پہلے ایک معذرت
کل کی تحریر کے ساتھ نقشہ نمبر 2 کسی وجہ سے شائع نہ ہوا تھا جو آج تحریر کے ساتھ شائع ہو گیا ہے ۔ ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد بورڈ آف انٹرمیڈیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے پاکستان کے [پی سی او] چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی فرح کے بارہویں جماعت کے نمبر بڑھانے کے خلاف درخواستوں کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلہ کے صفحہ 13 پر فزکس ۔ 2 کے سوال نمبر 5 بی اور اُردو کے سوال نمبر 2 کے جوابات کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ پرچوں کے نظری جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی ۔ مزید لکھا ہے “مجھے باقی پرچوں میں بھی کوئی بے ضابتگی نظر نہیں آئی”
متذکرہ سوالات کے جوابات جو کہ عدالت کے ریکارڈ پر ہیں مندرجہ ذیل ہیں ۔ [ نقل بمطابق اصل ہے]
فزکس ۔ 2 کے سوال نمبر 5 بی کا ایک جز
Question: A capacitor is connected across a battery: (b) Is this true even if the plates are of different sizes
Answer: No, the plates of capacitor is not of different sizes, however to decrease the electrostatic factor a dielectric medium is putted in between them
اس جواب پر ممتحن نے پہلے کاٹا لگایا اور صفر نمبر دیا
پھر ایک نمبر دیا اور
پھر بڑھا کر 2 نبر کر دیئے ۔
اُردو کے سوال نمبر 2 کے جواب
سوال ۔ بابر کی جفا کشی کی کوئی مثال دیں
جواب ۔
بابر کا تیر کے کمان سے بھی تیز چلنا اور کچھ ہی میل میں لمبا سفر تے کرنا
ایک شہر سے آگرہ پہنچ جانا اور گھوڑے کے بغیر گنگا میں ننگی تلوار ہاتھ میں پکڑے کود پڑنا
اس جواب پر پہلے ایک نمبر دیا گیا
پھر اسے بڑھا کر 2 کر دیا گیا
تبصرہ ۔
کالج میں فزکس پڑھانے والے ایک پروفیسر صاحب نے بتایا ہے کہ فزکس کے سوال کا جواب غلط ہے اور کوئی نمبر نہیں ملنا چاہیئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جواب کیلئے صرف ایک نمبر تھا اور جواب غلط ہونے کے باوجود 2 نمبر دیئے گئے
اُردو کے سوال کے جواب میں کیا لکھا گیا ؟ یہ نہ میری سمجھ میں آیا ہے اور نہ میرے ارد گرد کسی کی سمجھ میں آیا ہے البتہ لکھنے والی فرح عبدالحمید ڈوگر اور فیصلہ دینے والے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی سمجھ آیا ہے ۔ اسی لئے اس جواب کےغلط اور بھونڈا ہونے کے باوجود 3 میں سے 2 نمبر دیئے گئے
اندھیر نگری چوپٹ راج
جہاں عدلیہ آزاد نہ ھو
وہاں سچ توہیں عدالت بن جاتا ھے
سید محمد حنیف شاہ صاحب
درست کہا آپ نے
افتخار صاحب! آپ پوسٹ کے ٹائٹل کی املا صحیح کر لیں ورنہ آپ کے نمبر بھی کٹ سکتے ہیں۔
نہیں علمدار صاحب اس انصاف کے بے مثال مظاہرے کے بعد اس پوسٹ کے ٹائیٹل کے ہجوں پر 2 نمبر زیادہ تو مل سکتے ہیں پر کٹ نہیں سکتے
ڈفر بھائی! کیا خوب فرمایا آپ نے۔
ڈگریاں بکنے لگیں زر کے عوض مکتب میں
علم کے کتنے خریدار نکل آئے گھر سے
:shock:
محترم اجمل صاحب!
میرے جیسے عام آدمی کو جو بوجہ یا وقت کی قلت کی وجہ سے اتنی باریکیوں کو کرید نہیں سکتا اور نتیجتاً سوسائٹی کی ایسی بے لاگ منافقت کو دریافت نہیں کر پاتا، اس کے لیے اس طرح کا کھوج بہت معنی رکھتا ہے۔
ازراہ کرم، اس سلسلے کو جاری رکھیں۔
علمدار ۔ ڈِفر ۔ شعیب صفدر اور جاوید گوندل صاحبان
آپ سب کا شکریہ ۔
علمدار صاحب ۔ کاہلی کی وجہ سے ایک سال ہونے کو ہے کہ چابی تختہ کی اندرونی صفائی نہیں کی اور میرے اعصاب بھی کچھ کمزور ہو گئے ہیں اسلئے زیادہ استعمال ہونے والی چابیاں کبھی کبھی لفظ نہیں بناتیں ۔ جب میں جلدی میں ہوتا ہوں تو پڑتال کئے بغیر تحریر شائع کر کے بھاگ جاتا ہوں
السلام علیکم!
لیجیے ایک اور غلطی کی نشاندہی حاضر ہے۔ چونکہ یہ آپ نے سب سے اوپر اپنے بلاگ کے بارے میں نوٹ لکھا ہوا ہے لہٰذا اسے درست کرنا بے حد ضروری ہے۔
’’انسانی فرائض بارے اپنے علم….‘‘
اس عبارت میں ’’کے‘‘ مِس ہے۔
انکل لگتا ہے آپک تھک گئے ہیں اصل لفظ بے ضابطگی ہے اور سفر طے کیا جاتا ہے، آپ نے تے لکھا ہے۔
جن پروفیسر صاحب کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ پروفیسر ہود بھائی ہیں اور کالج نہیں یونیورسٹی میںپڑھاتے ہیں۔ خاصی متنازعہ شخصیت ہیںلیکن مجھے پسند ہیں۔
علمدار صاحب ۔ السلام علیکم و رحمة اللہ
یہ بالکل درست لکھا گیا ہے
“میرا بنیادی مقصد معاشرہ اور انسانی فرائض بارے اپنے علم اور تجربہ کو خصوصاً جوان نسل تک پہنچانا ہے”
اگر آپ کی تجویز قبول کی جائے پھر ایسے لکھا جائے گا
“میرا بنیادی مقصد معاشرہ اور انسانی فرائض کے بارے میں اپنے علم اور تجربہ کو خصوصاً جوان نسل تک پہنچانا ہے”
یعنی دو الفاظ” کے” اور ” میں” کا اضافہ
فیصل صاحب
جناب ۔ میری غلطی تو میں مان لیتا ہوں لیکن فرح عبدالحمید ڈوگر کی غلطی تو میرے سر نہ ڈالیئے ۔ ” تے” میں نے نہیں فرح نے اپنے پرچے میں لکھا ہے ۔
جناب میں نے پرویز ہودبھائی کا ذکر نہیں کیا تھا بلکہ گیارہویں بارہویں جماعت کو پڑھانے والے ایک پروفیسر صاحب نے بتایا تھا ۔ پرویز ہودبھائی کو میں بھی متنازعہ سمجھتا ہوں ۔ دین اور مسلمانوں کے متعلق اُن کے غلط اور بے بنیاد بیانات کی وجہ سے ۔ اُنہیں چاہیئے جو چراگاہ اُن کی نہیں اُس میں منہ نہ ماریں