ڈاکٹر وہا ج الد ین ا حمد صاحب نے میری تحریر ” برطانیہ کی بندر بانٹ اور صیہونیوں کی دہشت گردی” پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح شروع دن ہی سے پاکستانی قوم نے فلسطین کے حق میں آواز اُٹھائی ۔
“محترم ۔ اسرایل کی تاریخ لکھتے رہیں ۔ بہت اچھی معلومات ہیں اور انکا جاننا آج کے وقت میں ضروری بھی ہے ۔ مجھے یہ سوچ کر خوشی ہوتی ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کے وجود میں آنے پر لاہور کے کالجوں کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا تھا اور میں بھی اس میں شامل تھا گو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا بس یہی کہ ہم فلسطینی مسلمانوں کے حق میں ہیں ۔ میں اسلامیہ کالج میں نیا نیا داخل ہوا تھا”
وہا ج الد ین ا حمد صاحب جو اعلٰی پائے کے نیورولوجِسٹ ہیں سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب انہوں نے اگست 2006ء میں بلاگ لکھنا شروع کیا ۔ وہا ج الد ین احمد صاحب ریاست بھوپال کے قصبہ ساگر میں غالباً 1933ء میں پیدا ہوئے گو ان کے والدین کا تعلق پنجاب سے تھا ۔ وہاں سے ہجرت کر کے ان کے خاندان نے جموں کشمیر کے علاقہ بھمبر سے منسلک پنجاب کے قصبہ کوٹلہ میں سکونت اختیار کی جہاں انہوں نے جموں کشمیر کے اس حصہ کو آزاد ہوتے دیکھا جو آجکل آزاد جموں کشمیر کا حصہ ہے ۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے ڈھائی سال صوبہ سرحد میں ملازمت کی پھر اعلٰی تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے ۔ اس کے بعد مزید تعلیم کیلئے امریکہ گئے جس کے حصول کے بعد امریکہ کے ہی ہو کر رہ گئے ۔
یہ ڈر تو ہمیں بھی لگتا ہے انکل کہ مغرب کی چکا چوند ہمارے پیروں کی زنجیر نہ بن جائے :sad:
فیصل صاحب
مغرب کی چکا چوند ہی تو نے دورِ حاضر کے مسلمانوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔
بہت شکریہ بھای اجمل
چند ترمیمات
نیورو سرجن نہین بلکہ نیورالوجسٹ ھون
میرے والدین کا تعلق پنجاب سے ھی تھا گو مین ساگر(انگریزی مین سوگر بن جاتا ھے(
مین ھی پیدا ہٰوا تھا ساگر انگریزون کے زمانے مین سی پی کا علاقہ تھا اب مدھ پردیش کہلاتا ھے گو مدھ پردیش اور سی پی کی حدود مختلف ھین
پھر شکریہ اد کرتا ھون
ممکن ھے کوی 1948 کے زمانے مین لاھور رھتے ھون تو مزید اس پر روشنی ڈال سکتے ھین
بھائی وہا ج الد ین ا حمد صاحب
عام آدمی کیلئے نیورو سرجن اور نیورولوجسٹ ایک ہی چیز ہے