ نہیں بلکہ دماغ میں فتور پیدا ہو گا ۔ اسلئے وہ میرے بلاگ کی زینت نہیں بن سکتے ۔
جن عوامل کا میں نے حوالہ دیا ہے اُن سے علم میں اضافہ نہیں بلکہ دماغ میں فتور پیدا ہو گا ۔ اسلئے وہ میرے بلاگ کی زینت نہیں بن سکتے ۔
آج بہت سی باتیں ایسی ہیں جو دین میں ہیں مگر دماغ میں فتور کے خیال سے بیان نہیں کی گئیں اور ہر نسل پہلے سی زیادہ دین سے دور ہے اور وجہ صرف اتنی کہ کسی نے اس کو بیان کرنے کی زحمت اسی ڈر سے نہیں کی۔ کیونکہ لوگوں کو اپنی ہنسی کا ڈر تھا۔
باتمیز صاحب
جناب میرے علم میں دین اسلام کی کوئی ایسی بات نہیں جسے بیان کرنے میں شرم غالب آ جائے یا اپنا تمسخر اُڑنے کا اندیشہ ہو ۔ میرے علم میں اضافہ کیلئے ازراہ کرم آپ کوئی ایک عمل لکھ دیجئے جسے آپ ایسا سمجھتے ہیں
جن عوامل کا میں نے حوالہ دیا ہے اُن کا تعلق ہندو مت سے ہے اور میرا دین مجھے تعلیم دیتا ہے کہ کسی دوسرے دین کے غلط عوامل کی اشتہار بازی نہ کرو ۔ میں نے جو مشروب کا لکھا ہے وہ خبر سیاسی ہے اور درجن بھر بین الاقوامی اخبارات میں چھپی تھی پھر بھی میں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے حوالہ ایسے اخبار کا دیا جو ہندوؤں کا اخبار ہے
توبہ استغفار
کیا غلاظت ہے یہ۔۔۔۔۔ یہ لوگ انسان ہیں؟ مجھے تو ہندؤں کی رسموں سے شدید الجھن ہوتی ہے، اور اب یہ تو حد ہے۔ کامن سینس بھی کوئ چیز ہوتی ہے مگر اندھا عقیدہ کامن سینس تو کیا ہر سینس پر غالب آکر انسان کو نان سینس بنا دیتا ہے۔
تُف ہے ایسے لوگوں پر۔
سیّدہ صبا صاحبہ
کچھ نہ پوچھئے ۔ بس اللہ بچائے ہیں
استغفار۔۔۔
اور ہم ہیں کے ایسی غلیظ قوم سے دوستی بڑھا رہے ہیں