صرف صد بار بلکہ ہزاروں بار افسوس ہے اپنی قوم کے ہر اُس فرد پر جو دوسروں کی کوتاہیاں ۔ غلطیاں اور بُرائیاں بیان کرتے تھکتے نہیں ہیں لیکن اپنا عمل یہ ہے کہ چند منٹ لگا کر اسرائیلی ظلم و دہشتگردی کے شکار فلسطینیوں کے حق میں ووٹ بھی نہیں ڈال سکتے
کل جب میں نے تمام بلاگرز اور قارئین سے ووٹ کی درخواست کی اس وقت فلسطین کے حق میں 56 فیصد سے زائد ووٹ ڈالے جا چکے تھے اور اسرائیل کے ووٹ 44 فیصد سے کم تھے ۔ اب حال یہ ہے کہ کہ فلسطین کے 49.1 فیصد ووٹ ہیں اور اسرائیل کے 50.9 فیصد
چاہیئے تو تھا کہ اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے قارئین اور عزیز و اقارب کو بھی فلسطین کے حق میں ووٹ ڈالنے کا کہا جاتا لیکن محسوس یوں ہوتا ہے کہ بہت سے خواتین و حضرات نے اپنا ووٹ بھی نہیں ڈالا یا پھر فلسطینیوں کو دہشتگرد سمجھ کر اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈال دیا ہے
ایسا نہیں ہے صاحب! دراصل انٹرنیٹ استعمال کرنے والے زیادہ افراد مغرب میں رہتے ہیں، اس لیے انہوں نے اسرائیل کے میں اپنی رائے دی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ آپ کے بلاگ کے کسی قاری نے تحریر پڑھنے کے باوجود ووٹ دینے سے اجتناب کیا ہوگا۔
جناب اس پر تو میں ووٹ ہفتہ پہلے ڈال دیا تھا
پر آپ کو پتا ہے کے نئٹ استعمال مغرب میں ذیادہ ہے ان ووٹ تو ہمیں نہیں مل سکتے ۔
ابو شامل و اکرام صاحبان
آپ کا خیال درست ہے لیکن غیرمسلموں میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو اسرائیل کی اس حرکت کو بُرا کہتے ہیں
ہم سب کو تمام فورمز اور بلاگز پر اس حوالے سے تشہیر کرنی چاہیئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ فلسطین کے حق میں ووٹ استعمال کریں۔
ووٹ تو ڈال دیا۔ مگر سر کیا میرے ووٹ سے اسرائیل حملے بند کردے گا؟؟کیا ہمارے مسائل ووٹوں سے حل ہوسکتے ہیں؟؟اگر حق اور باطل کا فیصلہ ووٹ سے ممکن ہے تو پھر جہاد کا حکم کس لیے؟؟
خدا کرے کے ہمارے پاس وہ طاقت آجائے جس سے ہم ظالم کا ہاتھ روک سکیںاور مظلوم کی مدد کرسکیں۔آمین
اس صحفہ پر اس بارے میں شماریات موجود ہیں ۔ سب سے زیادہ ووٹ امریکہ اس کے بعد اسرائیل سے ڈالے گئے ہیں ۔امریکہ، اسرائیل اور کنیڈا کے علاوہ باقی ممالک میں دیکھیں تو زیادہ ووٹ فلسطین کے لئے ڈالے گئے ہیں ۔ ویسے بھی نیٹ پر ووٹنگ پر دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ اس پر منحصر کرتا ہے کہ کہاں پر ویب کے صارفین زیادہ موجود ہیں ۔
کل تین بار کوشش کی تو سائٹ کسی وجہ سے ڈاؤن تھی اور چوتھی بار میںکامیابی ہوئی اور آج دوبارہ اس نے اسی آئی پی سے ووٹ قبول کرلیا۔۔ اس کے نتائج بالکل فضول ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Pingback: يوں نہ تھا ميں نے فقط چاہا تھا يوں ہو جائے » Blog Archive » چھوٹی سی بات
ہم نے فلسطین کے حق میں اسلئے رائے دی کہ ہٹلر کا جھوٹا سفیدوں نے بے چارے فلسطینیوں پر دے مارا تھا جس سے آج تک تعفن پھوٹ رہا ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ جو جاہل وہاں فلسطینیوں کے حق میں رائے دے رہے ہیں وہ اکثر لکھ رہے ہیں “اللہ اکبر”
کیا مسلمان اناج کھاکر بھی اتنی عقل نہیں رکھتے کہ وہ حقائق بیان کرکے لوگوں کو آگاہ کریں، بجائے اسلام کو مزید مشکوک بنانے کے!
یہ بے وقوف اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اسرائیل کو ‘اسلامی دہشت گردی’ سے خترہ ہے اور یہودی اپنا دفاع کررہے ہیں۔
نادان دوستی جی کا جنجال! افسوس ہوتا ہے مسلمانوں پر!!
ذین الدین صاحب
آپ نے درست کہا کہ ہر شخص کو اس کی تشہیر کرنا چاہیئے
ویسے بھی اس ووٹنگ سے کیا فرق پڑنا ہے
ایسی بہت سی پٹیشنز کو میں جانتا ہوں جس میں مسلمانوں کی طرف ووٹوں کا تناسب 99 فیصد سے بھی زیادہ ہے
رائے عامہ کا ہم سب کو پتا ہے لیکن طلم کے سد باب کے لئے کچھ اور قابلیت چاہئے، جو ۔۔۔
سارہ پاکستان صاحبہ
ووٹ ڈالنا تو کم از کم ہے ۔ اس سے جتنا بھی کیا جا سکے اسے کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ آپ کی دعا پر میں آمین کہتا ہوں ۔ مسلمانوں کی کمزوری کا سبب بے عملی ہے
جہانزیب صاحب
آپ کا کہنا درست ہے اور ویسے بھی غیر مسلم کی تعداد مسلمانوں سے پانچ گنا ہے لیکن ہمیں حتی المقدور اپنی طاقت کا اظہار تو کرنا چاہیئے
راشد کامران صاحب
معلوم ہوتا ہے کہ یہ ویب سائٹ بنانے والا زیادہ سمجھدار نہیں
اُردودان صاحب
ہماری کمزوری کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم لوگوں نے صرف نعرہ بازی ہی اپنا شعار بنا لیا ہے
ڈِفر صاحب
اس میں کوئی شک نہیں ظُلم کو روکنے کیلئے مناسب حِکمتِ علی اور عملِ پیہم کی ضرورت ہے ۔ یہ ووٹنگ کے سلسے لوگوں کو جھنجوڑنے کیلئے ہوتے ہیں
ماینے تہو دالل دیا تھا۔
دعع