قدیم زمانہ کی ایک کہانی ہے کہ ایک مصوّر نے اپنی بنائی ہوئی بہترین تصوریر چوراہے پر یہ لکھ کر رکھ دی کہ اس میں غلطی بتائیں ۔ چند دن بعداُسے دیکھ کر جھٹکا لگا کہ تصوریر بے شمار لکیروں میں گم ہو گئی ہے ۔ پھر اُس نے ایک عام سی تصویر بنا کر ان الفاظ کے ساتھ رکھ دی کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اسے درُست کر دیں ۔ ایک ہفتہ بعد مصوّر آیا تو تصویر پر ایک نشان بھی نہ لگایا گیا تھا
یہ کہانی ہماری قوم پر صادق آتی ہے ۔ جسے دیکھو وہ دوسرے کی غلطیاں گِن رہا ہے مگر اپنی غلطی کی درُستگی کرنا نہیں چاہتا ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی ہر اُس آدمی یا جماعت یا گروہ کی کردہ اور ناکردہ غلطیاں گِنتے رہتے ہیں جن سے اُن کو ذاتی فائدہ نہ پہنچا ہو یا اُن کے غلط یا درست رویّے سے ان کو نقصان کا خدشہ ہو ۔ ایک عمل جو ہمارے ذرائع ابلاغ کو ہر وقت اور ہر دور میں خطرے کی جھنڈی لہراتا نظر آتا ہے وہ ہے دین اسلام اور اس پر عمل کی کوشش ۔ اخباروں میں ایسے اداریئے کئی بار شائع ہو چکے ہیں ۔ ہمارے اخبارات میں دین سے بیزار لوگوں کے مقالے اور دیگر مُخرب الاخلاق مضامین اور اشتہارات بڑے کرّوفر کے ساتھ چھاپے جاتے ہیں اور وقفے وقفے کے ساتھ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا بلکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسے لادین ریاست بنایا تھا ۔ گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قائد اعظم خدانخواستہ قوم کو دھوکہ دیتے رہے ۔
دسمبر 2008ء میں ایک سب سے زیادہ اشاعت کے دعویدار اخبار میں اداریہ شائع ہوا کہ جماعت الدعوہ نادار لوگوں کی فلاح و بہبود کر رہی تھی اور اس پر پابندی سے بہت سے سکول اور مُفت علاج کے مراکز بند ہو جائیں گے ۔ سب حقائق لکھنے کے بعد آخر میں ایک فقرہ چُست کر دیا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن جماعت الدعوہ مستفید ہونے والوں کو اپنا ہم خیال بنا لے گی اور انتہاء پسندی کو فروغ حاصل ہو گا ۔ کوئی اس اخبار کے مالکوں اور مدیروں سے پوچھے کہ تم لوگ جو کروڑوں روپیہ بااثر اور مالدار لوگوں کی چاپلوسیاں کر کے اور فُحش اشتہارات چھاپ کر کما رہے ہو اس کا کچھ حصہ فلاحی کاموں پر لگا کر کیوں عوام کو اپنا ہم خیال نہیں بناتے ؟
تحریک پاکستان کی کامیابی کا سبب صرف مُخلص اور محنتی رہنما ہی نہیں تھے ۔ ان کے ساتھ مُخلص اور محنتی کارکُن اور چھوٹے چھوٹے دو تین اخبار تھے جو منافع کمانے کی بجائے اپنی محنت سے اخبار میں مسلم لیگ کی کارکردگی لکھ کر مسلمانانِ ہند تک پہنچاتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد سے ہمارے ذرائع ابلاغ نے جتنا ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے میں کردارادا کیا ہے اتنا کسی حکمران حتٰی کہ ڈِکٹیٹر نے بھی نہیں کیا ہو گا
جب پاکستان میں پہلی بار 1964ء میں لاہور میں ٹی وی کا اجراء ہوا تو لاہور کے ایک مشہور امام مسجد نے کہا تھا “شیطانی چرخہ آ گیا ۔ اُس کی عقل پر قہقہے لگائے گئے اور اُسے لعن طعن کیا گیا ۔ مجھے بھی یہ استدلال عجیب سا لگا تھا لیکن 44 سال بعد آج اگر ٹی وی کے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص دانا اور دُور اندیش تھا ۔ آجکل ٹی پر ایسے ایسے لچر قسم کے اشتہارات دِکھائے جا رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ماڈرن کہنے والے بھی تلملا اُٹھے ہیں ۔
ہماری قوم میں تین بڑی عِلتیں ہیں ۔ خودغرضی ۔ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پر تنقید اور بے راہروی جو اخبارات ۔ ٹی وی چینلز ۔ موبائل فون اور سرکاری سرپرستی میں پرورش پا رہی ہیں اور قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حل صرف درست تعلیم و تربیت میں مُضمِر ہے لیکن شومئی قسمت کہ تربیتی نظام ہمارے ملک میں مفقود ہے ۔ رہی تعلیم تو اس سے حکمرانوں نے شاید قطع تعلق کیا ہوا ہے ۔ 35 سالوں سے تعلیم اُن لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جنہوں نے عُمدہ تعلیم کے نام پر مہنگے تعلیمی ادارے کھول کر اس مُلک کی دینی اور سماجی اقدار کو برسرِ عام پامال کرنا اپنا شیوا بنا رکھا ہے
تربیت کا گہوارہ ماں کی گود ہوتی ہے اس کے بعد گھر کا ماحول اگر ایک ماں آزادی اور فلاح کے نام پر مجالس میں تو حاضری دے اور تقریریں کرے مگر گھر میں اپنے ملازمین کے ساتھ ظُلم کرے ۔ لوگوں کو نصائع کرتی پھرے اور اپنے بچے کی مناسب تربیت کیلئے وقت نہ نکالے تو بچے کا بگڑنا ایک عام سی بات ہے ۔
اسی طرح جس بچے کا باپ دیر سے گھر لوٹے ۔ شراب یا سگریٹ پیئے اور اپنے بچے کو کہے کہ بیٹا سکول سے سیدھا گھر آ جانا سگریٹ پینا بُری بات ہے ۔ کیا اُس بچے سے باپ کی بات کو اہمیت دینے کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ بچہ کتنا ہی اکھڑ مزاج کیوں نہ ہو اگر اُسے مناسب ماحول دیا جائے اُس کی طرف خلوصِ نیت سے توجہ دی جائے تو وہ درُست سمت میں چل سکتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدین کا غلط رویّہ ہی ان کے بچے کو اکھڑ بناتا ہے ۔ کوئی بچہ پیدائشی اکھڑ نہیں ہوتا
تربیت کا دوسرا اہم مرکز تعلیمی ادارے ہوتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کا ہمارے مُلک میں جو حال ہے کسی سے پنہاں نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی زبوں حالی ہے ۔ بجٹ کا سب سے کم حصہ تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے ۔ کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں ضرورت کے مطابق لائبریری نہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں اور اس پر طُرّہ یہ کہ اُن کی عزت محفوظ نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ جسے کوئی بہتر ملازمت نہیں ملتی وہ تعلیم اداروں کا رُخ کرتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اساتذہ کی عزت اور احترام طُلباء و طالبات اور بالخصوص اُن کے والدین کے دِل سے محو ہو چکا ہے ۔
تربیت کا تیسرا ادارہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا ماحول ہوتا ہے ۔ بچہ خواہ کتنے ہی محتاط اور اچھی تربیت والے گھرانے کا ہو جب وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے سے بہتر پہنتے بہتر کھاتے اور بغیر محنت کے کامیاب ہوتے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں بھی اُن سا ہو جانے کی تمنائیں اُبھرتی ہیں جو موقع ملنے پر اُسے اُسی لاقانونیت کی دنیا میں لیجاتی ہیں جہاں وہ لوگ ہوتے ہیں
اگر ہمیں اپنی زندگی پیاری ہے اور اپنی حمیت کی قدر ہے تو ہمیں من حیث القوم وقتی مفاد سے نکل کر اپنی پوری زندگی کیلئے سوچنا ہو گا ۔ ہمارے آج نے تو جو بننا تھا بن چکا اسے تو تبدیل کرنا ناممکن ہے ۔ اگر آج کے وقتی مفاد کو بھُول کر دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو ہمارا مستقبل درست ہو سکتا ہے
ایک اور سدِ راہ ہے کہ بہت سے ہموطن اس سوچ میں مُبتلا نظر آتے ہیں “میں اکیلا کیا کروں ؟ سارا معاشرہ ہی خراب ہے”۔ جب تک ہر فرد اپنی سوچ کو بدل کر یہ ارادہ نہیں کرے گا کہ “یہ میرا کام ہے اور مجھے ہی کرنا ہے ۔ کوئی اور نہیں کرتا تو میری بلا سے مجھے اپنا فرض پورا کرنا ہے”۔ معاشرہ میں بہتری کی کوئی صورت نہیں بن سکتی ۔ اللہ بھی اُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔
سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ نے فرمایا ہے
سُورت ۔ 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیات 109 تا 111
اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں [کی رہنمائی] کیلئے ظاہر کی گئی ہے ۔ تم بھلائی کا حُکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً اُن کے لئے بہتر ہوتا ۔ اُن میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں
یہ لوگ ستانے کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کریں تو تمہارے سامنے پیٹھ پھیر جائیں گے ۔ پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گے
سُورت ۔ 3 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت 2 کا آخری حصہ
اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے
سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔ 177
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور [اﷲ کی] کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں [اپنا] مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور [غلاموں کی] گردنوں [کو آزاد کرانے] میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی میں اور مصیبت میں اور جنگ کی شدّت [جہاد] کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔44
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم [اللہ کی] کتاب [بھی] پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 58
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 135
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچ دار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے