مثل مشہور ہے “جو بوئے گا سو کاٹے گا ” اور پنجابی میں کہتے ہیں “مُنجی بیج کے کپاہ نئیں اُگدی “۔ مطلب یہ ہے کہ جیسا کوئی عمل کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملتا ہے ۔ کچھ بزرگ کہا کرتے تھے “یہ سودا نقد و نقد ہے ۔ اِس ہاتھ سے دے اُس ہاتھ سے لے”۔ دنیا میں ایسے عظیم لوگ بھی اللہ کے فضل سے ہیں جو اس عمل کو سمجھتے ہوئے پوری کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ۔
قانون کے مطابق میں نے 4 اگست 1999ء کو ملازمت سے ریٹائر ہونا تھا لیکن ذاتی وجوہ کے باعث 3 مئی 1991ء کو ریٹائرمنٹ کیلئے درخواست دے دی اور چھٹیاں گذار کر 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہو گیا ۔ ریٹائر ہونے کے کچھ سال بعد میں کسی کام کے سلسلہ میں ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس گیا اور کہا”جناب ۔ میں آپ کے کام میں مُخل ہو رہا ہوں ۔ آپ میرا یہ کام کروا دیں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا”۔ ڈائریکٹر ایڈمن ملازمت کے لحاظ سے مجھ سے جونیئر تھے ۔ وہ میرے طرزِ تخاطب پر برہم ہو گئے ۔ میں نے وضاحت کی کوشش کی “میں ریٹائرڈ آدمی ہوں اور اب آپ میرے افسر ہیں”۔ وہ کہنے لگے “دیکھئیے اجمل صاحب ۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ۔ آپ اب بھی ہمارے محترم ہیں ۔ آپ دوسرے ریٹائرڈ لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو نہ ملائیں ۔ جو اُنہوں نے بویا وہ کاٹیں گے اور جو آپ نے کیا اُس کا صلہ اللہ آپ کو دے گا”۔
آجکل وزیرِ اعظم کے سابق مشیر برائے قومی تحفظ ریٹائرڈ میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے بیانات آ رہے ہیں کہ اُنہیں جلدبازی میں برطرف کر دیا گیا اور جس طرح اُنہیں بر طرف کیا گیا اُس سے اُنہیں دُکھ پہنچا ۔ میں نے 4 اگست 1992ء سے 3 اگست 1994ء تک میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے ماتحت بطور ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ کنٹریکٹ پر کام کیا ۔ یہ ادارہ نجی نوعیت کا تھا ۔
میجر جنرل محمود علی درانی صاحب وسط 1992ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین مقرر ہوئے ۔ اس تقرری کی مدت تین سال ہوتی ہے ۔ مجھے اپنی کنٹریکٹ کی ملازمت کے دوران 1994ء کے کم از 2 ایسے واقعات یاد ہیں جن میں میجر جنرل محمود علی درانی صاحب نے اپنے ماتحت افسروں کو بغیر کسی جواز کے صرف اور صرف اپنی انا کی خاطر بغیر کوئی نوٹس دیئے ملازمت سے نکال دیا تھا حالانکہ وہ اچھا بھلا اور محنت سے کام کر رہے تھے ۔ اب اتفاق سے وہی کچھ اُن کے ساتھ ہوا ہے تو بار بار شکایت کر رہے ہیں ۔
کاش لوگ اُس وقت سوچا کریں جب وہ خود کسی کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں
ہمیں لوگ اسلیے ڈرپوک سمجھتے ہیں کہ ہم برے آدمی کیساتھ الجھنے کی بجائے آرام سے ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ مگر ہم نے دیکھا ہے کہ جو برا ہے وہ برائی سے باز نہیںآتا اور بعد میںاسے سزا ضرور ملتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ سزا دینے والا کوئی اور ہوتا ہے۔
شاید اسے ہی مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔
یہ تع مرا ہاتھی ہے، ابھی اس کے ساتھ جو ہوا ٹھیک ہوا لیکن کم ہوا۔ جن کو اس نے نکالا تھا وہ تو اپنے خاندان کے لئے روزی روٹی کا بندوبست کر رہے تھے نا۔ ابھی باقی کا جوحساب رہتا ہے وہ شائد آخرت میں ہو گا
درانی کو” صاحب لوگوں” نے کچھ سوچ کر ہی ہٹآیا ہوگا۔۔۔جیسے مشرف کو ہٹآیا تو زرداری سر پر دے مارا۔۔۔۔اپنے نمک خوار کو ہٹانے کے بعد بھی سونے میں ہی تولتے ہیں۔۔۔
افضل صاحب
بُرے آدمی کیساتھ اُلجھنا نہیں چاہیئے لیکن آرام سے ایک طرف ہو جانا ایمان یا یوں کہہ کیجئے کہ اخلاق کی کمزوری ہے ۔ بُرے کی بُرائی کو روکنا ہر انسان کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے ۔ ہماری قوم کی اکثریت خود بُرا کام نہیں کرتی لیکن بُرائی کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتی اسی لئے بُرے حُکمران ان پر سوار رہتے ہیں ۔
عملدار اور ڈِفر صاحبان
اللہ کے ہاں انصاف ہے ۔ کچھ بدلہ اس دنیا میں مل جاتا ہے اور باقی آخرت میں
جو دو افسران درانی صاحب نے فارغ کئے تھے اُن میں سے ایک مالی پریشانی کا شکار ہوا ۔
سارا پاکستان صاحب
آپ نے درست کہا کہ “اپنے نمک خوار کو ہٹانے کے بعد بھی سونے میں ہی تولتے ہیں”۔ سُنا ہے کہ درانی صاحب کیلئے کوئی نئی کرسی تلاش کی جا رہی ہے
جیسا کروگے ویسا بھروگے