دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں بنیں ۔ جن میں عاد و ثمود ۔ کسرٰی ۔ نمرود اور فرعون مشہور ہیں ۔ ان کے دور کے متعلق جو معلومات ہمیں ملتی ہیں یہی ہیں کہ ان لوگوں نے بہت ترقی کی اور آرام و آسائش کے بہت سے وسائل حاصل کئے ۔ یہ حُکمران اتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنے آپ کو نعوذ باللہ من ذالک خدا سمجھ بیٹھے ۔ جو اُن کا باجگذار نہ بنتا اُس پر ظُلم کرتے ۔ وہ مِٹ گئے اور اُن کی سلطنتیں جن پر اُنہیں گھُمنڈ تھا اُن کا بھی نام و نشان مٹ گیا سوائے فرعون کے جس کے متعلق مالک و خالقِ کائنات کا فیصلہ تھا کہ رہتی دنیا تک اُسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا ۔ سو فرعون کی حنوط شُدہ نعش ۔ ابوالہول کا مجسمہ اور احرامِ مصر آج بھی موجود ہیں ۔
ایک صدی قبل تک مسلمانوں کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی مگر اللہ کے احکامات کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے 1915ء میں بکھر گئی ۔ مسلمانوں کی سلطنت بکھرنے کے بعد روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد اور ریاستہائے متحدہ امریکہ طاقت پذیر ہوئے اور اپنے آپ کو سُپر پاور کا خطاب دے دیا ۔
بہت دُور کی بات نہیں کہ ان میں سے ایک سُپر پاور روس نے طاقت کے بل بوتے قریبی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پولینڈ ۔ بیلارس ۔ لتھوانیا ۔ ایسٹونیا ۔ لیٹویا ۔ سلوواکیا ۔ چیک ۔ کروشیا ۔ سربیا ۔ رومانیہ ۔ بوسنیا ۔ ہرزیگووینا ۔ بلغاریہ اور مالدووا پر قبضہ کر کے مسلمانوں اور مذہبی عیسائیوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا اور جس نے ایسا نہ کیا اسے جان سے مار ڈالا یا کال کوٹھڑی میں ڈال دیا اور اس طرح روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد قائم کیا ۔ یہیں بس نہ کیا بلکہ یورپ سے باہر بھی اپنا عمل دخل بڑھانا شروع کر دیا اور اسی عمل میں افغانستان پر قبضہ اس سُپر پاور کے ٹوٹنے کا بہانہ بنا ۔
روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حُکمران جو پہلے ہی کئی ممالک پر قبضہ کر چکے تھے مزید خُودسَر ہو گئے اور مسلمانوں کو تیزی سے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تاکہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو سکے ۔ اس پر عمل درآمد کیلئے پہلے ڈبلیو ایم ڈی کا بہانہ گھڑ کر عراق پر حملہ کیا پھر افغانستان پر حملہ آور ہوا ۔ افغانستان پر حملہ سے پہلے خود ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اسلئے گرا دیا کہ دنیا کی ناجائز حمائت حاصل کی جائے ۔
امریکی حکمرانوں کی ہوّس اور بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے لاکھوں بے کس لوگوں کو بے گھر کرنے اور اں کے ہاتھ سے رزق چھننے اور ہزاروں لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑانے میں بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اب اُن کی آنکھیں واحد مسلم ایٹمی طاقت پر گڑی ہیں ۔ اُن کا مقصد دنیا میں غیر مسلموں کے مکمل غلبے کے سوا کچھ نہیں
اس خود غرضی کی جنگ میں امریکی عوام بُری طرح سے جکڑے جا چکے ہیں ۔ امریکی عوام کو شاید اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ اُن کے حکمرانوں کی بنائی ہوئی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” نے جو تحفے امریکی عوام کو دیئے ہیں وہ ہیں ۔ عراق میں 5000 کے قریب امریکی فوجی ہلاک ۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی زخمی اور 167 امریکی فوجی خود کشی کر کے ہلاک ۔ امریکی عوام میں بے چینی کو بڑھنے سے روکنے کیلئے امریکی حکمرانوں نے افغانستان میں ہونے والے نقصانات کو ظاہر نہیں ہونے دیا لیکن وہاں بھی عراق سے کم نقصان نہیں ہوا ۔ معاشی لحاظ سے اس خودغرضی کی جنگ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ اب تک اس جنگ میں 10 کھرب یعنی ایک ٹریلین ڈالر جھونکا جا چکا ہے ۔ اور امریکیوں کو بونس کے طور پر دنیا کے لوگوں کی اکثریت کی نفرت ملی ہے ۔ اس سب نقصان کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر پورے عراق پر امریکہ کی حکمرانی ہے مگر افغانستان میں کابل سے باہر مُلا عمر کا سکہ چلتا ہے ۔
ایک حقیقت جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمرانوں نے پیشِ نظر نہیں رکھی وہ قانونِ قدرت ہے جس پر عمل ہوتا آیا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے خلقِ خدا کو ناحق قتل کیا یا برباد کیا وہ خود بھی برباد ہوا اور اُس کا نام و نشان مٹ گیا
دنیاوی طور پر دیکھا جائے تو کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہا ں زیادہ وقت قیام نہیں کر پاتا اور اُسے نیچے اُترنا پڑتا ہے خواہ وہ جہاں سے اُوپر گیا تھا اُسی طرف اُترے یا پہاڑ کے دوسری طرف ۔ انسان کو ہی دیکھ لیں پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان اور پھر بوڑھا یعنی کمزور سے طاقتور بننے کے بعد کچھ عرصہ طاقتور رہتا ہے اور پھر کمزور ہو جاتا ہے ۔ فارسی کا ایک قدیم مقولہ ہے “ہر کمالے را زوالے”۔ یعنی کمال حاصل کرنے کے بعد زوال لازم ہے ۔
ایک تعلیم یافتہ شخص جس کا تعلق جموں کشمیر کے اُس علاقہ سے تھا جس پر 1947ء سے بھارت کا غاصبانہ استبدادی قبضہ ہے اور جس نے افغانستان پر سوویٹ یونین کے قبضہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا کو اُس کے علم اور تجربہ کی بنیاد پر گیارہ سال قبل ایک مجلس میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مدعو کیا گیا ۔ اُس نے افغانستان میں جنگِ آزادی کے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرنے کے بعد کہا “آپ نے دیکھا کہ سوویٹ یونین جیسی سُپر پاور ٹوٹ گئی ۔ ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ اب سوویٹ یونین کا کام بھی امریکہ نے سنھال لیا ہے ۔ آپ نوٹ کر لیجئے کہ آج سے 14 سال کے اندر امریکی ایمپائر ٹوٹ جائے گی”۔
روسی پروفیسر اِیگور پانارِن [Igor Panarin] نے کئی سال قبل پیشگوئی کی تھی کہ 2010ء میں امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد موجودہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔
آج ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمران اس ترجیح پر عمل پیرا ہیں کہ “ہم ایک ایمپائر ہیں ۔ جب ہم قدم اُٹھاتے ہیں تو اپنی پسند کی حقیقت کو جنم دیتے ہیں ۔ لوگ ابھی اس حقیقت کے مطالعہ میں لگے ہوتے ہیں کہ ہم قدم بڑھا کر نئے حقائق پیدا کر دیتے ہیں ۔ بیشک لوگ اُن کا بھی مطالعہ کریں ۔ ہم تاریخ ساز ہیں اور باقی سب لوگ صرف ہماری بنائی ہوئی تاریخ کو پڑھنے کیلئے ہیں”
لیکن آنے والے کل کی کسی کو کیا خبر ۔ البتہ دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور سوچنے والے دماغ سمجھ چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے ۔
پچھلے نو سال کی اس مہم جوئی کے نتیجہ میں امریکی معیشت خطرناک حد غوطہ لگا کر کساد بازاری کا شکار ہے اور مزید اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ ساتھ ہی بے روزگاری نئی بلندیوں کو چھُو رہی ہے ۔ اگر امریکی حکمرانوں کے یہی طور رہے تو وہ وقت دُور نہیں جب امریکی عوام احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے اور مر جاؤ یا مار دو کے ارادوں سے سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔ عوامی حقوق کی یہ جد و جہد خانہ جنگی کی صورت اختیار کر کے واحد سُپر پاور کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے ۔ لگتا ہے کہ حکمران اس صورتِ حال کی توقع رکھتے ہیں اسی لئے 2008ء کے اواخر میں 20000 فوجیوں کا چناؤ کیا جا چکا ہے جنہیں اگلے تین سال میں شہریوں کے بلووں سے نپٹنے کی تربیت دی جائے گی
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
تیسرے جملے میں “نعوذ باللہ” غلط لکھا ہے۔ تصحیح کر لیں۔
روس کے ٹوٹنے کی وجہ ایک اور سپر پاور کی مداخلت تھی جس نے چند بیوقوف لوگوں کو استمال کر کے افغانستان میں روس کو پسپا ہونے پر نہ صرف مجبور کر دیا بلکہ اس کے ٹکڑے بھی کر دیے۔ لیکن جو ریاستیںآزاد ہوئیں وہ مکمل آزاد نہیںہیںبلکہ امریکہ کے زیر اثر چلی گئی ہیں۔
زمینی حالات تو یہی بتاتے ہیں کہ امریکہ ابھی پہاڑی کی چوٹی سے اترنے والا نہیں ویسے اللہ کی قدرت کا کوئی پتہ نہیںکہ وہ کب ظالم کا حساب برابر کر دے۔ اس وقت امریکہ جتنا بھی کساد بازاری کا شکار ہو، وہ سپر پاور ہے اور سپر پاور اگر مرے گی تو سب کو مار کر مرے گی۔ فی الحال امریکہ کے مقابلے میں کوئی بھی نہیںہے اور جب تک مقابلہ نہیںہو گا شکست نہیں ہو گی۔
قساط بازاری کے لفظ پر غور کر کے بتائیے گا، کیا یہ کساد بازاری نہیںہونا چاہیے۔
محمد سعد صاحب
جزاک اللہ خیرٌ
میں کچھ دنوں سے محسوس کر رہا ہوں کہ میرے اعصاب کمزور ہو گئے ہیں اسلئے انگلی درست چابی کی بجائے ساتھ والی چابی پر پڑ جاتی ہے ۔
افضل صاحب
تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں دنیا کی کسی سُپر پاور کو دنیا کی کسی سُپر پاور نے نہیں مارا ۔ اگر شیر شیر کو مارے تو اس میں اللہ کی قدرت کا کیا کرشمہ ؟ اللہ سُبحانُہُ و تعالی ممولے کو باز سے لڑا کر باز کو ہلاک کروا دیتے ہیں ۔ قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے وقت کے سب سے طاقتور انسان دیو ہیکل جالوت کو صرف غُلیل کی ایک کنکری سے مارنے والے پست قد پھریرے جسم کے سیّدنا داؤد علیہ السلام تھے ۔
لوگوں کا یہ خیال درست نہیں کہ امریکہ نے روس کو شکست دی یا توڑا ۔ اگر یہ حقیقت ہوتی تو عراق کو چھوڑیئے افغانستان کی کیا مجال تھی کہ امریکی سُپر پاور کے سامنے ایک دن میں ڈھیر نہ ہو جاتا ۔ سات سال گذر چکے ہیں اور امریکہ کا صرف ایک شہر کابل پر بھی پورا کنٹرول نہیں ۔ اور جو تھوڑی سی کامیابی امریکہ کو حاصل ہوئی اس کا سہرا ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے سر ہے ۔
بہرحال غیب کا علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے ۔ میں نے تو تاریخی واقعات سے نتیجہ اخذ کیا ہے ۔
Pingback: » رامی حرامی میرا پاکستان:
اچھا لکھا ھے
ھم بھی بھت عرصے سے یہی سوچتے آ رھے ہین
ایک کلیدی لفظ اجمل بھای آپ نے یون لکھا ھے
“مگر اللہ کے احکامات کی پابندی نا کرنے سے 1915 مین ۔۔۔۔۔۔۔۔”
مین صرف اس مین “اللہ اور رسول”ایڈ کرتا ھون۔ اس کی وجھ یہ ھے کھ جنگ احد کی یاد تازہ کرانا چاہتا ہون جہان رسول اللہ صل اللہ علیھ و سلم کی نا فرمانی سے اتنا نقصان ھوا تھا(اور اللہ تعالا کی نافرمانی بھی تھی(
افسوس یہ ھے کہ یھی نافرمانی ابھی تک چلی جا رھی ھے اور مسلمان اب تک اپنی غلظیون کا خمیازہ بھگت رھے ھین اور اللہ اور اسکے رسول کی ظرف جانے کا نام نھین لیتے
اللہ سے دعا کیجے کہ اللہ مسلمانون کو سیدھا راستہ دکھاے
افضل صاحب آپ صرف مایوسی پھیلاؤ اپنی لاپرواھی کی سزا دوسروں کو دیجۓ کیا خبر وہ کون تھا صرف اس نے کہا اور آپ اتنے بھولے بن گۓ؟ اس کے سامنے تو بھیگی بلی بن گۓ اور پیٹھ پیچھے غیبت کرکے بہادری دکھا رھے شاید افضل صاحب کو مایوسی پھیلانے پر ہی مامور کیا گیاھے اور یہی انکی جاب ہے ظاہر اس طرح کمائ گئ رقم اسی طرح ضائع ہوگی
بھائی وہاج الدین احمد صاحب
آپ کا کہنا درست ہے لیکن اللہ کا فرمان ہے کہ نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے ۔
امریکی ایسے موقع پر بولا کرتے ہیں ۔۔ ناٹ سو فاسٹ :smile:
اجمل صاحب پہلے دنیا کو امریکہ کا متبادل تو کھڑا کرنے دیں۔ ابھی تو امریکہ میں معاشی اتھل پتھل ہوئی تو ساری دنیا ہل گئی، جلدی کیا ہے۔۔ ویسے بھی امریکہ گیا تو کچھ عرصے بعد ہم لوگ چین کی بلائیں لے رہے ہونگے ۔۔
راشد کامران صاحب
نہ تو میں نے امریکہ کو کھڑا کیا اور نہ میں کسی اور طاغوتی طاقت کو کھڑا کرنے کی کوشش میں ہوں ۔ میں اللہ کے فضل سے ہمیشہ اللہ کی دی ہوئی عقل و قوت سے اپنے پاؤں پر کھڑا رہا ہوں اور خواہش ہے کہ میرے ہموطن بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اور طاغوتی طاقتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے پیدا کرنے والے کی طرف دیکھا کریں
کئی سال پہلے ایک برزگ سے سنا تھا کہ جب امریکہ کا صدر کالا بن جائے گا تو اسکی بربادی شروع ہوجائے گی، امریکہ کی بربادی انکے اپنے لوگوں کے ہاتھوں ہوگی۔قانون فطرت ہے کہ اللہ پاک ظالم کی حکومت کو نہیں چھوڑتے۔ “جس نے خلقِ خدا کو ناحق قتل کیا یا برباد کیا وہ خود بھی برباد ہوا اور اُس کا نام و نشان مٹ گیا “” اپنے علاقےکے ظالموں کے انجام پہ سوچتا ہوں تو دل کہتا ہے کہ یہ سچ ہے اور حق ہے،
بانیسائی بنوں
” قانون فطرت ہے کہ اللہ پاک ظالم کی حکومت کو نہیں چھوڑتے۔ جس نے خلقِ خدا کو ناحق قتل کیا یا برباد کیا وہ خود بھی برباد ہوا اور اُس کا نام و نشان مٹ گیا” اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ۔
تبصرہ کا شکریہ
بانیسائی بنوں کہتے ہیں:
آپ کے بزرگ لگتا ہے کافی متعصب انسان تھے۔
زکریا بیٹے
اس قسم کی باتیں ہر معاشرے میں سُنی جاتی ہیں ۔ ان کو سنجیدگی سے لینا نہیں چاہیئے
زیک صاحب اس میں تعصب کی کوئی بات نہیں یہ تو انسانی سوچ پہ منحصر ہے کہ وہ کس بات کو کس طرح لیتا ہے۔