میں بار بار کوشش کرتا ہوں کہ صُلح جُو اور ترقی پسند بن جاؤں لیکن وقفہ وقفہ سے کوئی صاحب یا صاحبہ کوئی ذکر چھیڑ کر مجھے ماضی کے راز افشاء کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ 11 روز قبل محمد شاکر عزیز صاحب نے اپنی بلکہ صرف اپنی نہیں میرے سمیت اپنے جیسے لاکھوں نہیں کروڑوں پاکستانیوں کی بِبتا بیان کی ۔
محمد شاکر عزیز صاحب کی ایک بھولی بھالی ننھی بہن نے کہا ” نوٹ تو ہم خود چھاپتے ہیں تو انھیں زیادہ سے زیادہ کیوں نہیں چھاپا جاتا تاکہ سب امیر ہوجائیں؟” ماشاء اللہ کتنا سادہ مگر بہت ہی گہرا سوال ہے ۔ محمد شاکر عزیز صاحب نے جواب دیا ” نوٹ چھاپنے سے پہلے ان کے پیچھے بطور ضمانت سونا رکھا جاتا ہے یا ڈالر یورو رکھے جاتے ہیں”۔ معاشیات کے اصول کے مطابق جواب بالکل درست ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہو رہا ۔ یہاں اثاثوں سے کئی گنا نوٹ گردش میں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ڈالر جو دسمبر 1971ء سے قبل پونے پانچ روپے کا تھا وہ اب 63 روپے کا ہے ۔ یعنی پاکستانی ایک روپے کی اصل قیمت ساڑھے سات پیسے رہ گئی ہے ۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ 1952ء میں ہمارے ایک اُستاذ کہا کرتے تھے “مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے”۔ ان کا مطلب تاریخ کا مضمون تھا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ “مسلمان ایک بِل سے دو بار ڈسا نہیں جاتا” یعنی مسلمان ایک ہی قسم کا دھوکہ ایک سے زائد بار نہیں کھاتا ۔ ہماری قوم کی اکثریت کو گذرے کل کی بات یاد نہیں رہتی اسی لئے بار بار دھوکہ کھاتے ہیں ۔
میں بھی سرکاری ملازم رہا لیکن کھُلے ذہن کے ساتھ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی بڑی کرم نوازی ہے کہ مجھے غلط کاموں سے بچائے رکھا گو اس کیلئے مجھے دنیاوی طور پر کئی مصائب جھیلنا پڑے ۔ جب بھی بات افراطِ زر کی ہو یا قومی اثاثہ کی تو میرے ذہن میں ایک مووی فلم چلنا شروع ہو جاتی ہے کہ ہمارے مُلک کے سربراہوں اور سرکاری اہلکاروں نے اصل صورتِ حال کو عوام سے مخفی رکھنے کیلئے کیا کیا جتن کئے ۔
مجھے معاشیات کے مضمون سے تھوڑا سا شغف اسلئے ہے کہ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو مکینکل انجنیئرنگ پڑھنے والوں کو معاشیات کا مضمون بھی پڑھنا پڑھتا تھا ۔ اس کے سالانہ امتحان میں ایک سوال مُلک کے اثاثہ جات اور ذمہ داریوں [Assets and Liabilities ] کے متعلق بھی ہوتا تھا ۔ اُس زمانہ میں سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے ہر ہفتے کے شروع میں ایک اطلاع نامہ [report] شائع کیا جاتا تھا جس میں پاکستان کے کُل اثاثوں اور ذمہ داریوں کا مدوار [heading-wise] میزان اور میزانِ کُل [sub-totals and grand total] دیا ہوتا تھا ۔ مجھے مکمل تو شاید یاد نہیں کیونکہ یہ اطلاع نامہ پچھلے 34 یا 35 سال سے شائع نہیں ہوا مگر اس کی موٹی موٹی مدات مندرجہ ذیل ہوتی تھیں
Statement of Assets and Liabilities
Assets
Reserves
Gold = ———-
Silver = ———
Foreign currency (owned by Government) = ———-
Other = ———
Receivable
Share on partition yet to be paid by India = ———-
Bills = ———-
Loans = ———-
Other = ———-
Total = ———-
Liabilities
Notes in circulation = ———-
Loans = ———-
Payments due = ———-
Other = ———-
Total = ———-
اصول یہ تھا کہ کُل ذمہ داریوں [Total liabilities] کو کُل اثاثہ جات [Total assets] سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے ۔ اگر کسی وقت کُل ذمہ داریاں کُل اثاثہ جات سے زیادہ ہو جائیں تو اس کا جواز بھی اس اطلاع نامہ میں لکھنا ضروری تھا ۔ اور یہ بھی لکھنا کہ صورتِ حال کو کس طرح صحیح حدود میں لایا جائے گا ۔
ہمیں جو سوال امتحان میں دیا جاتا تھا اس میں اس معاشی اطلاع نامہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے پاکستان کی مجموعی معاشی صورتِ حال پر تبصرہ کر کے بتانا ہوتا تھا کہ پاکستان معاشی لحاظ سے کیسا جا رہا ہے ؟ اور ہم مزید بہتری کیلئے کیا تجویز کرتے ہیں ۔ دسمبر 1971ء سے قبل ہمارے ملک کی معیشت اتنی مضبوط تھی کہ آپ کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں چلے جائیں تو پاکستانی کرنسی نوٹ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا ۔ 1967ء میں میں جرمنی میں تھا تو صرف آزمانے کیلئے میں ڈریسنر بنک گیا اور وہاں پاکستانی ایک روپے کے نوٹ دکھا کر کہا “مجھے اس کے بدلے جرمن مارک مل جائیں گے ؟” آفیسر نے فوراً میرے ہاتھ سے نوٹ لے کر مجھے ایک روپیہ 18 پیسے کے حساب سے جرمن مار دے دیئے ۔ اس سے قبل ہمارے ایک عزیز حج کرنے گئے تو ایک روپے کا سوا ریال ملا تھا ۔ ایک ہندوستانی روپیہ پاکستانی 80 سے 90 پیسے کا رہتا تھا ۔
یہ اطلاع نامہ جو عوام کو مُلک کی معاشی صورتِ حال سے آگاہ رکھتا تھا آج سے 34 یا 35 سال قبل حاکمِ وقت کے حُکم سے نہ صرف شائع کرنا بند کر دیا گیا بلکہ ان معلومات کو خفیہ کا درجہ دے دیا گیا ۔ اس کے بعد مصنوعی [manufactured] اعداد و شمار کے ذریعہ قوم کو بیوقوف بنانے کا عمل شروع ہوا جو موجودہ دور میں انتہائی عروج پر ہے ۔
قوم کو غلط اعداد و شمار دینے والے ان مجرموں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اس سلسلہ میں میرے ذاتی تجربات میں سے صرف ایک یہ ہے ۔ یکم جولائی 1969ء کو مجھے ترقی دے کے ایک سرکاری کارخانے کا پروڈکشن منیجر لگا دیا گیا ۔ 1970ء میں میرے جنرل منیجر کا تبادلہ ہو گیا اور ان کی جگہ دوسرے صاحب تعینات کر دیئے گئے ۔ سرکاری دفاتر اور کارخانوں میں سیاست گھُس آنے اور اعلٰی سطح کی منیجمنٹ کے غلط اقدامات کی وجہ سے پیداوار کم ہو چکی تھی ۔ پیداوار کی جو رپورٹ اُوپر بھیجی جاتی تھی اس پر میرے دستخط ہوتے تھے ۔ نئے جنرل منیجر صاحب اپنی واہ واہ کروانا چاہتے تھے ۔ اُنہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں پیداوار کی رپورٹ میں اُن پرزوں [components] کو بھی شامل کروں جو ابھی اسیمبل [assemble] ہونا تھے ۔ میں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ صرف وہ مال گِنا جاتا ہے جسے مکمل اسیمبل ہونے کے بعد حتمی طور پر [finally] آرمی انسپکٹرز [Army Inspectors] نے قبول [pass] کیا ہو ۔ دوسرے آج اگر ہم ان پرزوں کو گِن لیں گے تو کل کیا کریں گے ؟ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے میرا تبادلہ کروا دیا اور میری جگہ ایک جی حضوریہ [yes man] لگوا لیا ۔ پھر پیدا وار کی بڑھا چڑھا کر مصنوئی [manufactured] رپورٹیں بھیجی جاتی رہیں ۔ چھ سات ماہ بعد فوج کے متعلقہ محکمہ سے فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر سے ہوتا ہوا خط پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین کو آیا کہ جتنی پیداوار رپورٹوں میں دکھائی گئی ہے اس سے بہت کم ہمیں موصول ہوئی ہے اسلئے بقایا مال فوری طور پر بھیجا جائے ۔ یہ چٹھی چلتے چلتے میرے انہی جنرل منیجر صاحب کے پاس پہنچ گئی ۔ اُن جنرل منیجر صاحب کو سزا یہ دی گئی کہ اُنہیں ڈیپوٹیشن [deputation] پر سعودی عرب بھیج دیا گیا جہاں سے وہ 9 سال کے بعد کروڑ پتی بن کر لوٹے اور واپس آتے ہی انہیں ایک ترقی دے دی گئی ۔