یہ صد سالہ غلامی کا اثر ہے یا ہماری دین سے بیگانگی کہ ہموطنوں کی اکثریت میں ملک کے آئین و قوانین کی پاسداری کا فُقدان ہے ۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ آئین و قانون کی مُخالفت پر فخر کیا جاتا ہے تو درست ہو گا ۔ میں دنیا کے کوئی درجن بھر ممالک میں گیا بلکہ رہا ہوں جن میں امریکہ ۔ برطانیہ ۔ افریقہ ۔ جزیرہ نما عرب اور یورپ کے متعدد ممالک شامل ہیں مگر یہ صفت وطنِ عزیز کے علاوہ کسی اور ملک میں نہیں دیکھی ۔ کمال تو یہ ہے کہ وہ ہموطن جواپنے عمل سے وطنِ عزیز میں آئین و قانون کی کھُلی مخالفت کرتے ہیں دساور کے ان ممالک میں وہاں کے آئین و قانون کی پاسداری کی پوری کوشش کرتے ہیں
ہموطنوں میں اس رویّہ کی بڑی وجہ حُکمرانوں کے آئین اور قانون کے ماوراء اقدامات اور آئین و قانون کی کھُلے عام خلاف ورزی ہے ۔ حُکمرانوں یعنی صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔ گورنروں ۔ وُزرائے اعلٰی ۔ چیئرمین سینٹ ۔ اسمبلیوں کے سپیکر ۔ وفاقی اور صوبائی وزراء ۔ سنیٹروں اور اسمبلیوں کے ارکان پر صرف آئینی و قانونی ہی نہیں اخلاقی پابندیاں بھی ہوتی ہیں ۔ اُنہیں ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف قومی اور عوامی مفاد میں کام کرنا ہوتا ہے اور عوام کے سامنے اپنے کردار کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے ۔ اپنے دفاتر اور رہائش گاہوں کے اندر بھی وہ ان قوانین اور اقدار کے پابند ہوتے ہیں ۔
سنیٹر اور ارکان اسمبلی تو سیاسی ہوتے ہیں اور اپنی اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں مگر اُن پر آئین کے مطابق دوسری جماعتوں کی آئینی و قانونی رائے کا احترام واجب ہوتا ہے ۔ صدر ۔ وزیرِ اعظم ۔چیئرمین سینٹ اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو سیاسی جماعتوں کے نمائندے ہی منتخب کرتے ہیں لیکن منتخب ہونے کے بعد یہ پورے مُلک کیلئے ہوتے ہیں اور اُنہیں جماعتی سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرنا ہوتا ہے ۔ یہی صورتِ حال اپنے اپنے صوبے کے لحاظ سے صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور وزرائے اعلٰی کی ہوتی ہے ۔
صوبائی گورنروں کو صدر نامزد کرتا ہے اسلئے وہ ذاتی لحاظ سے کچھ بھی ہوں حکومتی ذمہ داری کے لحاظ سے وہ کسی جماعت یا گروہ کے نہیں پورے صوبے کے نمائندہ ہوتے ہے ۔ چنانچہ آئین کے مطابق انہیں کسی مخصوص جماعت یا گروہ کی کسی ایسی حمائت کی اجازت نہیں ہوتی جس سے دوسری کسی جماعت یا گروہ کو نقصان پہنچتا ہو یا اُسکی دل آزاری ہوتی ہو ۔ گورنر اپنی تقرری پر حلف اُٹھاتا ہے کہ
وہ اپنی تمام ذمہ داریاں اور کام دیانتداری سے آئین و قانون کے مطابق کرے گا
وہ نظریہ اسلام کی پوری کوشش سے حفاظت کرے گا
وہ اپنی ذاتی دلچسپی کو اپنے دفتری کام اور کردار پر اثر انداز نہیں ہونے دے گا
وہ ہر حالت میں بغیر کسی جانبداری یا میلان یا مخالفت کے قانون کے مطابق تمام قسم کے لوگوں کی بہتری کیلئے کام کرے گا
آئین کی شق 105 کے مطابق گورنر صوبے کی کابینہ یا وزیرِ اعلٰی کے مشورہ کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے ۔ گورنرکسی مشورے پر دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس بھیج سکتا ہے اور اگر وہ تجویز وزیرِ اعلٰی دوبارہ گورنر کو بھیج دے تو گورنر اُس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔
اصل صورتِ حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے چاروں صوبوں کے گورنر آئین و قانون کے مطابق کم اور آئین و قانون کے خلاف زیادہ عمل کرتے ہیں بالخصوص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے تو آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرنے کا بازار گرم کیا ہوا ہے ۔ مختلف شہروں میں محفلیں منعقد کر کے اُن میں انتہائی گھٹیا بیان دینا ۔ گورنر ہاؤس میں شراب نوشی کی محفلیں منعقد کرنا ۔ جو اراکانِ اسمبلی حکومت میں نہیں اُنہیں حکومت کے خلاف اُکسانا اور صوبائی اسمبلی کی بھیجی ہوئی سمری کو ہمیشہ کیلئے دبا کر بیٹھ جانا اُن کا طرّہ امتیاز ہے ۔
جب حُکمران کھُلے بندوں آئین اور قانون کی خلاف ورزی کریں تو عوام سے آئین اور قانون کی پاسداری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟
یہ کام تاثیر صاحب اکیلے نہیں کر رہے، ان کے اوپر والے بھی یہی کر رہےہیں۔ اور نیچے والے بھی۔ان کو بھی ایسا ہی کرنا کا ”حکم“ ملا ہوا ہے۔
ڈفر صاحب
اس کا مطلب ہے کہ آصف زرداری سیاستدانوں اور قوم سب کو دھوکہ دے رہا ہے
آپ نے درست بات کی طرف اشارہ کیا ہے جب حکمران طبقہ قانون کی پاسداری نہیںکرتا تو عوام بھی اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ چاہے وہ مملکت کے آئین سے کھلواڑ ہو یا ایک سڑک پر لال بتی کا معاملہ۔
پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلی کا معاملہ تو ایسا لگتا ہے جیسے دو بچے ایک کھلونے کے لیے لڑ رہے ہوں۔
1948 مین جب مین اسلامیھ کالج مین داخل ھوا تھا تو ڈاکٹر تاثیر ھی پرنسیپل تھے
میری ان کے متعلق اچھی یادین وابستہ ھین
لیکن سلمان تاثیر کی باتین سنکردکھ ھوتا ھےاللھ اسے ہدایت دے
قانون اور ملک کے حاکمون کے متعلق آپکا تجزیھ ھمیشہ کی طرح درست ھے افسوس یھ ھے کھ عمل سب کے نھین بدلتے