Yearly Archives: 2008

بچےسب کوپیارے

سُنا کرتے تھے کہ بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں خواہ کسی کے بھی ہوں ۔ یہاں تک کہ خطرناک جانور بھی انسان کے بچوں کو گزند نہیں پہنچاتے ۔ فی زمانہ تو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ کہنے والے انسان بھی انسان کے بچوں کے دُشمن ہی نہیں قاتل بن چکے ہیں اور اسے اپنا کارنامہ گردانتے ہیں ۔ اس وحشت کی مثالیں ہر روز فلسطین ۔ عراق ۔ افغانستان اور پاکستان میں ملتی ہیں ۔ پاکستان کے دو واقعات کی یاد پر تو میرا دل روتا ہے ۔ باجوڑ ایجنسی میں ڈماڈولا کے مدرسہ پر امریکی فوج نے میزائل پھینک کر 5 اساتذہ اور 70 سے زائد طُلباء ہلاک کر دیئے تھے جن میں دو درجن سے زائد 8 سے 15 سال کے تھے ۔ جامعہ حفصہ اسلام آباد میں اپنے ہی ملک کی فوج نے چار پانچ سالہ بچیوں سمیت سینکڑوں نابالغ طالبات کو سفید فاسفورس کے بم پھینک کر بھسم کر دیا تھا ۔

ٹارزن کی کہانیاں اور مووی فلمیں بہت مشہور ہیں ۔ یہ سب ایک کہانی سے متاثر ہو کر لکھی گئیں کہ ایک بچہ کسی طرح جنگل میں رہ گیا تھا ۔ وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ پل کر جوان ہوا تو وہ سب اُس کے دوست بن گئے تھے ۔ شاید دو دہائی قبل کا واقعہ ہے کہ جنگلی مخلوق پر تحقیق کرنے والوں کو ایک جنگل میں انسان کا آٹھ دس سالہ بچہ نظر آیا اور پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ دو تین بار اسی طرح ہوا ۔ آجر ایک دن اس بچے کو پکڑ لیا گیا ۔ اُس کی سب عادات جنگلی بندروں کی سی تھیں ۔ اُس نے پکڑنے والے کو اپنے دانتوں سے کاٹ بھی لیا تھا ۔

پرانے زمانہ یعنی وہ زمانہ جسے آج کے ترقی یافتہ انسان پسماندہ کہتے ہیں کی باتیں ہی کچھ اور تھیں ۔ میری والدہ نے ہمیں سنایا تھا کہ والدہ کی نانی صاحبہ نے اُنہیں بتایا کہ میری نانی بچپن میں بہت بھولی بھالی ہوتی تھیں ۔ میری نانی کی والدہ نے ایک دن میری نانی کو دہی کھانے کیلئے دیا اور خود کام میں مصروف ہو گئیں ۔ کچھ دیر بعد اُنہیں میری نانی کی آواز آئی ۔ وہ کہہ رہی تھیں “تم کھاؤ ۔ میں بھی کھاؤں گی”۔ میری نانی کی والدہ دیکھنے کیلئے دوڑی گئیں کہ بیٹی کس سے باتیں کر رہی ہے ۔ اُنہوں نے دیکھا کہ میری نانی کے پاس ایک لمبا سا اصلی سانپ ہے ۔ وہ سانپ کا سر پکڑ کر دہی میں ڈبوتی ہے اور کہتی ہے “تو بھی کھا”۔ پھر سانپ کو چھوڑ کر کہتی ہے “میں بھی کھاؤں گی” اور خود دہی کھاتی ہے ۔ یہ عمل وہ بار بار کر رہی تھی ۔ میری نانی جان کی والدہ کچھ دیر دم بخود ہو کر دیکھتی رہیں پھر انہوں نے شور مچایا جس سے سانپ تیزی سے گھر سے باہر نکل گیا ۔ بعد میں جب میری نانی کی والدہ کے حواس درست ہوئے تو اُنہوں نے سوچا کہ اُنہیں شور نہیں کرنا چاہیئے تھا اور دیکھتے رہنا چاہیئے تھا کیونکہ سانپ تو بیٹی کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا تھا ۔

نام سےکياہوتاہے

آدھی صدی قبل اُستاذ عموماً اپنے شاگردوں کو بڑے ہو کر نام پيدا کرنے کا کہتے تھے ۔ يہ الگ بات ہے کہ بہت سے بچوں کا نام اُن کی اپنی پيدائش سے پہلے پيدا ہو جاتا ہے ۔ وڈيرے يا صنعتکار يا جرنيل یا فیڈرل سیکریٹری کا بچہ ہو تو اُسے نام پيدا کرنے کی تکليف نہيں اُٹھانا پڑتی ۔ نام خود بخود بن جاتا ہے ۔

کچھ لوگ کہتے ہيں نام سے کيا ہوتا ہے ۔ کردار ہونا چاہيئے ۔ کچھ کہتے ہيں نام بہت اہم ہوتا ہے ساری زندگی کا معاملہ ہے اور کچھ اپنی تسلّی کيلئے نجوميوں يا ہندسوں کا حساب جاننے والوں سے اپنے نام کی پڑتال کرواتے ہيں اور اسے تبديل کر ديتے ہيں ۔

ايک دُکان پر بڑا سا سائن بورڈ لگا تھا اور مالک کا نام لکھا تھا حمِير حسين ۔ حمِير جمع ہے حُمار کی اور حُمار کا مطلب ہے گدھا ۔
صوبہ سرحد کے ايک مشہور سياستدان ہوئے ہيں ۔ جارج سکندر زمان ۔ يعنی دو بڑے فاتح ايک برطانيہ والا اور دوسرا يونان والا اُن ميں سما گئے مگر وہ ہر حکومت کے تابعدار تھے ۔

عام نام ہيں اللہ داد ۔ خُدا داد ۔ يعنی اللہ نے ديا ۔ کچھ لوگوں کا نام زرداد ہوتا ہے مطلب دولت نے ديا ۔ کچھ ایسے بھی نام ہیں جوبدنامِ زمانہ ہوئے ۔ نامعلوم کن وجوہات کی بنیاد پر ان کے نام ہند و پاکستان میں مستعمل ہوئے ۔ مثال کے طور پر مردوں میں پرویز نام عام ہے ۔ یہ پرانے زمانہ میں مجوسیوں کے ایک سردار کا نام تھا جو کہ بہت ظالم اور اللہ کے وجود کا منکر تھا ۔ عورتوں میں زرینہ نام کافی مستعمل ہے ۔ روس کے بادشاہ زار کہلاتے تھے جو کہ اللہ کہ منکر تھے اور اپنی طاقت کے بل بوتے اپنی رعایا کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ درجہ نہ دیتے تھے ۔ زار کی بیوی زارینہ کہلاتی تھی جو بعد میں زرینہ بن گیا ۔

آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے ۔ ٹی وی پر کوئی نام کانوں کو بھایا تو آئیندہ آنے والے بچے یا بچی کا رکھ دیا ۔ ٹی وی ڈراموں یا مووی فلموں میں کئی نام فرضی ہوتے ہیں یا کسی نام کا بگاڑ ہوتے ہیں ۔ ثانیہ کو تانیہ کی طرح بُلایا جاتا ہے ۔ نام تانیہ ہی رکھ دیا گیا ۔ جیلانی سے گیلانی بھی اسی طرح بنا لگتا ہے ۔ مصری جیلانی کو گیلانی بُلاتے ہیں ۔

کچھ لوگ شہرت پانے والے یا والی کے نام اپنے بچوں کیلئے پسند کرتے ہیں ۔ یہ آخری استدلال اچھا ہے لیکن اس میں پرویز جیسے کرداروں کی نقل نہیں ہونا چاہیئے بلکہ نکوکاری مدِنظر ہونا چاہیئے ۔

ايک بچی کا نام رکھا گيا مذبذبين ۔ پوچھا يہ کيا نام ہے ؟ جواب ملا قرآن شريف ميں ہے ۔ کہا گيا کہ قرآن شريف ميں ابليس بھی لکھا ہے تو ناراض ہو گئے ۔ مذبذبين کا مطلب ہے تذبذب ميں رہنے والے ۔ يہ اُن لوگوں کيلئے استعمال ہوا جو دين کے بارے ميں تذبذب ميں رہتے ہيں اور بخشے نہيں جائيں گے ۔

کچھ مفکرین کا خیال ہے کہ نام انسان کے کردار پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

بلاشُبہ نام اہم ہوتا ہے ۔ والدین کو چاہیئے کہ سوچ سمجھ کر بچی یا بچے کا نام رکھیں ۔ بالخصوص وہ نام نہیں رکھنا چاہئیں جو پہلے کسی جابر یا بدکردار شخص کا رہا ہو یا جس کے معنی اچھے نہ ہوں ۔

دوست نما دشمن

ميں نے يکم مئی 1963 کوپاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ملازمت شروع کی ۔ ہم اس عہدہ پر 9 لوگ بھرتی ہوئے تھے ۔ کام سے شناسائی کيلئے ہميں مختلف فيکٹريوں ميں بھيج ديا گيا ۔ تين ہفتے بعد ايک ساتھی کا ٹيليفون آيا کہ جلدی سے ميرے پاس آؤ ضروری کام ہے ميں خود آ جاتا مگر اس وقت ميرے علاوہ کوئی ميرا کام ديکھنے والا نہيں ۔ ميرے باس اُس وقت موجود نہ تھے سو میں نے دوسرے آفسر کو بتايا اور چلا گيا ۔ جونہی ميں وہاں پہنچا وہ شخص يہ کہہ کر اپنے دفتر سے تيزی سے نکل گيا کہ آپ بيٹھ کر چائے پئيں ميں دو منٹ ميں آيا۔ پانچ منٹ بعد ميں نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو بلايا اور کہا جاؤ ديکھ کر آؤ [نام] صاحب کہاں ہيں ۔ اُس نے واپس آ کر بتايا ساتھ والے دفتر ميں ٹيليفون پر بات کر رہے ہيں ۔ تھوڑی دير بعد وہ صاحب آئے اور ميں ناراضگی کا اظہار کر کے بغير چائے پئے واپس آ گيا ۔

واپس پہنچنے پر پتہ چلا کہ ميرے باس آ گئے ہيں اور ياد فرمايا ہے ۔ ميں گيا تو اُنہوں نے پوچھا کہ کہاں تھے ؟ ميں نے بتايا کہ بيس منٹ پہلے ايک ساتھی [نام] نے بلايا تھا اُس کے پاس گيا تھا ۔ باس نے کہا کہ ديکھو اجمل اس کو دوست نہ سمجھنا ۔ دس منٹ بارہ پہلے مجھے تمہارے اسی دوست کا ٹیلیفون آيا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ميں ايک گھنٹے سے اجمل کو ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ مجھے نہيں ملا ۔ ميں نے اسے بہت ضروری پيغام دينا ہے ” ۔

زندگی کیا ہے ؟

زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ ہے ۔ اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے ۔

کچھ لوگ اپنی خوشی کو دوسروں کی خوشی پر مقدّم رکھتے ہیں اور کچھ دوسروں کو خوش رکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دُکھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں اور کچھ دوسروں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں ۔ ان میں سب سے اچھے بلکہ خوش قسمت وہ ہیں جو دوسروں کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔ اُن کی صحت ٹھیک رہتی ہے اور وہ اطمینان کی نیند بھی سوتے ہیں ۔

ستم ظریفی دیکھیئے کہ عام طور پر انسان اپنی خوشی تو اپنی محنت کا ثمرہ گِنتا ہے اور دُکھ ملے تو اسے اللہ کی مرضی کہہ کر فارغ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ کہ خالق نے اپنی مخلوق کو دُکھ دینے کیلئے پیدا نہیں کیا ۔ دُکھ اور تکلیف انسان کی اپنی کوتاہیوں اور غلط سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے ہر وقت ایک ہی موسم رہے یا ہر وقت دن یا ہر وقت رات رہے تو زندگی اجیرن ہو جائے ۔ اگر بیماری نہ آئے تو صحت کی قدر نہ ہو ۔ تکلیف نہ آئے تو آسائش کا احساس جاتا رہے ۔ غُربت نہ ہو تو دولت بے قدر ہو جائے ۔ کوئی بے اولاد نہ ہو تو اولاد کی اہمیت نہ رہے ۔ امتحان نہ ہو تو محنت کون کرے ۔

سب سے قیمتی وہ لمحہ ہے جو بلا روک ٹوک گذر جاتا ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے ۔

دولت کو اہمیت دینے والے اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں ۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے “دولت ہاتھ کا مَیل ہے ۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کر دو”۔ دولت نہ خوشی خرید سکتی ہے نہ اطمینان اور نہ صحت ۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار بھرے گھر اُجڑتے دیکھے ہیں اور کئی ایسے انسانوں کے پاس دولت کی ریل پیل آتے دیکھی ہے جن کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی ۔ دولت آنی جانی چیز ہے اس پر بھروسہ نادانی ہے ۔

میں نے ایسا آدمی بھی دیکھا ہے جو دولت کے انبار لئے پھر رہا تھا کہ کوئی سب لے لے اور اُس کے بیٹے کو صحت و زندگی بخش دے ۔

عرصہ گذرا میرے ایک واقفِ کار ایک تبلیغی ٹولے کے ساتھ امریکہ گئے ۔ ان لوگوں نے ایک بڑے اور ترقی یافتہ شہر کی انتظامیہ سے شہر سے باہر خیمہ لگانے کی اجازت لی اور بیان و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ مغرب کے بعد جب پورا گروہ خیمے میں اکٹھا ہوتا تو قرآن شریف کی تلاوت اور ترجمہ عشاء کے کافی بعد تک ہوتا ۔ اس دوران روزانہ دو اُدھڑ عمر گورے امریکن پیدل سیر کرتے ہوئے وہاں سے گذرتے ۔ ایک دن اُنہوں نے بیٹھ کر سننے کی اجازت مانگی جو بخوشی دے دی گئی ۔ حالانکہ تلاوت عربی میں ہو رہی تھی اور تفسیر اُردو میں لیکن وہ دونوں بڑے انہماک سے سُنتے رہے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لیٹ کر سو گئے ۔ گروہ کے دو آدمیوں نے اپنے سلیپِنگ بیگ ان پر ڈال دئیے اور خود کوٹ وغیرہ پہن کر سو گئے ۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد گروہ کے آدمی اپنے تبلغی دورے پر چلے گئے اور ایک آدمی کو ان دو امریکیوں کی دیکھ بھال کیلئے چھوڑ گئے ۔ 9 بجے کے بعد جب سورج بلند ہوا اور ان پر دھوپ آئی تو وہ دونوں جاگ اُٹھے اور حیران ہوئے کہ وہ زمین پر سوئے ہوئے تھے ۔ شام کو وہ جلدی آ گئے اور کہنے لگے “یہ جو کچھ تم پڑھتے ہو ہمیں بھی سکھاؤ گے ؟” اُن کو بتایا گیا کہ گروہ میں سے ایک شخص ہے جو انگریزی میں ترجمہ اور تفسیر کرتا ہے ۔ وہ کہنے لگے “ہم دونوں بِلینیئر [Billionaire] ہیں ۔ آپ ہماری ساری دولت لے لیں اور ہمیں یہ علم سِکھا دیں”۔ اُن سے کہا گیا “سِکھانا تو ہمارا فرض ہے ہم اس کیلئے کوئی معاوضہ نہیں لیں گے مگر آپ اتنی ساری دولت لُٹانے پر کیسے آ گئے ہیں ؟” امریکیوں میں سے ایک بولا ۔ میرے گھر میں ہر آسائش موجود ہے آرام دہ کمرہ اور بہت آرام دہ بستر ۔ موسیقی ۔ سب کچھ مگرہمیں نیند نہیں آتی ۔ ہم ڈاکٹروں سے مشورہ لیتے ہیں ۔ پِلز [Pills] بھی کھاتے ہیں ۔ یہ سیر بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ نیند آ جائے لیکن تقریباً ساری ساری رات جاگتے ہیں اور صبح جسم تھکاوٹ سے چور ہوتا ہے ۔ رات ہم 11 گھنٹے سے زیادہ سوئے ۔ سردی میں گھر سے باہر اور سخت زمین پر ۔ ہماری دولت کس کام کی جو ہمیں چند گھنٹے روزانہ کی نیند بھی نہیں دے سکتی ؟” وہ امریکن روزانہ تلاوت اور انگریزی ترجمہ سُنتے رہے اور تبلیغی گروہ کے وہاں قیام کے دوران ہی اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے نام کر دی اور اسلام قبول کر لیا ۔

ساس بہو یا نند بھابھی کا رشتہ بہت اُلجھاؤ والا ہے ۔ کہیں ایک قصور وار ہوتی ہے اور کہیں دونو ۔ اللہ میری بڑی خالہ جو کہ میری ساس بھی تھیں کو جنت میں جگہ دے ۔ میں نے اُنہیں ایک خاتون کو جو اپنی بہو کی بدتعریفی کر رہی تھی کہتے سُنا ۔ دو عورتوں کی کئی سال بعد ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسری سے اس کے داماد کے متعلق پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ “داماد بہت اچھا ہے دفتر جانے سے پہلے میری بیٹی کیلئے ناشتہ تیار کر کے جاتا ہے پھر دفتر سے آ کر میری بیٹی کے کپڑے استری کرنے کے بعد فٹا فٹ کھانا پکا لیتا ہے اور بیوی کو ساتھ لے کر سیر کرنے جاتا ہے ۔ واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں اور برتن دھو کر سوتا ہے ۔ پھر اس عورت نے بیٹے کا پوچھا تو کہنے لگی “وہ بچارا تو مشکل میں ہے ۔ تھکا ہارا دفتر سے آتا ہے اور بچے سنبھالنا پڑتے ہیں”۔ عورت نے پوچھا “بہو کہاں ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا “کھانا پکا رہی ہوتی ہے”۔ پھر عورت نے پوچھا “تمہارے گھر کا باقی کام کون کرتا ہے ؟” تو منہ بنا کر جواب دیا “بہو کرتی ہے”۔

ہمیشہ کام آنے والی اور قابلِ اعتماد صرف دو چیزیں ہیں ۔
ایک ۔ علمِ نافع سیکھنا ۔
دوسرا ۔ وہ عمل جس سے دوسرے کو بے لوث فائدہ پہنچایا جائے ۔

سیکھنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے میرے دادا جان کو کہا کرتے تھے “جس نے سیکھنا ہو وہ گندی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو وہ عطّار کی دُکان پرساری عمر بیٹھ کر بھی خُوشبُو کی پہچان نہیں کر پاتا”۔

سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

محنت کامیابی کی کُنجی ہے ۔ محنت کا پھل مِل کر رہتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو منصوبے تو بہت بناتے ہیں مگر عملی طور پر کرتے کچھ نہیں ۔ ان کی مثال یوں ہے

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

خوش فہمی میں رہنا اچھی بات نہ سہی لیکن ہر چیز یا بات کا روشن پہلو دیکھنے سے انسان نہ صرف خود اپنی صحت ٹھیک رکھتا ہے بلکہ دوسرے بھی اُس کو زبان سے نہ سہی لیکن دلی سچائی میں اچھا سمجھتے ہیں ۔ ہاں حسد کریں تو الگ بات ہے مگر حسد سے اپنا خُون جلانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بچپن سے مندرجہ ذیل شعر میرے مدِنظر رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کی روشنی میں جد و جہد کی اور اللہ کے فضل سے کبھی محروم نہیں رہا ۔

تُندیِٔ بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

یقینِ محکم عملِ پیہم پائے راسخ چاہئیں
استقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو

یہ آخری شعر میں نے علامہ اقبال کے شعر میں ترمیم کر کے بنایا تھا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا [1953]

جو بات کسی کو بھولنا نہیں چاہیئے یہ ہے کہ پیٹ بھرنا انسان کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے تحت انسان ظُلم ۔ جُرم اور گناہ بھی کرتا ہے لیکن پیٹ سونے ۔ چاندی یا ہیروں سے نہیں بلکہ گندم ۔ چاول ۔ مکئی ۔ سبزی پھل یا گوشت سے بھرتا ہے ۔

انسان بہتر یا جانور

میں نے 2 اپریل کو درویش اور کُتا کے عنوان کے تحت شیخ سعدی صاحب کی لکھی دو کہانیاں نقل کی تھیں ۔ جو کچھ آجکل دیکھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ آجکل انسان اور جنگلی جانور کے خصائل اگر آپس میں بدل نہیں گئے تو گڈ مڈ ضرور ہو گئے ہیں ۔

نیچے دی ہوئی تصاویر دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ آج کا انسان اچھا ہے یا جانور ؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  

  

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

لمحۂِ فکریہ

لمحۂِ فکریہ
پچھلے پانچ دنوں میں جو ناگہانی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں انہوں نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہر طرف سے پِٹے ہوئے پاکستانی عوام کو جو جمہوریت اور یکجہتی کا سندیسہ دیا گیا تھا اُس کی تعبیر کو روکنے کیلئے سازشیں زور شور سے جاری ہیں ۔

سندھ کی نئی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں دروازے کا شیشہ توڑ کر اس میں ہاتھ ڈال کر کُنڈی کھول کر زبردستی داخل ہونا ۔
اسمبلی کے اجلاس کے دوران بے جا نعرے اور ہُلڑبازی
سابق وزیرِ اعلٰی کے ساتھ بدتمیزی
دوبارہ سابق وزیرِ اعلٰی کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی بلکہ اُن کی پٹائی جس میں جوتیاں بھی استعمال کی گئیں
منگل 8 اپریل کو لاہور میں سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد
بُدھ 9 اپریل کو پورے کراچی میں بلوے ہوئے

اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں سابق وزراء کا کردار بہت ہی غلط رہا اور وہ ناپسندیدہ اشخاص میں شامل ہو گئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو کچھ ہوا کیا وہ انسانیت کے کسی کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے ؟
یا اسے ابھی تک نا مکمل سیاسی حکومت یا وکلاء کے کھاتہ میں ڈالا جا سکتا ہے ؟

کراچی میں سندھ اسمبلی کے واقعات

کراچی ارباب غلام رحیم کے ساتھ پہلے دن کے واقعہ پر تو کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اسمبلی کی عمارت میں گھُس آئے تھے اور اُن میں سے کچھ نے بدتمیزی کی لیکن دوسرے دن جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ بدتمیزی اور غُنڈاگردی کی گئی اُس کا سوائے اسکے کیا جواز ہے کہ کوئی طاقت ہے جو رنگ میں بھنگ ڈالنے کا جامع منصوبہ رکھتی ہے ۔

لاہور کے 8 اپریل کا واقعہ

کیا 18 فروری کے بعد اور 8 اپریل سے قبل ڈاکٹر شیر افگن لاہور نہیں آئے تھے ؟
وہ ایک ذاتی کام کے سلسلہ میں اپنے وکیل سے ملنے گئے اس کا علم مخالفین کو کیسے ہوا ؟
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کمال اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر کی ہاتھ جوڑ کر التجائیں ہجوم پر اثر نہ کر سکیں تو اعتزاز احسن کو بلایا گیا ۔
وہ وکلاء جو انور کمال ۔ منظور قادر اور اعتزاز احسن کا ہر مشکل سے مشکل مشورہ خندہ پیشانی سے مانتے چلے آرہے تھے ۔ اُن کے کپڑے پھٹتے رہے جسم لہو لہان ہوتے رہے اوراپنے رزق کو داؤ پر لگا کر انور کمال ۔ منظور قادر اور اعتزاز احسن کے ماتحت متحد رہے اور کسی املاک کو یا انسان کو نقصان نہ پہنچایا ۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اعتزاز آحسن سمیت اپنے تینوں رہنماؤں کی ہاتھ جوڑ کر کی گئی التجائیں ٹھُکرا دیں ؟
اعتزاز احسن نے پاکستان بار ایسوسی ایشن کی صدارت سے اور منظور قادر نے لاہور بار ایسوسی ایشن کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا مگر تشدد کرنے والوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اسلئے کہ وہ وکلاء نہیں تھے ۔

سوال پیدا ہوتاہے کہ
پولیس کو جائے واردات پر پہنچنے میں 3 گھنٹے کیوں لگے جب کہ یہ واقعہ لاہور شہر کے وسط میں ہوا اور کوئی سڑک بند نہ تھی ؟
تین گھنٹے بعد بھی پولیس کی بہت کم نفری بھیجی گئی ۔
اعتزاز احسن کی زیادہ پولیس بُلانے کی درخواست پر کوئی عمل نہ کیا گیا ۔
سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کی بنوائی ہوئی اِیگل سکواڈ کہاں تھی جو مخالف سیاسی جماعتوں اور وکلاء مظاہرین پر تشدد کرنے کیلئے پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جایا کرتی تھی ؟
ریسکیو 1122 یا ایگل سکواڈ کی بجائے ڈاکٹر شیر افگن کو لیجانے کیلئے ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولنس کیوں بلائی گئی جس کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اورجسے آسانی سے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ؟
جس آدمی نے ایدھی ایمبولنس کے اندر ڈاکٹر شیر افگن کی پٹائی کی وہ ایمبولنس کے ڈرائیور والے حصہ میں تھا ۔ ڈرائیور کہاں تھا اور ڈرائیور والے حصہ کو کھُلا کیوں چھوڑا گیا تھا ؟
پولیس افسروں کی یقین دہانی پر کہ پولیس کی کافی نفری سادہ کپڑوں میں موجود ہے اور یہ کہ کوئی شخص ڈاکٹر شیر افگن کو گزند نہیں پہنچا سکے اعتزاز احسن ڈاکٹر شیر افگن کو لے کر آئے ۔
جن لوگوں نے ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد کیا وہ سب سادہ کپڑوں میں تھے ۔ ڈاکٹر شیر افگن کو بچانے کی کوشش میں اعتزاز احسن ۔ دوسرے دو رہنما اور دیگر وکلاء خود بھی دھکے اور تھپڑ کھاتے رہے ۔ ان کی مدد صرف دو پولیس والوں نے کی ۔
کیا ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد کرنے والے سادہ کپڑوں میں لوگ ہی ایجنسیوں کے آدمی تھے ؟
کیا پولیس بھی اس سازش کا حصہ تھی ؟

یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ چکی ہے کہ جو ہجوم لاہور میں جمع ہوا اُس میں کم از کم آدھے لوگ وکیل نہیں تھے کیونکہ جب اعتزاز احسن نے کہا کہ سب وکلاء حلف کیلئے ہاتھ اُوپر اُٹھائیں کہ وہ ڈاکٹر شیر افگن کو کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے تو ہاتھ اُٹھانے والوں کی تعداد ہجوم کے 50 فیصد سے زیادہ نہ تھی ۔

کراچی کے 9 اپریل کا واقعہ

سٹی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی جانب سے جنرل باڈی کا اجلاس ہو رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں نے مظاہرہ کیا اور نعرے لگاتے ہوئے بار میں گھُس گئے جہاں وکلاء کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ کورٹس جاتا رہتا ہوں ۔ وہاں بار روم کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے کہ وکلاء کے علاوہ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ۔ مظاہرہ کرنے والے ایم کیو ایم کے لوگ ایل ایل بی ہونگے لیکن وکیل نہیں تھے کیونکہ وہ ملازمت پیشہ تھے اور کسی وکیل کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ وکلاء نے ایم کیو ایم کے آدمیوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی جس پر جھگڑا ہوا اور ہاتھا پائی بھی ۔ بعد میں پولیس پہنچ گئی اور احتجاج کرنے والوں کو باہر نکال دیا ۔ سمجھا گیا کہ معاملہ ختم ہوگیا ۔

تھوڑی ہی دیر بعد نقاب پوش کہیں سے وارد ہوئے اور بار پر فائرنگ شروع کر دی ۔ وکلاء نے بھاگ کر جانیں بچائیں ۔ ان حلمہ آوروں نے بار اور لائبریری کو آگ لگا دی ۔ اس کے بعد سٹی کورٹس کے قریب طاہر پلازہ جس میں کئی وکلاء کے دفتر ہیں میں کچھ وکلاء کے دفاتر کو آگ لگا دی جس کے نتیجہ میں 2 خواتین سمیت 6 لوگ زندہ جل کر مر گئے ۔ ملیر کورٹس پر بھی حملہ ہوا اور کراچی میں پرانے شہر سے لے کر نارتھ کراچی تک فائرنگ ۔ بلوے اور آگ لگانے کی وارداتیں شروع ہو گئیں ۔ ایک بنک ۔ کئی دوسری عمارتوں کے علاوہ سٹی بار ایسوسی ایشن کے ایک رہنما نعیم قریشی کی ملکیت ایک گھر اور گاڑی کو بھی آگ لگا دی گئی ۔ درجن بھر انسان ہلاک اور دو درجن کے قریب زخمی ہوئے ۔ 4 درجن کے قریب گاڑیاں جلا دی گئیں ۔
کیا یہ سٹی کورٹ میں ہونے والی وکیلوں کی جھڑپ تھی ؟

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اس سارے غدر کو وکلاء کے سر منڈنے کی کوشش کی ۔ کیا اس سب کو وکیلوں کی لڑائی کہا جا سکتا ہے ؟
کیا یہ مانا جا سکتا ہے کہ سال سے زائد عرصہ ریاستی تشدد کے باوجود منظم تحریک چلانے والے وکلاء آن کی آن میں ایسے بگڑ جائیں کہ تصادم تو سٹی کورٹس میں ہو اور پورا کراچی بلوائیوں کا اکھاڑا بن جائے ؟
وکلاء اتنی سُرعت کے ساتھ سارے کراچی میں کیسے پھیل گئے اور کیا وہ اتنا سازو سامان رکھتے ہیں ؟

نقاب پوش کہاں سے آئے اور کس نے بھیجے تھے ؟
سٹی ایڈمنسٹریشن کہاں تھی جو زیادہ تر ایم کیو ایم ہے ؟
جل کر مرنے والے اور گولیوں سے مرنے والوں میں ایک بھی ایم کیو ایم کا نہیں ۔ زخمیوں میں بابر غوری اور فاروق ستار نے 6 ایم کیو ایم کے بتائے جس کی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ۔ اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو باقی لوگوں کو کس نے مارا اور زخمی کیا ؟
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ماریں بھی وہی اور مریں بھی وہی ؟

کیا مندرجہ بالا واقعات سے آنے والی حکومت یا وکلاء کو کسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہے ؟
نہیں بالکل نہیں ۔ بلکہ وکلاء کی ساکھ کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے ۔
وکلاء کے نظم و ضبط کا ثبوت پچھلے ایک سال میں وکلاء کی منظم تحریک ہے ۔

پھر کون ہو سکتا ہے جو بدتمیزی اور تشدد کے یہ ڈرامے ڈائریکٹ اور پروڈیوس [direct and produce] کر رہا ہے ؟

ماضی قریب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دموں پر ہونے والی حکومت اعلان کرتی کہ فلاں علاقہ میں اتنے دہشت گرد گھُس گئے ۔ اُس کے بعد دھماکہ ہوتا اور اس کا ذمہ دار پاکستان کے قبائلیوں یا القاعدہ کو ٹھہرا دیا جاتا ۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موزوں اسلحہ سے لَیس ایک لاکھ اَسی ہزار پاکستانی فوجی متعیّن ہیں ۔ انسان تو کیا چوپائے بھی بغیر پرویز مشرف کی اجازت کے نہ قبائلی علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں نہ وہاں سے باہر جا سکتے ہیں ۔

سندھ اسمبلی کی حلف برداری سے ایک دن قبل وزارتِ داخلہ کی طرف سے [بغیر نئے وزیرِ اعظم کی منظوری کے] اعلان کیا گیا کہ سابق وُزراء کی جان کو خطرہ ہے ۔ جو نام لئے گئے تھے ان میں ڈاکٹر شیر افگن اور ارباب غلام رحیم شامل تھے ۔

مندرجہ بالا حقائق ہر محبِ وطن پاکستانی کو دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں کہ کون ہے جو پاکستانیوں کو محروم رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان کے بخیئے اُدھیڑنے پر تُلا ہے ؟

صرف تین ہی نام ذہن میں آتے ہیں ۔ پرویز مشرف ۔ ایم کیو ایم اور گجرات کے چوہدی برادران ۔

ساحل کی ہوا

ثانیہ رحمان صاحبہ نے سعدیہ سحر صاحبہ کی ایک نظم نقل کی ۔ اسے پڑھنے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں کچھ الفاظ اُبھرے تھے جو میں نے وہاں تبصرہ کے خانہ میں لکھ دئیے تھے ۔ میں شاعر تو نہیں ہوں ۔ یونہی الفاظ کا جوڑ توڑ کر لیتا ہوں ۔ وہ الفاظ یہاں نقل کر رہا ہوں

میں جب دیکھتا ہوں ساحل کی ہوا
اِک نئی سحر کا سندیسہ ہے ملتا
کہ اب رُخ بدل چکی ہے بادِ سموم
اب زمیں سے نئی کونپلیں پھوُٹیں گی
جو پہلے کلیاں پھر وہ پھول بنیں گی
میرے وطن پہ ایک بار پھر آئے گی بہار
مسرت کی لہر پھر ہر طرف دوڑ جائے گی