آج کے دور میں ہر اُس مسلمان فرد اور مسلمان ملکوں کے باشندوں کو دہشتگرد قرار دیا جا رہا ہے جو امریکہ یا بھارت کی مداح سرائی نہ کرے یا اُن کے ظُلم کے خلاف آواز اُٹھائے ۔ اس پروپیگنڈہ کی کامیابی کا سبب ذرائع ابلاغ کا کنٹرول مسلمان دُشمن طاقتوں کے ہاتھ میں ہونا ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ مسلمان مُلکوں کے بھی کچھ ذرائع ابلاغ ان مسلم دُشمن طاقتوں کی مالی امداد وصول کر کے یا اُن کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنے ہموطنوں اور مسلم اُمہ کے ساتھ غداری کر رہے ہیں ۔
مُسلم دُشمن طاقتوں کا یہ کھیل تو ازل سے جاری ہے لیکن اس نے زور آج سے 20 سال پہلے پکڑا ۔ ابتداء فرد سے کی گئی ۔ پھر ایک قوم کو ملزم ٹھہرایا گیا اور پھر اس کا دائرہ ہر اُس ملک تک بڑھا دیا گیا جہاں کے عوام ان مُسلم دشمن طاقتوں کی بداعمالی کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں
امریکا کی اعانت سے اسرائیل کی فلسطین میں اور برطانیہ کی اعانت سے بھارت کی جموں کشمیر میں دہشتگردی تو 1947ء میں شروع ہو گئی تھی ۔ امریکہ جو ویت نام ۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ میں دہشتگردی روا رکھ چکا تھا اُس نے 1991ء کے شروع میں عراق پر حملہ کر کے مشرقِ وسطہ میں اپنی دہشتگردی کا آغاز کیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ میں اپنی عددی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے عراق کی 13 سال مکمل ناکہ بندی رکھی گئی اور جب محسوس کیا کہ اب عراق اپنے دفاع کے قابل نہیں رہا تو ڈبلیو ایم ڈی کا جھُوٹا بہانہ بنا کر مارچ 2003ء میں امریکہ نے برطانیہ کو ساتھ ملا کر مجبور عراق پر حملہ کر دیا ۔ ان دو طاقتوں کے بیہیمانہ ظُلم اور دہشتگردی کی بازگزشت اب بھی فضا میں گونجتی جے ۔ امریکی چیک پوسٹوں پر اور بڑے پیمانے پر قائم کردہ جیلوں بالخصوص ابوغرَیب جیل میں جو کچھ ہوا اسے کون نہیں جانتا ۔
اسی دوران امریکا اور اس کے ساتھیوں نے اکتوبر 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کو بہانہ بنا کر افغانستان پر دھاوا بول دیا جبکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ سے افغانستان کا دُور کا بھی کوئی تعلق نہ تھا ۔ گھر بیٹھے شہریوں اور شادی اور مرگ کی محفلوں پر سفّاکانہ بمباری کی گئی ۔ افغانستان میں لاکھ سے زیادہ بے قصور جوان بوڑھے عورتیں اور بچے اندھا دُھند بمباری سے ہلاک کئے جا چکے ہیں اور یہ دہشتگردی 7 سال سے جاری ہے
افغانستان میں مارداڑ شروع کرنے کے کچھ سال بعد حکومتِ پاکستان کی طرف سے جاری فوجی کاروائی کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی فوج نے حملے شروع کر دیئے جو جاری ہیں ۔ ان حملوں کا نشانہ بے قصور شہریوں کے گھر ۔ بچوں کی تعلیمی درسگاہیں اور مساجد ہوتی ہیں جس کے نتیجہ میں سینکڑوں بے قصور جوان بوڑھے عورتیں اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ عمل اب تک جاری ہے ۔ اس صریح مُسلم کُش دہشتگری جسے مکاری سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ہے کے نتیجہ میں پاکستان کے قبائلی کے علاقوں کے لاکھوں پُرامن اور بے قصور لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ۔
یہ بھی ایک کمال ہی ہے کہ 9/11 کے موقع پر جہاز ٹکرانے والوں کا ماسٹر مائنڈ محمد عطا کو قرار دیا گیا جو کہ مصری باشندہ تھا لیکن اس کے باوجود حملہ افغانستان میں۔۔۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ارادے کچھ اور ہیں
محمد عبدالقدوس بٹ صاحب
کمال وہ تو نہیں یہ ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ کی تابعداری کرتے ہوئے پچھلے سوا سات سالوں سے مسلمانوں کے ناجائز قتلِ عام میں مصروف ہیں اور ان کو اپنی موت اور اسکے بعد کیا ہوگا بالکل یاد نہیں
آج کل تو ہلال قائد اعظم ریوڑیوں کی طرح بٹ رہے ہیں
اور آپ کی تعریف پر تازے تازے پورے اترے ہیں ہمارے سابق مشیر جناب ”محمد علی درانی“ صاحب
ممبئی حملوں کے بعد زمین آسمان کو ایک کرنے والے آج غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی پر کیوںچھپ ہے ۔ ؟
میڈیا کے بارے میں آپ نے بالکل درست کہا ۔ غیر تو ہے ہی لیکن اب ملکی میڈیا کے بڑے بڑے گروپ بھی ملک کے مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں۔
پاکستان کے ایک معروف سیاستدان جو نہائیت صالح اور نیک نفس انسان ہیں ۔ ان سے میں نے امت مسلمہ کی وگرگوں حالت کے بارے میں ایک نجی محفل میں سوال کیا تھا کہ ُ ُ کہ محترم دنیا کی اممات سے از رفتہ زمانہ ہم کب محروم ہوئے اور ذلت کی گہرائیوں میں عالمی طور پر کب گرے۔؟،، ان کا جواب نہائیت مختصر تھا۔ ُ ُمنگولوں کے ھاتھوں سقوطِ بغداد کے بعد سے،، فرمانے لگے اس کے بعد سے دوغلی (منافقت) کا شکار ہیں اور ہمارا ہر قدم بحثیت مسلمان قوم پیچھے کی طرف پڑا ہے۔ ہم نے اصولوں اور آدرشوں سے ہاتھ اٹھا لیا۔ ہمارے قول و فعل میں اسقدر تضاد ہوتا ہے کہ ہم وہ کرتے نہیں جو کہتے ہیں۔ اور جو کرتے ہیں عموماً اس کے ہونے کی درستگی پہ ہمیں خود یقین نہیں ہوتا۔ہمارا معیار بہت پست ہو کر رہ گیا ہے۔،،
اور میرا یہ مشاہدہ ہے کہ ہم بے عمل لوگ ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ کسی بھی مسئلے کا وقتی حل جزباتی نعرے بازی۔ یا بے بسی کی شکل میں دو چار دن کی لعن طعن کرنے کے بعد ہم بھول بھال جاتے ہیں۔ جب کچھ ہمارے بس میں ہوتا ہے تب ہم کرتے نہیں۔ جب ہم سے کچھ کر گزرنے کا اختیار چھن جاتا ہے تو اکثر لوگ محب اور با اصول بن جاتے ہیں۔ یہ بات ایک چھوٹی سی مثال سے ثابت ہوتی ہے۔ ہماری قوم (پاکستانی) غالباً ستر فیصد کے لگ بھگ ناخوآندہ ہے۔ اور چند ایک اشتناء چھوڑ کر یہی حال کم و بیش تقریباً سب دیگر مسلم اقوام کا ہے۔ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ترقی کے لیے علم کی کتنی اہمیت اور ضرورت ہے اور کہ ترقی کیے بغیر ہم اپنے دشمنان سے کس قدر پیچھے رہ جائیں گے جس کا ایک ہی واضح مطلب ہو گا کہ اغیار کی تہذیب ہم پہ غلبہ کر لے گی اور ہم مجبورِ محض مغلوب بن کر رہ جائیں گے ۔ ہم جانتے ہیں مگر اس وقت کو ٹالنے کے لیے کوشش نہیں کرتے ہم میں سے اکثر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی علم حاصل کرنے کے لیے چین جانے والی حدیث کا اکثر حوالہ دیتے رہتے ہیں ۔ اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوہ حُسنٰی سے بھی علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے کفار کے پڑھے لکھے قیدیوں کو مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے بدلے رہا کر دیا تھا۔ مگر مجال ہے کہ ہم نے ( ہم سے مراد پڑھے لکھے لوگ) کبھی کسی ایک ان پڑھ مسلمان یا پاکستانی کو پڑھنا لکھنا سکھایا ہو۔؟ جس ملک کی دو تہائی سے زائد آبادی چٹی سفید ان پڑھ ہو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھی ہو کہ ان کے سامنے کتاب رکھ دیں تو وہ اندھوں کی طرح اسے دیکھتے رہیں۔ جبکہ کسی فورم پہ اور خاصکر میڈیا میں بولنا کہنا یا کچھ لکھنا اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اور وہ بھی ایسی صورت میں جب میڈیا بھی آپکے دشمن کے زیرِ اثر ہو۔ تو پھر ہم کس طرح ان قوموں کی برابری کر سکتے ہیں۔ ان سے مقابلہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے اندھوں کو بھی مخصوص عبارت کی ابھری ہوئی لکھائی سے بیناء بنا دیا تو پھر خود کیا کم بیناء ہونگے؟ جبکہ انکی عیاری تو پہلے ہی سی سے تسلیم شدہ ہے ۔
آپ سفر پہ جارہے ہیں آپ کی منزل کس قدر دشوار اور دور کیوں نہ ہو مگر تب تک آپ کبھی بھی اس منزل کو نہیں پہنچ پائیں گے۔ جب تک آپ اس منزل کی طرف پہلا قدم نہیں اٹھاتے اور متواتر قدم اٹھاتے جائیں تاوقتیکہ آپ اپنی پا نہیں لیتے۔ غلط سمت میں اٹھایا ایک قدم بھی آپ کو منزل سے دور کردیتا ہے۔ منزل کی طرف اٹھنے والے صحیح قدم ہی منزل کو قریب کرتے ہیں۔ یہ ہم بیناء حضرات پہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کم از کم دو ان پڑھ، ناخوآندہ پاکستانیوں کو کم از کم لکھنا پڑھنا سکھا دے۔ یہ اہلِ علم کے علم کا صدقہ ہے صدقہ جاریہ۔ اور یوں بیک وقت یا ایک کے بعد دوسرے ا قدام یہ آپ کی استعداد اور حالات پہ منحصر ہے ۔ مگر منزل حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنا اور درست سمت میں آگے بڑھنا شرط ہے۔
بے شک ہم سچے ہیں کہ ہم (مسلمان اور پاکستانی) کسی صورت بھی دہشت گرد نہیں بلکہ وہ قومیں (امریکہ!۔ عراق اور افغانستان میں۔) (اسرائیل!۔ مسلمان علاقوں میں۔) (بھارت!۔ جموں کشمیر میں) جو مظلوم اور کمزور مسلمانوں پہ دہشت گردی کا الزام لگانے کی آڑ میں تاریخ کی بدترین دہشت گردی کر رہی ہیں جن کا شکار صرف اور صرف مسلمان ہیں اور مسلمانوں کا مزہب انکی تہذیب انکا کلچر ان کا ورثہ بلکہ مسلمانوں کا مستقبل اس دہشت گردی کی زد میں ہے اور وہ اپنے جھوٹ کو ہم پہ سچ کی مانند اس لیے مسلظ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس انتہائی ترقی یافتہ علم کی بنیاد پہ لامحدود طاقت ہے اسلیے ضروری ہے کہ ہم بھی انتہائی علمی ترقی کر کے اپنے دشمنوں سے زیادہ وسائل حاصل کریں ۔ ذیادہ طاقت و قوت حاصل کریں تا کہ ہم اپنے سچ کو سچ ثابت کر سکیں کہ بے شک اسلام اور مسلمان دہشت گرد نہیں۔ اور اس کی ابتداء اپنے لوگوں کو ا ب پ ت۔ ۔ ۔ ۔ سکھانے سے شروع کر دینی چاہیے۔
مقابلہ کرنا ہے تو مناسب تیاری کی جیے۔ ورنہ دن بدن گُم ہوتی ہوئی داستان بننے پہ آہ و فغاں بے مقصد ہے۔
دعا گو!
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
9/11 کے ھادثہ کے بعد لکھا تھا- دو شعر حاضر ھین
دھماکے ھین بمون کے اورکہین تخریب کاری ھے
زمانہ ورطہ حیرت مین ھےدھشت بھی طاری ھے
کسے منصف کہین اور کس کو دھشتگرد جانین ھم
حقیقی علم اسکا صرف نزد ذات باری ھے
آپکا اور جاوید گوندل صاحب کا تجزیہ درست ھے
مجھے اتفاق ھے کہ اھل علم پر فرض عا’د ھوتا ھے کام شروع کرنے کے لیے
علم ھی سے اپنی برتری حاصل کی جا سکتی ھے اللہ ھم سب کو توفیق عطا فرماے
جاوید گوندل صاحب
آپ نے درست کہا ہے ۔
اس کی وجہ مسلمانوں کے کردار اور گفتار میں تفاوت ہے
ہمیں ذرائع ابلاغ کا “کنٹرول” مفت میں چاہئے۔
پھر ہم ہمارے سب سے بے دماغ رشتہ داروں کو اس میں لکھنے کے کام پر مامور کریں گے، اور اپنے مخالفین کی کردار کشی کریں گے۔
ہم نے اردو ادروں کا حال دیکھا ہے۔ خدا بچائے مسلمانوں سے!
اس کیلئے قربانیاں اور محنت لگتی ہے ۔۔۔ اللہ اللہ یا امریکہ امریکہ کرنے سے یہ چیز نہیں ملتی!!
اردو دان صاحب
بیٹھے بٹھائے تو کچھ نہیں ملتا ۔ اگر کوئی نوالہ منہ میں ڈال بھی دے تو چبا کر پیٹ میں لیجانا ہوتا ہے ۔ اللہ کے احکامات پر عمل سے کچھ حاصل ہو گا جس کیلئے محنت کی ضرورت ہے ۔