ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں تین کمسن بچوں سمیت امریکی حکومت نے 30 مارچ 2003ء کو اغوا کیا اور ساڑھے پانچ سال سے غیرقانونی طور پر قید رکھ کر درندگی کا نشانہ بنا رہی ہے ۔ بچوں کی عمریں اُس وقت ایک ماہ سے چار سال تھیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ذہین ۔ محنتی اور باعمل مسلمان خاتون ہیں اور یہی جُرمِ عظیم ہے آج کی انسانی حقوق کی دلدادہ کہلوانے والی نام نہاد آزاد دنیا میں ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی فوجیوں یا ایف بی آئی والوں نے کیا کیا ظُلم نہ کئے ہوں گے ۔ اس کیلئے ماضی کی ہلکی سی جھلک
In addition, the May 10-17, 2004 issue of Newsweek said that yet-unreleased Abu Ghraib abuse photos “include an American soldier having sex with a female Iraqi detainee and American soldiers watching Iraqis have sex with juveniles.”
What also has not been revealed to the American public is that the sexual humiliation of Islamic prisoners and rape of women detainees is actually an Israeli Jewish practice used by the Zionists against the Palestinians.
. . . investigators and intelligence officers keep video tapes of the raping to blackmail the female detainees
On May 12, 2004 an Iraqi female professor revealed that U.S. soldiers in Iraq have raped, sexually humiliated and abused several Iraqi female detainees in the notorious Abu Ghraib prison. Professor Huda Shaker, a political scientist at Baghdad University, said an Iraqi young girl was raped by a U.S. military policeman and became pregnant.
صدیقی نے امریکا کی معروف یونیورسٹی ایم آئی ٹی سے وراثیات [genes] میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ۔ 2002ء میں پاکستان واپس آئیں مگر ملازمت نہ ملنے کی وجہ امریکہ ملازمت ڈھونڈنے کے سلسلہ میں دورہ پر گئیں۔ اس دوران میری لینڈ میں ڈاک وصول کرنے کے لئے پوسٹ بکس کرائے پر لیا اور 2003ء کے شروع میں کراچی ۔ پاکستان ۔ واپس آ گئیں کیونکہ وہ اُمید سے تھیں ۔ ایف بی آئی نے الزام لگایا کہ پوسٹ بکس القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے لئے کرائے پر لیا گیا ۔ امریکی ذرائع ابلاغ کو جو ہر لمحہ مسلمان دُشمن پروپیگنڈہ کیلئے تیار رہتے ہیں سنسنی پھیلانے کا موقع مل گیا اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عافیہ صدیقی کی بطور دہشت گرد تشہیر کی گئی ۔
اتوار 30 مارچ 2003ء کو عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں سمیت راولپنڈی جانے کے لئے ٹیکسی میں کراچی ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئیں مگر راستے میں پاکستانی خفیہ ادارے نے بچوں سمیت آپ کو اغوا کر کے امریکی ایف بی آئی کے حوالے کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 30 سال تھی ۔ 31 مارچ 2003ء کے مقامی اخباروں میں آپ کی گرفتاری کی خبر شائع ہوئی مگر اس وقت کے وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کسی سرکاری ادارے کی تحویل میں نہیں ہے ۔ امریکی نیٹ ورک این بی سی نے خبر لگائی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اُسامہ بن لادن کیلئے چندہ بھیجنے کے الزام میں پاکستان میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بلا جواز گرفتاری پر واویلا کرنے والی ماں بیگم عصمت صاحبہ کو خطرناک انجام کی دھمکیاں دی گئیں ۔
گمشدگی کے فوراً بعد امریکی اور پاکستانی خفیہ اداروں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی تاہم بعد میں ان کے بارے میں سرکاری سطح پر لا علمی کا اظہار کیا جاتا رہا ۔ 2 اپریل 2003ء کو فیصل صالح حیات نے بیان دیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مفرور ہے ۔ 30 دسمبر 2003ء کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ اس وقت کے ایک وزیر اعجاز الحق کو ساتھ لے کر وزیرِ داخلہ فیصل صالح حیات کے پاس گئیں تو فیصل صالح حیات نے کہا “ڈاکٹر عافیہ کو رہا کر دیا گیا ہے ۔ آپ گھر جا کر اُس کی کال کا انتظار کریں”۔
معلوم ہوا ہے کہ 2002ء میں ایف بی آئی والے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ میں تھیں تو ایف بی آئی والے اُن کے خاوند کو لے گئے تھے ۔ میاں بیوی دونوں کے متعلق چھان بین کی گئی اور کچھ ثبوت نہ ملنے پر انہیں چھوڑ دیا ۔ امریکی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاوند نے اُسے طلاق دے دی تھی اور پھر ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے خالد شیخ کے بھتیجے یا بھانجے سے شادی کرلی تھی ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور دوسرے گھر والے اسے غلط بیانی قرار دیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کا خاوند بھی ایف بی آئی کے زیرِ حراست ہے ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی خفیہ اداروں سے رہائی کی درخواست پچھلے سال 3 نومبر سے پہلے والی عدالتِ عظمٰی میں دائر کی گئی تھی جو پرویز مشرف کے 3 نومبر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے اب تک شنوائی کے انتظار میں ہے
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے مطابق انہوں نے امریکی اہلکاروں سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تو انہوں دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عافیہ کی زندگی چاہتے ہو تو اپنی زبان بند رکھو ۔ اُنہیں جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دی جاتی رہیں ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے عزیز و اقارب حالات کی ستم ظریفی کے باعث ڈاکٹر عافیہ کی واپسی سے مایوس ہو کر خاموش ہو گئے تھے ۔ پھر جولائی 2008ء کے پہلے ہفتہ میں اچانک ان کے دبے ہوئے احساس پھر بھڑک اُٹھے جب ایک برطانوی صحافیہ نے بگرام کے کنسنٹریشن سینٹر [Concentration Centre] میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا خدشہ ظاہر کیا
ایک برطانوی صحافیہ وون رِڈلی صاحبہ [Yvonne Ridley] جو انسانی حقوق کیلئے کام کر رہی ہیں افغانستان کے دورہ پر گئیں اور وہاں جیلوں میں قیدیوں کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کے دوران اُنہیں رہا ہونے والے قیدیوں نے بتایا کہ امریکیوں کے زیرِ انتظام بگرام کنسنٹریشن سینٹر جو کہ صرف مردوں کیلئے ہے میں ایک قیدی نمبر 650 عورت ہے اور رات کے وقت اُس کی چیخوں اور آہ و بقا کی آواز یں سنی جاتی ہے ۔ رِڈلی صاحبہ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت قیدی نمبر 650 وہاں 4 سال سے زیادہ عرصہ سے قید ہے ۔
کچھ دن بعد صحافیہ وون رِڈلی پاکستان آئیں اور 6 جولائی 2008ء کو عمران خان کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بگرام جیل میں موجود ایک قیدی عورت کیلئے مدد مانگی جو صحافیہ کے خیال میں پانچ سال قبل حراست میں لی جانے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہو سکتی ہیں ۔ صحافیہ نے کہا کہ وہ اُسے گرے لیڈی [Grey Lady] کا نام دیتی ہیں کیونکہ اُس پر اس قدر تشدد کیا گیا ہے کہ وہ ذہنی توازن کھو چکی ہے ۔ اور اُسے بھوت سے تشبیہ دی جس کی کوئی شناخت نہیں ہے لیکن اسکی چیخیں ان لوگوں کا پیچھا کرتی رہتی ہیں جو انہیں ایک بار سننے کا تجربہ کر چکے ہیں ۔
جولائی 2008ء کے شروع میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ اور لاپتہ افراد اور خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے قائم دیگر بین الاقوامی اداروں کو بھیجی جانے والی یادداشت میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس بات کے کافی شواہد ملے ہیں کہ بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی ہیں ۔ رپورٹ میں برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ نذیر احمد کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اس خاتون کو جیل کے عملے کی جانب سے مسلسل جنسی زیادتی کا شکار بنایا جاتا ہے اور قیدی نمبر 650 کے نام سے مشہور اس خاتون کو نہانے اور دیگر ضروریات کے لئے مردانہ غسل خانہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں پردے کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔
ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی دیگر تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ بگرام جیل کی قیدی نمبر 650 کی شناخت اور حالات کو منظر عام پر لانے کے لئے مداخلت کریں ۔ جب کچھ معلومات نجی پاکستانی ذرائع ابلاغ تک پہنچی تو چاروں طرف شور مچ گیا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے تین کمسِن بچوں کی باز یابی کا مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ اس پر امریکیوں نے نیا ڈرامہ رچایا اور 27 جولائی 2008ء کو اعلان کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 17 جولائی 2008ء کو افغانستان سے گرفتار کر کے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے تاکہ اس پر امریکی فوجیوں پر گولیاں چلانے کا مقدمہ چلایا جا سکے ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے امریکی کہانی کو ناقابلِ یقین کہا ہے اور حقیقت میں یہ کہانی بے ڈھنگ کا جھوٹ ہے ۔ کس طرح ایک چھوٹے قد کی نحیف لڑکی امریکی مسلح فوجیوں کی قید میں ہوتے ہوئے ایک فوجی سے بندوق چھین کر ان پر گولی چلا سکتی ہے ؟
ایک بے قصور تعلیم یافتہ مگر کمزور خاتون ساڑھے پانچ سال سے امریکی درندوں کے قبضہ میں ہے اور وہ اس پر بے پناہ ظُلم ڈھاتے رہے ہیں ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
مختصر سا جواب ہے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف جس نے اپنی کتاب میں فخریہ انداز میں لکھا کہ اس نے پانچ سو سے زیادہ لوگ پکڑ کر امریکا کے حوالے کئے اور ان کے بدلے میں ڈالر حاصل کئے اور اُس کے ماتحت بے غیرت اہلکار ۔
کتنی بدقسمت ہے وہ قوم جس کا صدر بردہ فروش ہو ۔ بردہ فروش کی سزا موت ہے ۔ کیا پرویز مشرف کو پانچ چھ سو بار موت کی سزا دی جائے گی ؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جو تمام پاکستانیوں کا منہ چڑھا رہا ہے ۔
کہاں ہیں حقوقِ نسواں اور محافظتِ نسواں کے نام پر تقریریں کرنے والے اور ٹی وی کیمروں کے سامنے احتجاج کرنے والے ؟
کہاں ہیں عورت کو آزادی دلانے کیلئے شور مچانے والے ؟
کہاں ہیں اسلامی قوانین کو ظالمانہ قرار دینے والے ؟
کہاں ہے وہ عاصمہ جہانگیر جو آزادی نسواں کا بلند پرچم اُٹھانے کی دعویدار ہے ؟
یہ سب کچھ صرف اسلئے کہ ایک طرف ان حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبرداروں کا اَن داتا امریکا ہے اور دوسری طرف اللہ کی بندی باعمل مؤمنہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ۔
بلاشبہ مہنگائی ۔ اور بجلی کی آنکھ مچولی سے پِٹے ہوئے عوام کی کافی تعداد اپنی تکلیف بھُول کر قوم کی ہونہار بیٹی کے غم میں مبتلا ہو کر اپنی نحیف آواز اُٹھا رہے ہیں ۔ اُمید ہے کہ یہ آواز بہت جلد زور پکڑ جائے گی ۔ جماعتی سطح پر احتجاج میں پہل قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ اور جماعتِ اسلامی نے کی ۔