Yearly Archives: 2008

پیشین گوئیاں

بلاشبہ مستقبل کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔

کوئی انسان نہیں بتا سکتا کہ ایک لمحہ بعد کیا ہونے والا ہے ۔ تعلیم اور تجربہ سب ہیچ ہے ۔
بڑے نامور لوگوں کی کچھ پیشین گوئیاں نقل کر رہا ہوں ۔

آئی بی ایم کے چیئرمین تھامس واٹسن [Thomas Watson] نے 1943ء میں رائے دی “میرا خیال ہے کہ پوری دنیا میں شاید پانچ کمپیوٹوں کی مانگ ہو گی”۔

ڈیک کے فاؤنڈر ۔ چیئرمین اور پریزیڈنٹ کن اولسن [Ken Olson, founder, chairman & president of DEC] نے 1977ء میں باوثوق طریقہ سے کہا “کوئی وجہ نہیں کہ کوئی اپنے گھر میں کمپیوٹر چاہے گا”۔

بِل گیٹس [Bill Gates] نے 1981 میں فیصلہ دیا “640K کے ہر ایک کیلئے کافی ہو گی”۔

مشہور مستریوں نے [Popular Mechanics] سائینس کی ترقی سے مغلوب ہو کر 1949ء میں رائے دی “مستقبل کے کمپیوٹر کا وزن 1500 کلو گرام تو ہو گا ہی”۔

ایپل کمپیوٹر کے فاؤنڈر سٹیو جابز نے نتایا کہ اپنے اور سٹیو ووزنیاک کے پرسنل کمپیوٹر دلچسپی دلانے کیلئے ہم اٹاری [Atari] کے پاس گئے اور کہا “ہمارے پاس ایک حیران کُن چیز ہے جس میں کچھ پُرزے آپ کے بنائے ہوئے بھی ہیں ۔ ہمیں فنڈ مہیا کرنے کے سلسلے میں کیا خیال ہے ؟ یا پھر ہم اسے آپ کو دے دیتے ہیں کیونکہ ہم یہ کام کرنا چاہتے ہیں ۔ ہمیں تنخواہ دے دیں ہم آپ کیلئے کام کریں گے”۔ ہمیں جواب نہیں میں ملا ۔

پھر ہم اسی خیال سے ہولٹ پیکارڈ [Hewlett-Packard] کے پاس گئے تو انہوں نے کہا “ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے ۔ تم نے تو ابھی کالج سے ڈگری بھی نہیں لی”۔

درویش اور کُتا

ماضی میں معاشرہ کا ایک اہم پہلو جو نمعلوم کیوں اور کس طرح غائب ہو گیا ۔ وہ ہے حکائت گوئی ۔ سردیوں میں چونکہ راتیں لمبی ہوتی ہیں اس لئے چھُٹی سے پچھلی رات سب لحافوں میں گھُس کر بیٹھ جاتے ۔ پلیٹوں میں خُشک میوہ لیا ہوتا اور ایک بزرگ کہانی سنانا شروع کرتے ۔ یہ بھی ایک ادارہ تھا جو نہ صرف بچوں بلکہ جوانوں کی بھی تربیت غیرمحسوس طریقہ سے سرانجام دیتا تھا ۔ کہانی چاہے جِن کی ہو یا شہزادہ شہزادی کی اسے اتنا دلچسپ بنا کر سنایا جاتا کہ خشک میوہ ہماری پلیٹوں ہی میں پڑا رہ جاتا ۔ ان سب کہانیوں میں قدرِ مشترک اس کا سبق آموز اختتام ہوتا جسے زور دے کر بیان کیا جاتا ۔

نیز ہمارے سکول اور کالج کے زمانہ میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں پڑھی اور سنائی جاتی تھیں جو پانچ چھ سال کے بچے سے لے کر بوڑھوں تک میں مقبول ہوتی تھیں اور ہر ایک کو اُس کی عمر کے مطابق محسوس ہوتی تھیں ۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور شیخ سعدی صاحب کی گلستانِ سعدی کی کہانیاں تھیں ۔ یہ کتاب فارسی زبان میں تھی اور میں نے آٹھویں جماعت [1951] میں پڑھی تھی ۔ یہی کتاب ایم اے فارسی کے کورس میں بھی تھی ۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنے ایک استاذ سے استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا “آپ کیلئے امتحان میں آٹھویں جماعت کی سطح کے سوال ہوتے ہیں اور اُن کیلئے اُن کی تعلیمی سطح کے مطابق”۔ اس کتاب کی دو کہانیاں درویش اور کُتے کی ۔

درویش اور کُتا ۔ پہلی کہانی ایک درویش کو ایک کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد کے مارے درویش کے آنسو نکل آئے ۔ اس کی ننھی بیٹی پوچھنے لگی “بابا ۔ روتا کیوں ہے ؟” وہ بولا “کُتے نے کاٹا ہے”۔ بیٹی بولی “کُتا آپ سے بڑا تھا؟” درویش بولا “نہیں ۔ بیٹی”۔ پھر بیٹی بولی” تو آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔ درویش بولا”بیٹی ۔ میں انسان ہوں اسلئے کُتے کو نہیں کاٹ سکتا”۔

آج کتنے انسان ہیں جو اپنے ہر عمل سے پہلے اُسے انسانیت کی کَسوَٹی پر پرکھتے ہیں ؟

درویش اور کُتا ۔ دوسری کہانی ایک درویش نے ایک کُتا پال رکھا تھا ۔ بادشاہ کا وہاں سے گذر ہوا تو از راہِ مذاق درویش سے پوچھا “تم اچھے ہو یا تمہارا کُتا ؟” درویش نے کہا “یہ کُتا میرا بڑا وفادار ہے ۔ اگر میں بھی اپنے مالک کا وفادار رہوں تو میں اس کُتے سے بہتر ہوں کہ میں انسان ہوں ورنہ یہ کُتا مجھ سے بہتر ہے”۔

آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے خالق و مالک کے وفادار ہیں ؟
اللہ ہمیں اصل کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔

چیف جسٹس دہشتگردوں کے حمائتی

کسی مُلک کا صدر صرف اپنی کُرسی بچانے کیلئے اخلاقی طور پر اتنا گر جائے شاید دنیا کا ہوئی راہنما ماننے کیلئے تیار نہ ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ پرویز مشرف نے ایسا کیا اور اپنے 3 نومبر 2007ء کا غیر قانونی اور غیر آئینی قدم اُٹھانے سے قبل انتہائی عیّاری اور مکّاری سے امریکی حکمرانوں کو باور کرایا کہ پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری دہشتگردو کے حمائتی ہیں ۔

پرویز مشرف نے اس کیلئے کیا طریقہ اختیار کیا ؟ یہاں کلک کر کے پڑھیئے ۔

کیا امریکا جنت نما ہے ؟

امریکا کے اندرونی حالات کے متعلق ہمارے ہموطنوں میں بہت آسودگی کا تصور پایا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا میں بے تحاشہ دولتمند [جسے میرا ایک جرمن دوست کہا کرتا تھا filthy rich] بھی بستے ہیں اور دوسری طرف دو وقت کی روٹی کے محتاج بھی ۔ اگر ایک طرف علم کی بلندیوں کو پہنچ رہے ہیں تو دوسری طرف علم کے حصول کی طاقت نہ رکھنے والے بھی ہیں ۔ فحاشی عام ہے لیکن فحاشی سے نفرت کرنے والے بھی پیدا ہو گئے ہیں ۔ میرے پاس مختلف قسم کی ای میلز آتی رہتی ہیں ۔ مگر پہلی بار ایسا ہوا کہ مجھے کسی کی ای میل کا کچھ حصہ شائع کرنے کی اجازت مل گئی ۔ یہ 50 سالہ عورت جو اصلی امریکن ہے ایک بالغ بچی کی ماں ہے اور اپنے خاوند [بچی کے باپ] کے ساتھ ہی رہتی ہے ۔

I was told by an engineer’s wife when I arrived here, to expect appliances that touch the water to be replaced every two years. That means hot water heater, washing machine….even the faucets. This last machine lasted two months longer.

I knew about the arsenic (percentage in water) but the same engineer’s wife who informed me about my appliances also let me know the arsenic levels in the water. We try to have as little as possible to do with the water. We drink and cook with bottled water.

America is misunderstood worldwide. It is not what people think it is globally. I spent a month trying to explain the school system to a woman in India who insisted that everything was free as far as education went….and wanted India to follow the footsteps of American schools. It was as if she did not believe me how the taxes are distributed as to the population of an area. I told her that those school lunches that she thinks are free….are not free….and they are so loaded with fat and salt it would make the angels cry. They make the fast food restaurants look good. If I had a choice of serving my child school cafeteria food or McDonalds…..I would take her to McDonalds and get a salad. That is not saying anything good.

Our water system has been on the books for years, for filtration……..but due to greed…..the budget never seems to be able to handle the filtration system that would take the arsenic out or at least reduce it down.

The U.S. only cares about money….not people, not resources….nothing but money. What the U.S. has forgotten about since about the 1980’s is that it is people who built the country…..and companies used to be family oriented. That is no more.

Anyway….I am tired of American lifestyles….I cannot handle much more. The stress of everything is beginning to wear on me. My own family is falling apart. My daughter is doing her own thing….My husband is so obsessed with gambling that he got a special credit card for doing it. I have no choice but to leave….and to where I do not know….but America is killing me. I have to get out of here. I have done what I can.

کیا ہو گا کیسے ہوگا

ہم لوگ ہرروز کہتے اور سوچتے رہتے ہیں کہ “یہ ہو جائے گا ۔ وہ ہو جائے گا ۔ یہ کیسے ہو گا ؟ وہ کیسے ہو گا ؟ پتہ نہیں امریکہ کیا کرے گا ؟ پتہ نہیں ہماری حکومت کیا کرے گی ؟ پتہ نہیں ہمارے مُلک کا کیا بنے گا ؟ ” ایسے وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ

سورت ۔ 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیات ۔ 26 تا 28
کہہ دو ۔ “اے اﷲ ۔ سلطنت کے مالک ۔ تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے
چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے ۔ ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے ۔ بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے ۔
تو ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور تُو ہی زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اورمُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے [اپنی نوازشات سے] بہرہ اندوز کرتا ہے”۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ اہلِ ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کے لئے اﷲ [کی دوستی میں] سے کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ تم ان [کے شر] سے بچنا چاہو ۔ اور اﷲ تمہیں اپنی ذات [کے غضب] سے ڈراتا ہے ۔ اور اﷲ ہی کی
طرف لوٹ کر جانا ہے

لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ

سورت ۔ 53 ۔ النَّجْم ۔ آیات ۔ 38 تا 41
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔
اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی ۔
اور یہ کہ اُس کی ہر کوشش عنقریب دکھا دی جائے گی ۔
پھر اُسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔

تصحیح

میں میلادُ النّبی پر اپنی تحریر میں ایک غَلَطِی کر گیا تھا اور عبات کو دوہرانے کے باوجود غَلَطِی کا احساس نہ ہوا ۔ اللہ الرحمٰن الرحیم میری خطائیں معاف کرے ۔ حیرت اس بات کی ہے کہ اسے درجنوں قارئین نے پڑھا لیکن غَلَطِی کی نشان دَہی نہ کی شاید میرے احترام میں یا مجھے مُعتبر سمجھتے ہوئے یا شاید تحریر پر خاص توجہ نہ دی ۔

میں انسان ہوں اور انسان سے کسی بھی وقت خطا ہو سکتی ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری رہنمائی فرمائے ۔ بہر حال اب میں نے تصحیح کر دی ہے اور صحیح صورتِ حال یہ ہے

فجر کی نماز کے بعد سے اشراق یعنی سورج اچھی طرح نکلنے تک ۔ سورج نصف النہار پر پہنچنے سے لے کر 30 منٹ بعد تک اور عصر کی نماز کے بعد سے مغرب کی نماز تک ا وقات میں نوافل نہ پڑھیئے ۔