آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل جو بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست ۔ جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896ء میں آیا ۔ اس یہودی ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا ۔ لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈیکلیریشن منظور کی
“Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people….”
[ترجمہ ۔ حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے]
اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل [سوٹزرلینڈ] میں اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ سارا فلسطین ۔ سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا عراق کی جنوبی سرحد تک کا شمالی علاقہ ۔ دیکھئے نقشہ ۔ 1 اس تحریر کے آخر میں
فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کے لئے وہاں بڑی تعداد میں یہودی داخل کرنا مندرجہ بالا پروگرام کا اہم حصہ تھا اور اس کے لئے مسلمانوں کو فلسطین سے باہر دھکیلنا بھی ضروری قرار پایا ۔ 1895ء میں تھیوڈور ہرستل نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا
“We shall try to spirit the penniless population across the border by procuring employment for it in the transit countries, while denying it any employment in our own country.”
ترجمہ ۔ ہم [فلسطین کے] بے مایہ عوام کو فلسطین سے باہر ملازمت دِلانے کا چکمہ دینے کی کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اُن کو فلسطین میں ملازمت نہیں کرنے دیں گے
پھر صیہونیوں نے راست اقدام کا منصوبہ بناتے ہوئے مندرجہ ذیل فیصلہ کیا
“As soon as we have a big settlement here we’ll seize the land, we’ll become strong, and then we’ll take care of the Left Bank. We’ll expel them from there, too. Let them go back to the Arab countries.”
ترجمہ ۔ جونہی ہماری تعداد فلسطین میں زیادہ ہو گی ہم زمینوں پر قبضہ کر لیں گے ۔ ہم طاقتور ہو جائیں گے پھر ہم دریائے اُردن کے بائیں طرف کے علاقہ کی خبر لیں گے اور فلسطینیوں کو وہاں سے بھی نکال دیں گے ۔ وہ جائیں عرب مُلکوں کو
نظریہ یہ تھا کہ جب اس طرح کافی یہودی آباد ہو جائیں گے تو اس وقت برطانیہ فلسطین میں حکومت یہودیوں کے حوالے کر دے گا ۔ مگر ہوا یہ کہ شروع میں کچھ فلسطینی عربوں نے اپنی زمین یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی مگر باقی لوگوں نے ایسا نہ کیا جس کے نتیجہ میں 52 سال گذرنے کے بعد 1948ء میں فلسطین کی صرف 6 فیصد زمین یہودیوں کی ملکیت تھی ۔ یہودیوں نے 1886ء سے ہی یورپ سے نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع کر دیا تھا جس سے 1897ء میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی تھی ۔ اُس وقت فلسطین میں مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔1903ء تک یورپ اور روس سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 25000 کے لگ بھگ ہو گئی ۔ 1914ء تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نقشہ – 1
شکریہ اجمل انکل ، بہت معلوماتی تحریر ہے
اسکا دوسرا حصہ کب آئے گا؟
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » برطانیہ کی بلا ۔ عربوں کے سر
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ