کیا حد نگاہ تک پھیلی پیپلزپارٹی کے پاس کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ قومی سلامتی جیسا حساس ترین شعبہ امریکی مفادات سے وابستہ کسی شخص کے سپرد کردیا جاتا؟ کیا یہ اور بعض دوسری تقرریاں این آر او [NRO] کا حصہ تھیں؟ کیا مشرف سے دست کش ہونے سے پہلے امریکہ نے پاکستانی بساط کے ہر خانے میں اپنے مُہرے بٹھانے کی شرط منوا لی تھی؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایک مہرہ پِٹ جانے کے بعد یہ باور کرلیا جائے کہ امریکہ کو شہ مات ہوگئی ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مشرف کو اپنی آمرانہ حکمرانی کے لئے امریکی آشیرباد کی ضرورت تھی ۔ اس کے ہر اقدام کی ناک میں امریکی مفادات کی نکیل پڑی تھی ۔ آٹھ برس کے دوران اس نے پاکستان کو بڑے پیٹ والے مویشیوں کی کھرلی بنادیا ۔ 18 فروری کو عوام ایک نئے عزم کے ساتھ نئے انداز سے اُٹھے اور جانا کہ مشرف کو حواریوں سمیت نابود کرکے وہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے پاکستان کا تشخص بحال کردیں گے لیکن ایسا نہ ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پارلیمینٹ کی بالادستی ایک بے ذوق نعرے تک محدود ہوکے رہ گئی ہے، کابینہ محض باراتیوں کا جتھہ ہے اور شدید بیرونی دباؤ کے ان دنوں میں امریکہ دندنا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
امریکہ نے اپنے پاکستانی پٹھوؤں کے ذریعے چین کو روکا کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کو وِیٹو [Veto] نہ کرے۔ امریکہ نے ہی اپنے پٹھوؤں کے ذریعے اجمل قصاب کی پاکستانیت کا اقراری بیان جاری کرایا اور جان لیجئے کہ محمود علی درانی کے بعد بھی پاکستانی بساط پر جابجا امریکی مُہرے پوری تمکنت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور پاکستانی مفادات کا سینہ چھلنی کرنے کے لئے ابھی ان کے ترکش میں بہت تیر باقی ہیں
یہ ہیں جھلکیاں عرفان صدیقی کے مضمون “پاکستانی بساط کے امریکی مُہرے” کی
ہمارا یہ قومی المیہ ہے کہ جب بھی کوئی اہم شخصیت فوت یا ریٹائرڈ ہوجاتی ہے تو ہمیں اسکی خوبیاں یا خامیاں یاد اجاتی ہیں۔جسے دیکھو وہ درانی کی دُ م اُٹھاکے قوم کو دیکھا رہا ہے۔جب یہ شخص اتنا ہی زہریلہ تھا تو ان دانشوروں اور کالم نگار حضرات کو پہلے کیوں یاد نہ آیا۔پہلے سے ہی قوم کو انکے کرتوتوں کے بارے میں کیوں نہیں بتایا گیا؟ درانی کے بعد باقی ماندہ امریکی مہروں کی کون نشاندہی کرے گا؟ یا پھر اُنکے لیے بھی کچھ انتظار کرنا پڑےگا، جب وہ ریٹائر ہوجائیں،سبکدوش کئے جائیں اور یاجب وہ موت کی آغوش میں چلے جائیں۔۔۔۔
بانیسائی بنوں صاحب
آپ کا خیال درُست ہے ۔ واویلا اُس وقت مچانا چاہیئے جب متعلقہ شخص کرسی پر بیٹھا ہو ۔ کرسی سے ہٹائے جانے کے بعد شور کرنے کا کیا فائدہ ؟
اس شخص کا نام پہلی بار اگست 1988ء میں اخباروں میں آیا تھا کہ جس سی 130 جہاز کے گرنے سے جنرل ضیاء الحق کے علاوہ کئی چوٹی کے جرنیل اور دوسرے اہم لوگ ہلاک ہو گئے تھے اُس حادثے کا ایک ذمہ دار یہ شخص بھی تھا ۔ میں نے اس شخص کے براہِ راست ماتحت اگست 1992ء سے اگست 1994ء تک کام کیا تھا ۔ یہ شخص انتہائی چالاک اور خود غرض تھا اور کام کے لحاظ سے نالائق ۔
وہ سب لوگ جو اب آ آ کر میڈیا پر اعتراف کر رہے ہیں درا صل سب ہی قوم کے دشمن ہیں- کیوں کے قوم کے لیے گیے فیصلوں میں مصلحت کوی نہیں ہوتی- ایک غلط فیصلہ قوم کو صدیوں پیھچے دھکیل دتیا ہے-
ایک بل پا س ہونا چاہیے گورنمیٹ کے ہر وزیر اور اعلی عہدہ داروں کو اپنی مدت کے بعد پانچ سال تک باہرجانے کی اجازت نہ ہو-
عوام صاحب
اچھی تجویز ہے لیکن کرے گا کون ؟