الحمدللہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک قاری محمد سعد صاحب سے ہفتہ عشرہ قبل کیا ہوا وعدہ پورا کرنے کی مجھے توفیق عطا کی ۔ بلا شُبہ انسان جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے ہے
طالب کا مطلب ہے طلب یا چاہت یا تمنا رکھنے والا ۔ طالب علم کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین تعلیم حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ شومئیِ قسمت سمجھ لیجئے یا غلط تربیت کا اثر کہ دورِ حاضر کے اکثر طلباء و طالبات کا مقصد یا مدعا یا نصبُ العین اسناد حاصل کرنا معلوم ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے ان سند یافتہ جوانوں کو دساور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پچھلے ساٹھ سال کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ شروع کی دو دہائیوں میں جو ہموطن اعلٰی تعلیم کیلئے دساور گئے وہ کم سے کم وقت میں اعلٰی معیار کی جامعات سے کامیاب اور کامران ہوئے حالانکہ اپنے یہاں ان طلباء و طالبات کے نمبر 60 اور 80 فیصد کے درمیان ہوتے تھے ۔ فی زمانہ حال یہ ہے کہ طلباء و طالبات اپنے یہاں تو 80 سے 95 فیصد نمبر حاصل کر تے ہیں لیکن دساور میں ان کی کامیابی کا تناسب بہت کم ہو گیا ہے
آج سے 27 سال قبل تک اساتذہ کی کوشش ہوتی تھی کہ اُن کے شاگرد ایسا علم حاصل کریں کہ جہاں بھی وہ جائیں کامیاب ہوں اور اُنہیں دیکھنے والا یا ملنے والا کہہ اُٹھے کہ یہ جوان تعلیم یافتہ ہیں ۔ والدین بھی اپنے بچوں کو اسی مقصد کیلئے درس گاہوں میں بھیجتے تھے کہ اُن کی اولاد پڑھنا لکھنا سیکھنے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی بن جائیں ۔ لگ بھگ آدھی صدی قبل میری انجنیئرنگ کالج لاہور کی تعلیم کے دوران ایک شام میں پروفیسر عنایت علی قریشی صاحب [اللہ غریقِ رحمت کرے] کے گھر اپنے کسی کام کیلئے گیا تو وہاں ایک بزرگ اپنے بیٹے کے ساتھ موجود تھے ۔ اُن کا بیٹا انجنئرنگ کالج کا ہی طالب علم تھا ۔ وہ بزرگ پروفیسر صاحب سے کہہ رہے تھے “میں نے اسے انسان بننے کیلئے یہاں بھیجا تھا ۔ ایک سال میں اس نے انگریزی تو فرفر بولنا شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک گدھے کا گدھا ہے ۔ میں اسے واپس نا لیجاؤں اور خود ہی اسے انسان بناؤں ؟”
شاگرد اور اُن کے والدین اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے اور اساتذہ کی اپنے شاگردوں کی تربیت میں دلچسپی کے نتیجہ میں طلباء اور طالبات کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ امتحان دینے والی پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہ زندگی گزارنے کے اسلوب بھی سیکھیں ۔ کھیلوں میں حصہ لینا ۔ جسمانی ورزش کی تربیت ۔ بیت بازی اور علمی مباحثوں میں حصہ لینا عام سی بات تھی ۔ ہمیں سکول اور کالج میں آدابِ محفل بھی سکھائے جاتے تھے اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم نے عمارت میں لگی آگ بجھانے کا طریقہ ۔ ابتدائی طِبی امداد اور ہوائی حملہ سے بچاؤ کے طریقے بھی عملی طور پر سیکھے تھے ۔ اس کے علاوہ طلباء و طالبات اپنے طور پر معلوماتِ عامہ کا علم حاصل کرتے اور اکثریت حکومت کے متعلقہ ادارے کے ترتیب دیئے ہوئے امتحانات میں بھی بیٹھتے ۔
آج کی صورتِ حال دیکھ کر پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ متذکرہ فرق کا سبب معیارِ تعلیم کا انحطاط ہے جس کے ذمہ دار صرف اساتذہ ہی نہیں طلباء و طالبات اور اُن کے والدین بھی ہیں ۔ حکومت نے 1970ء کی دہائی میں بجائے اِسکے کہ اُس وقت کے مروجہ نظامِ تعلیم میں بہتری پیدا کرتی تقریباً تمام نجی تعلیمی ادارے قومیا لئے اور ان پر اپنے پسندیدہ لوگوں کو مسلط کیا جن کی اکثریت کے پاس اسناد تو تھیں لیکن اُنہیں تدریسی تجربہ نہ تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے بہتری کے جو تعلیمی نظام چل رہا تھا وہ تنزل پذیر ہو گیا ۔
دورِ حاضر میں اساتذہ ۔ طلباء و طالبات اور اُن کے والدین سب کی صرف یہی کوشش ہوتی ہے کہ عِلم حاصل ہو نہ ہو کسی طرح تعلیمی سند حاصل کر لی جائے چاہے اس کے لئے رٹا لگایا جائے ۔ نقل ماری جائے یا ممتحن کی خدمت کی جائے یا اثر و رسوخ استعمال کیا جائے ۔ ہمارے زمانہ تعلیم میں بھی کبھی کبھی نقل مارنے کا انکشاف ہوتا رہتا تھا لیکن بہت کم تھا اور اس عمل کو بہت بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ اب شاید نقل مارنے کو معیوب سمجھنے کی بجائے ہوشیاری سمجھا جانے لگا ہے کہ ہر کمرہ امتحان میں نقل مارنے والوں کا ذکر خیر ہوتا ہے مگر اس کے سدِباب کیلئے کوئی کوشش نظر نہیں آتی ۔ نقل مارنے کو انگریزی میں cheating کہا جاتا ہے اور دراصل نقل مارنا دھوکہ دہی ہی ہے ۔ نقل مارنے والا طالب علم صرف اپنے ممتحن ۔ اساتذہ اور طالب علم ساتھیوں کو ہی دھوکہ نہیں دیتا بلکہ اپنے والدین اور اپنے آپ کو بھی دھوکہ دے رہا ہو تا ہے ۔ [صحیح اُردو “نقل کرنا” ہے لیکن میں نے “نقل مارنا” اسلئے لکھا ہے کہ عام طور پر مستعمل یہی ہے]
نقل مارنا بڑا جُرم اور بڑا گناہ ہے بلکہ گناہوں کا مرکب ہے ۔ نقل مارنے والا بیک وقت چار جرائم یا گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اور چاروں میں سے ہر ایک گناہِ کبیرہ ہے ۔
ایک ۔ وہ جھوٹ بولتا ہے ۔ جو اُس کے علم میں نہیں نقل مار کر بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے ۔
دو ۔ امتحان کا پرچہ دیتے ہوئے اس پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ وہ دیانتداری سے جوابات لکھے گا لیکن وہ نقل مار کر امانت میں خیانت کر رہا ہوتا ہے
تین ۔ وہ نقل مار کر سب کو اپنے لائق ہونے کی جھوٹی گواہی دے رہا ہوتا ہے یا دھوکہ دے رہا ہوتا ہے اور
چار ۔ وہ نقل مار کر اُن طلباء کے ساتھ بے انصافی کرتا ہے اور اُن کا حق مارتا ہے جو نقل نہیں مارتے ۔
ایسا گناہ جس کا اثر کسی اور انسان پر بھی پڑتا ہو جیسا کہ نقل مارنے سے بھی ہوتا ہے تو یہ حقوق العباد کی نفی ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ جب تک متعلقہ انسان معاف نہیں کریں گے اللہ تعالٰی بھی معاف نہیں کریں گے ۔
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 42 ۔ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت ۔ 283 ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔
سورت ۔ 4 ۔ النِسآ ۔ آیت ۔ 135 ۔ اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ [اس میں] تمہارا یا تمہارےماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔ اگر تم پیچیدا شہادت دو گے یا [شہادت سے] بچنا چاہو گے تو [جان رکھو] اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
لگے ہاتھوں “ڈوگری دور” کی کچھ اعلٰی مثالیں بھی دے دی جاتیں تو ۔۔۔
ڈِفر صاحب
میں ” ڈوگری ” پڑھتا ہوں تو مجھے اپنی جائے پیدائش یاد آ جاتی ہے اور میں دُکھوں کی نگری میں پہنچ جاتا ہوں ڈوگرہ راج کی ستم ظریفیاں گنتے ہوئے ۔ آج کا ڈوگری راج میرا خیال ہے کہ ڈوگرہ راج کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے ۔ میں ایک سے زیادہ بار فرح ڈوگر کو اپنے بلاگ پر جگہ دے چکا ہوں ۔ میں اس کی مزید مشہوری نہیں کرنا چاہتا ۔ کیا معلوم ڈوگر صاحب کہہ رہے ہوں “بدنام ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا؟”
جزاک اللہ۔
اسلامُ علیکم
میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں کہ پاکستان میں نقل نہ “مارکر” مجھے کیا حاصل ہوا۔
ہمارے بابا کو نقل سے نفرت رہی، نا صرف نقل سے بلکہ ان تمام گناہوں سے جنہیں آپ نے نقل سے منسلک کیا ہے۔ چناچہ وہ اس خاطری کے لیے کہ کہیں ان کے بچے نقل تو نہیں کر رہے، ہمارے امتحان کے دنوں میں ہر پرچے کے بعد گھر آنے پر سوال کا پرچہ لیتے، اور وہی سوالات زبانی پوچھتے۔ چناچہ ہمیں نقل کی عادت ہی نہیں رہی، حتٰی کہ امتحان کمرے میں بیٹھ کر میں خود کو دنیا کی بیوقوف ترین شخصیت سمجھتی تھی اور پھر ساتھ بیٹھے لوگوں کی طنزیہ نظریں گویا یہ کہتیں کہ بیٹا بن لو جتنا بننا ہے نتیجہ آنے پر پچھتاؤ گی۔ مگر اللہ کا شکر ہے میرے تعلیمی سرٹیفیکیٹس میں ایم تک کوئی سپلی نہیں لگی۔
میں نے ایم اے انگلش جب چنا توسب نے کہا کہ سندھ یونیورسٹی سے پرائیوٹ طور پر ایم کرنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے برابر ہے، کم سے کم چار سال لگیں گے کلئیر کرنے میں کہ یونیورسٹی والے پرائیوٹ امیدوار کو ایک دو سبجیکٹ میں گرا دیتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ بھلا ایسا کیوں ہوگا۔ مگر ایسا ہی ہوا میری 2 سال کی محنت کا پھل مجھے تین سالوں میں ملا اور وہھ بھی ایسے کہ میرے نمبرز اپنے بیچ میں سب سے کم رہے۔ وہ 16 لڑکیاں جو نقل کرتے وقت مجھ سے پوچھ رہیں تھیں کہ کس سوال کا جواب کس حصے میں ہے وہ مجھ سے دگنے تگنے نمبر لے گئیں۔ اور مجھے لگا میرے ساتھ وہی قصہ ہو گیا کہ۔۔۔۔
ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جیتنے والوں نے رفعتیں پائیں، ہم خودی کو بلند کرتے رہے۔
یہ تو اللہ نے کرم کیا اور بس کسی طرح ایم اے کام آگیا۔ جو کام ملا ، میری قابلیت کی بنیاد پہ ملا۔ اب جب شادی کے بعد صومالی لینڈ (یہ صومالیہ سے علیحدہ ایک آذاد مگر غیر تصدیق شدہ ریاست ہے، میرے شوہر یہاں اقوام متحدہ کے زیر کام کرتے ہیں) آنا ہوا تو یہاں بھی مجھے بہت بہترین این جی اوز کی طرف سے کام کی آفر ہوئی، مگر سوال یہ ہے کہ میرے اکیڈمک سرٹیفیکٹ میں یہ جو سپلیمینٹری کا داغ لگ چکا ہے اس کا کیا کروں؟ یہ سوال ذہن میں آتا ہے تو جی تو جلتا ہی ہے مگر ڈوگر صاحب بھی صحیح دکھائی دینے لگتے ہیں۔
فی امان اللہ
صبا سیّد صاحب
نقل کا موقع ملنے کے باوجود نقل نہ کرنا بہادری اور اعلٰی کردار کا نمونہ ہے ۔بُری بات اچھا کام کر کے پچھتایا نہیں کرتے ۔