Yearly Archives: 2008

کیسے کیسے لوگ

میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک جناب حمائت علی شاعر سے معذرت کے ساتھ

کیسے کیسے لوگ یہاں پہ ہمیں بیوقوف بنانے آ جاتے
اپنے اپنے ٹوٹکے ہمارے ذہن میں بٹھانے آ جاتے ہیں

میرا سب سے چھوٹا بھائی جو راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں کنسلٹینٹ سرجن اور سرجیکل یونٹ کا سربراہ ہے خاندان میں بہت عقلمند سمجھا جاتا ہے ۔ بہرکیف وہ میرا بہت احترام کرتا ہے ۔ جون جولائی 2008ء میں میرے اس بھائی نے متعدد بار مجھ سے کہا “بھائیجان ۔ آپ وقت نکال کر ٹی وی ون پر براس ٹیکس ضرور دیکھیں ۔ حقائق جاننے کیلئے زبردست پروگرام ہے “۔ پروگرام رات گیارہ بجے شروع ہوتا تھا اسلئے میں سُستی کرتا رہا ۔ ایک روز میری بڑی بہن نے لاہور سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے یہی تقاضہ کیا تو میں نے اگست میں ایک پروگرام زید حامد کا براس ٹیکس دیکھ ہی لیا ۔ اور میرا شوق بُلبلے کی طرح پھٹ گیا ۔ زید حامد صاحب جس موضوع پر بات کر رہے تھے اس کے کئی حقائق میری سرکاری ملازمت کی وجہ سے میرے علم میں تھے اور وہ یاوا گوئی کر رہے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ زید حامد صاحب کی معلومات کی بنیاد سستے اخبار اور سینہ گزٹ ہیں

۔جیسا کہ میں نے براس ٹیکس دیکھنے والوں سے سُنا ہے زید حامد صاحب کی کچھ باتیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں اس وجہ سے سامعین متاثر ہوتے ہیں لیکن متاثر ہونے کی اس سے بڑی وجہ زید حامد صاحب کا طرزِ بیان ہے جس کی وہ مہارت رکھتے ہیں ۔

زید حامد صاحب کے متعلق معلومات کیلئے یہاں کلک کیجئے اور فیصلہ خود کیجئے

عید الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر

سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما اور ہم پر اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے ۔ آمین ثم آمین

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دُعا ہاں عرض کر عرشِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رُخ گردشِ ایام کے
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لئے
صلح تھی کل جن سے اب وہ بر سر پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
اے مددگار ِ غریباں، اے پناہ ِ بے کـَساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂ بے مائیگاں
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
اک نظر ہو جائے آقا ۔ اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر
خلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں
کلام ۔ آغا حشر (1879ء)

جلی بھُنی شاعری

رمضان المبارک سے کچھ دن پہلے کا ذکر ہے ۔ کچھ دل جلے جوان بیٹھے محبت ۔ دل اور بیوفائی کی باتیں کر رہے تھے ۔ اُن کی باتیں کچھ اس طرح کی تھیں کہ میرے ذہن کا شریر حصہ متحرک ہو گیا اور جو کچھ ذہن سے اُبھرا وہ میں نے کاغذ پر لکھ کر اُن جوانوں کے سامنے رکھ دیا

تُجھے دِل دِیا تھا رکھنے کو
تُو نے بھُون کے اُسے کھا لیا
کلیجہ جو دِکھایا چِیر کے
تُو نے کچا ہی اُسے چبا لیا
میرے جسم کو کُوٹ کُوٹ کر
تُو نے قیمہ تھا اُس کا بنا دیا
پھر بھر کے میری ہی آنتوں میں
ہاٹ ڈاگ کی دُکان پہ سجا دیا
گڑھا پھر کھود کر صحن میں
میری باقیات کو تھا دبا دیا
رچا کے سوانگ مجھ سے وفا کا
میرے مکان کو بھی تو نے جلا دیا
میں کس طرح رکھوں گا یاد تُجھے
تُو نے کیا کیا مجھ سے نہیں کیا

مشکور ہوں

مالک و خالقِ حقیقی کا شکر ادا کرتا ہوں اسلئے کہ

میں آزادانہ اِظہارِ خیال کر سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ خوف کے زیرِ سایہ پَل رہے ہیں
میں صبح سویرے اُٹھ کر باہر تازہ ہوا میں سانس لے سکتا ہوں جبکہ کئی لوگوں کو تازہ ہوا میسّر نہیں
بُرائی سے میرے دِل کو ٹھیس پہنچتی ہے جبکہ کئی اِتنے سنگدِل ہیں کہ بے اثر رہتے ہیں
مجھے دوسروں کی خدمت کا موقع ملتا ہے جبکہ کئی لوگ اِس نعمت سے محروم رہتے ہیں

الحمدللہ رب العالمین

میریئٹ دھماکہ ؟

پہلے دھماکے ابھی ذہن سے محو نہیں ہو پا رہے مگر اسلام آباد میں رہنے والوں کیلئے میریئٹ ہوٹل کا دھماکہ بھُولنا بہت مشکل ہو گا ۔ اب تک کچھ حقائق اور کچھ افواہیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سب تک پہنچ چکی ہیں مگر میں ابھی تک اس گورکھ دھندے میں پھنسا ہوں کہ اس تباہی کی ذمہ داری کسی پر عائد ہوتی ہے ؟

ہوٹل کے سکیورٹی سٹاف بالخصوص گارڈز نے تو اپنا فرض خُوب نبھایا اور تعریف اور دعائے خیر کے مستحق ہیں کہ آخر وقت تک وہ ڈمپر ٹرک کے انجن میں لگی آگ کو بجھاتے رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ۔ اللہ اُنہیں جنت میں جگہ دے اور اُن کے پسماندگان پر بھی اپنی رحمتیں نازل کرے ۔ آمین

معمول سے ہٹ کر اس بار حکومت نے طالبان کی بجائے کسی تحریک جہاد اسلامی پر شُبہ ظاہر کیا ہے ۔ جس نے بھی دھماکہ کروایا وہ پاکستان کا دشمن ہے ۔ دشمن کی کاروائی کیلئے دفاعی نظام مضبوط ہونا ضروری ہے ۔ لیکن ہر دھماکہ پر دفاعی نظام غائب محسوس ہوتا ہے ۔

دھماکہ میں استعمال ہونے والی تین چیزیں ہیں ۔ ایک شخص ۔ دھماکہ خیز مواد اور گاڑی جس پر لایا گیا ۔ چوتھی مگر بڑی اہم چیز دھماکہ ہو جانے کے بعد بچانے کا عمل ہوتا ہے ۔

1 ۔ ٹرک بیریئر سے ٹکرانے کے تین چار منٹ [بقول حکومتی ترجمان 7 منٹ] بعد دھماکہ ہوا ۔ اس دوران کسی حکومتی سکیورٹی والے نے نہ ٹرک کی آگ بُجھانے کی کوشش کی اور نہ ٹرک چلانے والے تک پہنچ کر اسے دیکھنے کی کوشش نہ کی کہ تفتیش میں آسانی ہوتی

2 ۔ بتایا گیا ہے کہ اس دھماکہ میں 600 کلو گرام ٹی این ٹی اور آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا ہے ۔ اتنی بڑی مقدار میں یہ ہائی ایکسپلوسوز دھماکہ کرنے والے لوگ کہاں سے لاتے ہیں ؟ سرکاری ادارے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ایکسپلوسوز بنتے ہیں لیکن اُنہیں وہاں بننے والے گولوں اور بموں میں بھرا جاتا ہے جو کہ افواجِ پاکستان کو بھیجے جاتے ہیں ۔ کوئی ایکسپلوسِو کھُلا یا پیکٹوں میں کسی کو نہیں دیا جاتا ۔ اگر یہ درآمد کیا جا رہا ہے تو کیسے ؟ کیا یہ شک نہیں کیا جا سکتا کہ جو ٹرک افغانستان میں موجود امریکی فوج کو لاجسٹک سپورٹ دینے کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں واپسی پر ان ٹرکوں پر ایکسپلوسِوز اور دھماکہ کرنے کے دیگر آلات پاکستان بھیجے جا رہے ہیں ؟

3 ۔ ڈمپر ٹرک ۔ یہ ٹرک صرف بڑے پیمانے کی تعمیرات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ میریئٹ ہوٹل کے گرد و نواح میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تو یہ ڈمپر ٹرک اس ہائی سکیورٹی زون میں پولیس اور خفیہ والوں کی نظروں سے بچ کر کیسے آ گیا ؟ بالخصوص جبکہ اس پر بجری یا ریت کی بجائے ڈبے لدے ہوئے تھے ۔ ڈمپر ٹرک مٹی ۔ ریت ۔ بجری اور اینٹیں گرانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔

4 ۔ ہوٹل کی پانچویں منزل میں آگ لگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ فائر بریگیڈ دیر سے پہنچی اسلئے آگ پھیل چکی تھی ۔ اس کے دیر سے پہنچنے کا کیا جواز ہے ؟ پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنی مہارت کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن اس میں اُن کا قصور نہ تھا ۔ فائر ٹینڈر تو جدید ترین منگوا لئے گئے لیکن ان کے استعمال کی کسی کو تربیت نہ دی گئی تھی اور نہ ان سب کو منظم کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ ہر فائر ٹنڈرز کا عملہ خود مختار تھا جو جس کی سمجھ میں آیا اْس نے کیا ۔

آگ بجھانے میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے پاس اِنٹرسٹیج بُوسٹر پمپ ہی نہ تھے جن کی مدد سے پانچویں منزل اور اس سے اُوپر پانی پھینکا جا سکتا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب انتظامات کسی کی ذمہ داری تھی ؟ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں ؟

یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آگ بجھانے کیلئے ہیلی کاپٹر کیوں استعمال نہ کئے گئے ؟ جب کہ دو منٹ کی اُڑان پر راول جھیل موجود تھی جو پانی سے بھری ہوئی تھی ۔ کیا کوئی نشان مٹانا مقصود تھا ؟

اپنی ذمہ داری نہ نبھانے والے اہلکار سارا ملبہ کبھی طالبان ۔ کبھی جہادیوں اور کبھی مُلا پر ڈال دیتے ہیں ۔ جب تک متعلقہ ادارے اور حکمران امریکہ کی حسب منشاء الزام تراشی چھوڑ کر اپنا کام درست طریقہ سے نہیں کریں گے یہ دھماکے رُک نہیں سکتے ۔

اسلام آباد دھماکہ ۔ کچھ پریشان کُن حقائق

اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلیہِ راجِعُون

اسلام آباد کے کل کے دھماکے کے کچھ پریشان کُن حقائق ہیں مگر اس سے پہلے وقوعہ کا مختصر خاکہ ضروری ہے ۔ اربابِ اختیار کو اب دہشتگردی کے خلاف جنگ کی عینک اُتار کر شفاف عینک پہننا ہو گی تاکہ وطنِ عزیز کی تباہی میں کوشاں اصل مُجرموں تک پہنچ سکیں ورنہ “دہشتگردی کے خلاف جنگ” کے نعرے لگاتے لگاتے ۔ اللہ بچائے ۔ یہ مُلک خس و خاشاک ہو جائے گا ۔ اللہ بچائے ۔

امریکہ کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ جب سے شروع ہوئی ہے میرا وطن آئے دن آگ اور خون سے نہا رہا ہے اور انسان اور انسانیت کے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں ۔ دُکھ اس بات کا ہے کہ اس کا شکار معاشی لحاظ سے درمیانے اور نچلے طبقہ کے ہموطن ہو رہے ہیں ۔ پرائی آگ میں اپنے وطن کو جھونکنے والے حکمران پہلی ہی سوچ میں ہر دھماکہ کا ذمہ دار طالبان ۔ انتہاء پسندوں یا عسکریت پسندوں کو ٹھہرا دیتے ہیں اور بیان داغتے ہیں جو ذرائع ابلاغ کو تو چارہ مہیاء کر دیتے ہیں لیکن دھماکے پر دھماکہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔

“انتہاء پسندو ں یا عسکریت پسندوں یا دہشتگردوں سے سختی سے نبٹا جائے گا ”
“دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی”

20 ستمبر 2008ء کا سورج غروب ہوتے ہی ہم نے روزہ افطار کیا اور مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر ٹی وی لگایا کہ خبریں سُنی جائیں ۔ کچھ دیر ہی گذری تھی کہ ایک زوردار آواز سے ہم اُچھل پڑے ۔ میں گھر سے باہر نکلا کہ دیکھوں کیا ہوا ۔ کچھ پتہ نہ چلا ۔ چھوٹا بھائی مُلحقہ مکان میں رہتا ہے اسے پوچھا “یہ کیا آواز تھی ؟” وہ بولا “بہت زوردار آواز تھی ۔ ضرور کہیں قریب ہی دھماکہ ہوا ہے”۔ میں واپس آ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھا ہی تھا کہ ایک پٹی آئی “اسلام آباد میں دھماکہ”۔ پھر لمحہ لمحہ بعد خبریں آتی رہیں اور واضح ہوا کہ اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان میں محفوظ ترین سمجھا جانے والے میریئٹ ہوٹل کے گیٹ کے پاس دھماکہ ہوا ہے ۔ ہمارے گھر سے میریئٹ ہوٹل تک سیدھی لکیر کھنچی جائے تو فاصلہ ساڑھے چار یا پانچ کلو میٹر بنتا ہے ۔ بیچ میں عمارات اور درخت ہیں جو دھمک اور آواز کو جذب کر لیتے ہیں پھر بھی دھمک اتنی شدید تھی کہ دل نے کہا “یا اللہ خیر”۔

پریشان کُن حقائق

1 ۔ ایک چھوٹی گاڑی آ کر میریئٹ ہوٹل کے گیٹ پر لگے بیریئر سے ٹکرائی ۔ اس میں سے ایک شخص نکل کر چیخا

“جس نے نکلنا ہے نکل جائے ۔ تم لوگوں کے پاس صرف تین منٹ ہیں”۔

اس کے بعد سائرن کی آواز گونجی اور تین منٹ بعد ایک ڈَمپَر [dumper] ٹرک ہوٹل کے گیٹ کے سامنے رکھے کنکریٹ کے بلاکس [concrete blocks] سے ٹکرایا ۔ اُس کے انجن سے آگ نکلی ۔ پھر اُس پر لَدے ڈبوں سے شعلہ بلند ہوا اور ساتھ ہی قیامت خیز دھماکہ ہو گیا ۔ سڑک پر پندرہ فُٹ گہرا اور پچیس تیس فُٹ چوڑا گڑھا پڑ گیا اور چاروں طرف انسانی اعضاء بکھر گئے
[ترمیم ۔ چھوٹی گاڑی جو پہلے داخل ہوئی وہ بیریئر سے نہیں ٹکرائی ۔ وہ ہوٹل کی گاڑی تھی تیزی سے آئی اور ایک دم سے بیریئر کھول کے بند کر دیا گیا ۔ نکل جانے کا اعلان ہوٹل کی سکیورٹی والے نے کیا اور سائرن بھی بجایا ۔ ڈمپر ٹرک کیلئے بیریئر نہ کھولا گیا اور وہ اس ڑکرا گیا ۔ ہوٹل کی سکیورٹی والے ٹرک کی آگ بجانے کی کوشش کرتے رہے اور سب سب شہید ہو گئے]

2 ۔ دھماکے کی وجہ سے قدرتی گیس کا پائپ پھٹنا اور آگ لگنا تو عین ممکن ہے لیکن پریشان کُن حقیقت یہ ہے کہ آگ جس کمرے سے شروع ہوئی وہ پانچویں منزل [4th floor] پر ہے اور ہوٹل کے کمروں میں گیس کی سپلائی نہیں ہے کیونکہ ٹھنڈا اور گرم کرنے کا نظام مرکزی [4th floor] ہے ۔ صرف چند دن پہلے کے ایک واقعہ کا اس سے گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے ۔

جس دن امریکی ایڈمرل مائیک میولن وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی اور دیگر سے ملے تھے اُسی دن آدھی رات کے وقت امریکی سفارتخانے کا ایک بڑا سفید ٹرک میریئٹ ہوٹل آیا تھا ۔ اس ٹرک سے آہنی صندوق اُتارے گئے اور انہیں میریٹ ہوٹل کے اندر منتقل کر دیا گیا ۔ اس کاروائی کے دوران ہوٹل کے دونوں مرکزی دروازے بند کردیئے گئے تھے اور امریکی میرینز [American Marines] کے علاوہ کسی کو ٹرک کے قریب جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ یہ صندوق ان سکینرز [scanners] سے بھی نہیں گزارے گئے تھے جو کہ ہوٹل کی لابی [lobby] کے داخلی راستے پر نصب تھے ۔ ان بکسوں کو ہوٹل کی پانچویں منزل [4th floor] پر منتقل کر دیا گیا تھا ۔ ان صندوقوں میں کیا تھا ؟ ان کو اندر لیجانے کیلئے سارے سکیورٹی سسٹم کو کیوں معطل کیا گیا ؟ ان کو ہوٹل میں لیجانے کا مقصد کیا تھا ؟ کیا پانچویں منزل کے کمرہ میں آگ لگنے کا سبب ان صندوقوں کے اندر تھا ؟

3 ۔ کچھ دن قبل خفیہ والوں نے وزارتِ داخلہ کو مطلع کیا تھا کہ اسلام آباد میں خاص طور پر 20 ستمبر کو دہشتگردی کی بڑی کاروائی متوقع ہے ۔ اس کاروائی میں ایک ٹینکر استعمال ہو گا جس کے آگے ایک چھوٹی گاڑی ہو گی ۔ وزارتِ داخلہ نے اسلام آباد میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی چیکنگ شروع کر دی تھی اور خاص کر 20 ستمبر کو کوئی ٹینکر اسلام آباد داخل نہیں ہونے دیا گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کاروائی اسلام آباد کے اندر ہی سے کی گئی ۔ اتنا ہائی ایکسپلوسِو مواد [High Explosive material] کہاں سے آیا ؟

4 ۔ غیر ممالک سے آنے والے تاجر اور کارخانہ دار یا دوسرے سرمایہ کار میریئٹ ہوٹل میں قیام کرتے ہیں ۔ سرمایہ کاروں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اس ملک میں آپ کے سرمائے اور آپ کی جان کو بھی خطرہ ہے ۔ یہ سب کچھ وطنِ عزیز کو معاشی لحاظ سے تباہ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے ۔ عراق اور افغانستان کو تو فوجی طاقت سے تباہ کیا گیا جس میں تباہ کرنے والوں کا مالی کے ساتھ بہت سا جانی نقصان بھی ہوا ۔ پاکستان کو بغیر اپنی فوجی قوت کو استعمال کئے تباہ کرنے کے منصوبہ پر عمل کیا جا رہا ہے ۔

5 ۔ اطلاع واضح طور پر مل چکی تھی اور پارلمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی حفاظت پر پولیس ۔ خفیہ والے اور ٹرِپل ون بریگیڈ [Brigade-111] کے کمانڈو تعینات کر دیئے گئے تھے لیکن عوام کو بالخصوص بڑے ہوٹلوں یا دوسری عمومی جگہوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ۔

پڑے پالا مریں غریب ۔ پڑے گرمی مریں غریب
‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
میرے مولا تو ہی بتا ۔ میں کس سے کروں شکوہ
میں کدھر جاؤں تیرے سوا ۔ کس سے مدد مانگوں
‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
تو رحیم ہے کریم ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہءِ مزدور کے اوقات

موت کی تیاری

معاندانہ پروپیگنڈہ اور کج بحثی تو ہمیشہ سے ہے لیکن وطنِ عزیز میں ہموطن اپنے ہی ہموطنوں کے خلاف صرف یہ نہیں کہ معاندانہ اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں بلکہ بغیر کسی ثبوت کے اس پر بحث بھی کرتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ایک پڑھے لکھے اور بظاہر ذہین جدّت پسند شخص نے میرے داہنے بائیں اُوپر نیچے تیز و طرار جملے اس طرح مارنے شروع کئے جیسے پولیس تھانے میں کسی بے سہارا آدمی سے ناکردہ گناہ کا اقبالِ جُرم کروایا جاتا ہے ۔ میں نے اُنہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ گویا ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھے ۔ چند لمحوں میں اُنہوں نے مدعی ۔ وکیل اور مُنصف کا کردار ادا کرتے ہوئے فیصلہ بھی سُنا دیا کہ قبائلی علاقوں کے لوگ طالبان اور دہشتگرد ہیں وہ تعلیم ۔ ترقی اور عورتوں کے دُشمن ہیں انہوں نے لڑکیوں کے سکول جلا دئیے ہیں ۔

میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوا کہ میری معلومات محدود ہیں ۔ تعلیم اور سائنس کے سہارے جدید لوگ چاند اور مریخ سے ہوتے ہوئے آسمان کے پاس پہنچ گئے ہوئے ہیں اور میں ابھی تک کسی غار میں بیٹھا پتھروں سے کھیل رہا ہوں ۔ اُن پڑھے لکھے سائنسی جدّت پسند روشن خیال صاحب کے جانے کے بعد میں نے اپنا کمپیوٹر چلایا اور لگا انٹرنیٹ کھنگالنے ۔ میری تو پریشانی اور بڑھی جب میں نے دیکھا کہ تعلیمیافتہ اور باعلم ہونے کے دعویدار کئی بلاگرز کی تحاریر اور دنیا بھر کے اخبار بھی متذکرہ بالا تاءثر لئے ہوئے تھے

غیروں کو تو کیا کہنا کہ آخر غیر ہیں ۔ اپنے ہموطنوں کے باعلم ہونے کے دعویدار جدت پسند گروہ کے جاہلانہ رویّہ پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے ۔ ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ آج تک وزیرستان اور باجوڑ سمیت کسی قبائلی علاقہ میں کوئی سکول نہیں جلا اور نہ طالبان نے کوئی سکول جلایا ہے ۔ جو سکول جلے ہیں یا جلائے گئے ہیں وہ سوات کے سَیٹلڈ [settled] علاقہ میں واقع ہیں جو صوبہ سرحد کی حکومت کے زیرِ انتظام ہے جبکہ قبائلی علاقے براہِ راست وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہیں ۔ اس حقیقت سے متعلقہ وفاقی وزیر بھی متفق ہیں ۔

قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی احمقانہ جنگ میں عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں محبِ وطن اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور سب پاکستانی ہیں ۔ یہ جنگ وطن کو محفوظ بنانے کی بجائے پوری قوم کو تیزی سے تباہی کی طرف لے جا رہی ہے اور فائدہ صرف پاکستان کے دشمنوں کو ہو رہا ہے ۔

جس طرح سے وطنِ عزیز میں بے بنیاد اور معاندانہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ قوم خود اپنی قبر کھود کر اس میں دفن ہو جانے کی تیاری بڑے زور شور سے کر رہی ہے ۔

اللہ ہمارے حکمرانوں اور عوام کو بھی عقلِ سلیم عطا فرمائے اور سیدھی راہ پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین