Yearly Archives: 2008

موت اور اللہ کی مدد

اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جو پیدا ہو ا وہ زُود یا بدیر مر بھی جائے گا اور یہ بھی کہ موت کا وقت مقرر ہے ۔ میں موت کا فلسفہ نہیں بلکہ اپنے صرف دو مشاہدات رقم کرنا چاہتا ہوں ۔

پچھلے دنوں ہمارے ایک رشتہ دار جو اسلام آباد جی ۔ 10 میں رہتے ہیں کسی کام سے اپنی کار پر ترنول گئے ۔ ترنول اُن کے گھر سے 20 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ کام ختم ہونے تک دوپہر ہو گئی تھی ۔ کار میں سوار ہونے سے قبل وہ سڑک کنارے کسی سے اپنے موبائل پر بات کر رہے تھے کہ اچانک گر پڑے ۔ ایک راہگذر نے دیکھ لیا اور اپنی کار کھڑی کار کے اُن کا موبائل پکڑ کر جس نمبر پر بات ہورہی تھی ملا کر پوچھا “ابھی آپ کی جن سے بات ہو رہی تھی اُن کا نام کیا ہے اور وہ آپ کے کیا لگتے ہیں ؟” جواب ملا “راجہ محمد نواز اور میرے رشتہ دار ہیں”۔ اُس شخص نے کہا “میں راجہ صاحب کو لے کر پمس جا رہا ہوں آپ فوری طور پر پمس پہنچیں”۔ وہ شخص مری میں تھا چنانچہ اُس نے اسلام آباد میں ان کے گھر ٹیلیفون کر دیا ۔ اتفاق سے اُن کا چھوٹا بیٹا کوئٹہ سے آیا ہوا تھا ۔ وہ آدھے گھنٹہ کے اندر پمس پہنچ گیا ۔ جو شخص راجہ محمد نواز صاحب کو لے کر آیا تھا جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ اپنی کار پر گئے تھے تو وہ نمبر پوچھ کر گیا اور ان کی کار لے کر ہسپتال پہنچ گیا اور بغیر شکریہ وصول کئے چلا گیا ۔ وہ اجنبی اپنا فرض ادا کر گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ راجہ محمد نواز صاحب اگلے دن راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ نواز صاحب میری بھانجی کے سُسر تھے ۔ بہت ہی خوش اخلاق شخص تھے ۔ اللہ جنت میں مقام دے ۔

دوسرا واقع ان دنوں کا ہے جب شاہراہ کشمیر صرف اکیہری سڑک تھی ۔ ایک صاحب راولپنڈی کی طرف سے اسلام آباد آ رہے تھے ۔ شاہراہ کشمیر پر اُنہوں نے ایک کار سڑک کے کنارے کھڑی دیکھی جس کا بونٹ کھلا تھا اور ایک خوش پوش شخص جھُکا ہوا انجن کو دیکھ رہا تھا ۔ وہ اپنی کا ایک طرف کھڑی کر کے اس کی مدد کو گیا اور کہا ” کیا ہوا ؟ میں کچھ آپ کی مدد کر سکتا ہوں ؟” جھکا ہوا شخص سیدھا کھڑا ہو کر کہنے لگا “پتہ نہیں اچانک انجن بند ہو گیا ہے”۔ اُس شخص نے کار میں بیٹھ کر چابی گھمائی تو کار سٹارٹ ہو گئی ۔ وہ باہر نکل آیا اور کہا”جناب آپ کی کار تو بالکل ٹھیک ہے”۔ یہ کہہ کر وہ اپنی کار کی طرف جانے کیلئے پلٹا ہی تھا کہ وہ شخص اچانک اپنی کار کے بونٹ پر گر پڑا ۔ اس نے بھاگ کر اسے سنبھالا ۔ اُس کی کار کی تلاشی لی تو اسے وزٹنگ کارڈ مل گئے ۔ اس کا نام ظفر تھا اور وہ اسلام آباد ایف ۔ 10 گلی نمبر 40 میں رہتا تھا ۔ ظفر صاحب کو اپنی کار میں ڈالا اور اس کی کار کو بند کر کے ہسپتال کی طرف روانہ ہوا ۔ ہسپتال پہنچ کر معلوم ہوا کہ ظفر صاحب وفات پا چکے ہیں ۔ ضروری کاروائی کے بعد ظفر صاحب کے گھر گیا اور بتایا کہ “ظفر صاحب کی راستہ میں طبیعت خراب ہو گئی تھی اُنہیں ہسپتال داخل کرا دیا ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو بھیجیں جو اُن کی کار لے آئے”۔ ظفر صاحب سے میری ملاقات طرابلس لبیا میں ہوئی ۔ وہ لیبی ایئرلائین میں پائلٹ تھے ۔ اچھے ملنسار آدمی تھے اللہ جنت نصیب کرے ۔

کوئی شخص بیمار پڑا ہو یا کسی حادثہ میں شدید زخمی ہو جائے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ وجہ بیماری یا حادثہ ہے ۔ لیکن کئی بھلے چنگے آدمی بھی ایک لمحہ میں مُلکِ عدم کو سُدھار جاتے ہیں ۔ اسے جدید زبان میں کارڈِیئک اریسٹ کہہ دیا جاتا ہے ۔ میں نے اُوپر دو واقعات بیان کئے ہیں ۔ میری والدہ تو تین دن بے سُدھ رہ کر اللہ کو پیاری ہوئیں لیکن میرے دادا ۔ پھوپھی اور بڑی خالہ گھر میں بیٹھے باتیں کرتے اچانک چلتے بنے تھے ۔ ہر جاندار نے مرنا ہے اور جانداروں کے علاوہ بھی جو کوئی چیز ہے اُس نے بھی فنا ہو جانا ہے ۔ انسان کو ہر وقت اپنی موت کیلئے تیار رہنا چاہیئے یعنی غلط کام چھوڑ کر اچھے کام کرنا چاہئیں کیونکہ موت کبھی بھی آ سکتی ہے ۔

سُورت 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیت 185 ۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَة ُالْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو ۔ کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتشِ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ رہی یہ دنیا تو یہ ایک ظاہر فریب چیز ہے

سُورت 21 ۔ الْأَنْبِيَآء ۔ آیت 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ ہم بطریقِ امتحان تم میں سے ہر ایک کو بُرائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے

سُورت 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیت 57
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ پھر تُم سب ہماری طرف ہی پلٹا کر لائے جاؤ گے

سُورت 55 ۔ الرَّحْمٰن ۔ آیت 26
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
ہر چیز جو زمین پر ہے فنا ہو جانے والا ہے

غیرت مند لوگ

ایک بہت پُرانا واقعہ ہے جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں بس پر راولپنڈی سے لاہور جا رہا تھا ۔ راستہ میں بس گوجرانوالا رُکی تھی اور میں بس چلنے کی انتظار میں وہاں ٹہل رہا تھا کہ ایک آٹھ دس سالہ لڑکا آ کر کہنے لگا “آپ پالش کروائیں گے ؟” ۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ مایوس ہو کر چل پڑا ۔ میں نے دیکھا کہ پالش کرنے والا نہیں لگتا تھا ۔ اس کے تھیلے پر نظر ڈالی تو اُس کے اندر کاپیاں کتابیں محسوس ہوئیں ۔ میں نے اُسے بُلایا اور پوچھا ” تمہارے تھیلے میں کتابیں ہیں ۔ تم سکول نہیں گئے ؟” افسردہ ہو کر کہنے لگا “میرے پاس ایک مضمون کی کاپی نہیں ہے ۔ ماسٹر جی ماریں گے”۔ میں نے کہا “میں نے دیکھا نہیں تھا کہ میرے بوٹ پالش ہونے والے ہیں ۔ چلو جلدی سے پالش کر دو”۔ اُس نے پالش کر دی تو میں نے اُسے ایک روپیہ دے کر کہا “جلدی سے کاپی خریدو اور سکول جاؤ”۔ وہ بولا “مجھے دو آنے دے دیں [آجکل کے ساڑھے بارہ پیسے] ۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے”۔ میں نے اُس کی جیب میں روپیہ ڈالنا چاہا تو وہ رونے لگ گیا اور کہنے لگا “میری باجی مجھے مارے گی”۔ میں نے پھر اُسے دو آنے دیئے اور وہ خوش خوش بھاگ گیا”

میں مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا پرنسپل تھا ۔ وہاں بابا شکیل میرا چپڑاسی تھا ۔ حلیم طبع اور نہائت دیانتدار ۔ ایک دن مجھے کہنے لگا “جناب بطور چپڑاسی میں کئی سال سے تنخواہ کی اُوپر والی حد پر ہوں اور ترقی ہو نہیں سکتی ۔ اب بیٹے کی دسویں جماعت کی پڑھائی اور گھر کی دال روٹی دونوں نہیں چل سکتے”۔ میں نے انتظامیہ میں ایک آفیسر سے بات کی تو اُس نے بھی بابا شکیل کی تعریف کی اور کوئی راہ نکالنے کا وعدہ کیا ۔ چند ماہ بعد مجھے اس آفیسر نے بتایا کہ چھوٹی آفس پرنٹنگ مشین کے آپریٹر کی آسامی خالی ہے اور اس کیلئے عملی امتحان دو ہفتے بعد ہو گا ۔ بابا شکیل کو فوری طور پر بھیج دوں تاکہ اُسے دو ہفتے میں تربیت دے کر امتحان کیلئے تیار کر دیں ۔ میں نے بابا شکیل کو بھیج دیا اور اس نے بڑی محنت سے ایک ہی ہفتے میں کام سیکھ لیا ۔ دو ہفتے بعد امتحان ہوا تو وہ اول رہا اور اُسے تقرری کا خط دے دیا گیا ۔ ایک ماہ وہاں کام کرنے کے بعد بابا شکیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا “جناب آپ نے مجھ پر بہت مہربانی کی تھی مگر میں بیوقوف آدمی ہوں ۔ وہاں تنخواہ تو زیادہ ہے لیکن ماحول اچھا نہیں ہے ۔ ارد گرد لوگ گندی باتیں کرتے ہیں اور مجھے بھی نہیں بخشتے ۔ میں وہاں رہا تو بہت گنہگار ہو جاؤں گا ۔ ہم صرف ایک وقت روٹی کھا لیا کریں گے”۔ اور مجھے اس کو واپس بلانا پڑا ۔

اگست 1992ء سے اگست 1994ء میں ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ تھا ۔ ایک چپڑاسی کی اسامی کیلئے درخواستیں طلب کیں ۔ اُمیدواروں میں ایک جوان ٹھیک ٹھاک کپڑوں میں تھا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ الیکٹریکل سپروائزر کا ڈپلومہ رکھتا ہے ۔ کئی سال سے جس کمپنی کے ساتھ کام کر رہا تھا اس کا پراجیکٹ ختم ہو گیا ہے اسلئے بیکار ہے ۔ میں نے کہا “چپڑاسی کی قلیل تنخواہ اور کام آپ کے مطابق نہیں”۔ تو بولا “جناب میں ہر قسم کا کام کر لوں گا ۔ جھاڑو تک دے لوں گا ۔کچھ ملے گا ہی ۔ پلّے سے جائے تو نہیں”۔

اسلام آباد میں مانگنے والے آتے رہتے ہیں اور وہ پیسے اور کپڑے وغیرہ مانگتے ہیں ۔ چار پانچ سال قبل ایک شخص آیا داڑھی میں کالے سفید بال ۔ کہنے لگا “جناب ۔ میں بھوکا ہوں ۔ کچھ بچا کھُچا کھانا ہو تو دے دیں”۔ میں نے 20 روپے دینا چاہے تو بولا “جناب ۔ پیسے نہیں کچھ کھانے کو دے دیں بیشک کل پرسوں کا ہو”۔ میں اُسے انتظار کا کہہ کر اندر گیا بیوی سے کہا تو اس نے ملازمہ سے روٹی پکوا دی ۔ سالن یا ترکاری نہیں تھی اور گھر میں انڈے بھی نہ تھے کہ جلدی بنا دیتے ۔ روٹی لے کر میں باہر گیا اور اُسے کہا “بابا ۔ یہ لو پیسے اور یہاں قریب ہی چھوٹا سا ہوٹل ہے وہاں سے کچھ لے لو”۔ وہ کسی دوسرے شہر سے آیا لگتا تھا کیونکہ وہ پھر کچھ پریشان سا ہو گیا ۔ ہمارے ساتھ والے گھر کا ملازم اتفاق سے آ گیا میں نے اسے کہا کہ “اندر جا کر پوچھو اگر سالن ہو تو اس کو لا دو”۔ وہ اندر گیا اور کافی سارا اچار لے کر آ گیا ۔ اس شخص نے زمین پر بیٹھ کر روٹی اچار کھایا ۔ پانی پیا اور دعائیں دیتا چلا گیا ۔ میرے گھر کے بعد اس نے کسی گھر کی گھنٹی نہ بجائی ۔

کیسے کیسے لوگ

بھیک مانگنے والوں میں کچھ واقعی مستحق ہوتے ہیں اور کچھ ظاہری طور پر مستحق لگتے ہیں ۔ ان کی امداد کرنا چاہئیے ۔ میں تیسری قسم کی بات کروں گا ۔ نیز بچوں کی بات نہیں کرنا کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں ۔ اُن کا کوئی قصور نہیں ۔

سڑک پر نکل جائیں ۔ اگر کار میں ہیں تو کسی چوراہے پر کار کھڑی ہوتے ہی عام طور پر کوئی لڑکی یا عورت [زیادہ تر جوان] اور کبھی کبھی آدمی آ کر ہاتھ پھیلا دیتے ہیں ۔ اگر کسی مارکیٹ میں ہوں تو کسی جگہ کھڑے ہوتے ہی وہی منظر نظر آتا ہے لیکن اس صورت میں اگر کھڑا اکیلا جوان مرد ہے تو مانگنے والی ہاتھ پھیلائے آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتی جاتی ہے ۔ ایسی صورتِ حال میں میں نے شریف جوانوں کو گھبراہٹ میں اُچھل کر پیچھے ہٹتے دیکھا ہے ۔ ان مانگنے والوں کی بھاری اکثریت اچھی خاصی صحتمند ہوتی ہے ۔

گھر پر گھنٹی بجی باہر نکلے تو ۔ ۔ ۔

ایک تھیلا اُٹھایا ہوا ہے ایک صاحب گویا ہوئے “میں مزدوری کیلئے آیا تھا ۔ مزدوری نہیں ملی ۔ واپس جانے کا کرایہ نہیں ہے گھر پر بچے بھی بھوکے ہوں گے ۔

ایک آدمی ہاتھ میں میلا کچیلا ڈاکٹر کا نسخہ ۔ کچھ لیبارٹری رپورٹیں اور ایکسرے ۔ رونی صورت بنا کر بولا “جی ۔ میں بہت بیمار ہوں ۔ ڈاکٹر نے یہ دوائیاں لکھ کر دی ہیں ۔ میں غیریب آدمی ہوں “۔ وہ ہر ماہ آتا اور میں نے جتنا ہو سکا اُس کی مدد کی ۔ دو سال ہونے کو آئے تو مجھے خیال آیا اس غریب کا میں صحیح طرح خود کیوں نہ کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کراؤں ۔ میں نے اُس کے ہاتھ سے نسخہ اور باقی کاغذات پکڑتے ہوئے اُس کا نام پوچھا ۔ اچانک میری نظر نسخہ پر لکھے ہوئے مریض کے نام پر میری نظر پڑی ۔ وہ کچھ اور تھا ۔ میں اُس سے پوچھا “یہ نسخہاور باقی سب کاغذ آپ کے ہی ہیں نا ؟” جواب ہاں میں ملا ۔ میں نے ایکسرے دیکھا تو وہ کسی عورت کا تھا پھر لیبارٹری رپوٹیں دیکھیں تو اُن پر کوئی اور مگر مختلف نام تھے ۔ میں نے کاغذات واپس کرتے ہوئے اُسے کہا “بابا جاؤ اور اب میرے دروازے پر نہ آنا کیونکہ آپ جھوٹے ہو”

چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے مرد جن میں سے ایک بولے “جناب ساتھ والی مسجد میں نمازی زیادہ آ گئے ہیں زیادہ صفوں کی ضرورت پر گئی ہے یا ساتھ والی مسجد میں بچے تعلیم پاتے ہیں ان کے اخراجات میں حصہ ڈالئے ۔ کارِ ثواب ہے” ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے سیکٹر میں 6 مساجد ہیں اور ان کیلئے کوئی کبھی چندہ لینے نہیں آیا کیونکہ اللہ کے فضل سے ان میں نماز پڑھنے والے تمام اخراجات پورے کرتے ہیں ۔

چھوٹی چھوٹی داڑھیوں والے آدمی یوں گویا ہوئے “اعلٰی حضرت خود آپ سے ملنے تشریف لائے ہیں “۔ پوچھا “جناب ۔ فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟” جواب ملا “جناب اعلٰی حضرت مدرسہ کے سربراہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس کارِ خیر کے حصہ دار بن جائیں” ۔

اگر کوئی صحتمند عورت بھیک مانگنے آئے تو میری بیگم اُسے کہتی ہیں ” تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتیں ؟” ایک دن ایک بڑی عمر کی مگر صحتمند عورت بھیک مانگتے ہوئے کہنے لگی “میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ جو مل جائے کھا لیتی ہوں ۔ سڑکوں کے کنارے زمین پر پڑ جاتی ہوں”۔ میری بیگم نے اُسے بھی کہہ دیا ” تم محنت مزدوری کیوں نہیں کرتیں ؟” کہنے لگی ” آپ دلا دیں مجھے کام”۔ میری بیگم نے کہا “میں رہنے کو کمرہ ۔ کھانا ۔ کپڑے اور جیب خرچ بھی دوں گی ۔ تم صرف میرے گھر کے اندر کی صفائی کر دیا کرنا”۔ وہ مان گئی ۔ رات ہوئی تو آ کر کہنے لگی ” میرے پاس تو بستر نہیں ہے”۔ جو بسترے ہم استعمال کرتے تھے ان میں سے ایک دری ۔ ایک گدیلا ۔ ایک رضائی ۔ ایک تکیہ ۔ دو چادریں اور دو تکیئے کے غلاف میری بیگم نے اُسے دے دیئے ۔ اگلی صبح وہ میری بیوی کے پاس آ کر اپنے رونے روتی رہی اور کوئی کام نہ کیا ۔ اس سے اگلے دن وہ نہ آئی ۔ میری بیوی نے اس کے کمرے میں جا کر دیکھا تو نہ وہ تھی نہ بستر ۔

پچھلے دو سال سے ایک جوان ہمارے دروازے پر بھیک مانگنے آتا رہا ہے اور میں نے اُسے کبھی خالی نہیں لوٹایا ۔ کمبلی سی لپیٹی ہوئی اور سر پر بھی لی ہوئی ۔ صورت مسکین ۔ کمزور اتنا کہ بات بہت مشکل سے کرتا ۔ گھنٹی بجا کر زمین پر بیٹھ جاتا اور مجھ سے پیسے لینے کے بعد بھی زمین پر بیٹھا رہتا ۔ مجھے اُس کی حالت پر ترس آتا ۔ ہمارے گھر کے سامنے چوڑی سڑک ہے اور بازو میں تنگ سڑک ۔ تین چار دن قبل میں نے اُسی جوان کو تنگ سڑک پر دیکھا ۔ اپنی کمبلی کندھے پر ڈالی ہوئی ۔ اچھے صحتمند جوانوں کی طرح چلتا جا رہا تھا ۔ میں نے اپنے آپ سے کہا “کیسے کیسے لوگ پائے جاتے ہیں ہمارے معاشرہ میں”

تمباکو نوشی

ہمارے خاندان میں کوئی بھی تمباکو پیتا یا کھاتا نہیں تھا اور نہ ہے ۔ میں نے بچپن ہی ميں متعلقہ مضامين پڑھنا شروع کئے اور جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تمباکو نوشی کے خلاف پہلا مضمون لکھا ۔ وہ مضمون اپنے ہم جماعت لڑکوں کو دِکھایا ۔ اُنہوں نے پڑھنے کے بعد ہماری جماعت کے اِنچارج ٹیچر کو دے دیا ۔ ٹیچر نے مجھے بُلایا تو میں کانپتا ہوا اُن کے پاس پہنچا ۔ ٹیچر نے مُسکراتے ہوئے میرا کندھا تھپتھپایا اور شاباش کہہ کر ہدائت کی کہ میں مضمون اخبار کو بھیجوں ۔ اُس زمانہ میں راولپنڈی سے صرف اُردو روزنامہ تعمیر شائع ہوتا تھا جو جہلم سے پشاور تک اور آزاد جموں کشمیر میں مقبول تھا ۔ میں نے سکول سے گھر جاتے ہوئے تعمیر کے دفتر جا کر مضمون اُنہیں دے دیا ۔ کچھ دن بعد وہ مضمون تعمیر میں چھپ گیا ۔ مجھے اُس وقت علم ہوا جب مجھے کئی بزرگوں کی طرف سے شاباش ملنے لگی ۔ چند ماہ بعد فروری میں آٹھويں کا مقابلہ کا امتحان اور مارچ میں سکول کا آٹھویں کا سالانہ امتحان دینا تھے اسلئے میں نے مزید مضامین نہ لکھے مگر اپریل میں نویں جماعت میں جاتے ہی پھر مضمون نویسی شروع کی اور میرے مضامین گاہے بگاہے تعمیر اخبار اور بچوں کے رسالہ تعلیم و تربیت میں چھپتے رہے ۔ ميرے سگريٹ کے خلاف حقائق والے مضامين 1956 کے آخر تک چھپتے رہے ۔ اُس کے بعد ميں پڑھائی ميں اتنا مشغول ہوا کہ وقت ہی نہ ملا ۔ اب تو اخبار والے لکھنے والے کا سٹيٹس ديکھ کر کچھ چھاپتے ہيں ۔

تمباکو کے خلاف تو سب بولتے ہيں مگر عمل کی تحريک بہت کم ہے ۔ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور دينی لحاظ سے نشہ ممنوع ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان ميں تمباکو نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ مغربی ممالک جنہوں نے يہ علّت ہندوستان ميں پھيلائی وہاں کم ہو رہی ہے ۔ ايک سروے کے مطابق پاکستان ميں 40 فيصد مرد اور 8 فيصد عورتيں باقاعدگی سے سگريٹ پيتے ہيں ۔ اگر گٹکا ۔ پان اور نسوار کی صورت ميں استعمال ہونے والے تمباکو بھی شامل کر ليا جائے تو شائد پاکستان ميں تمباکو کے استعمال کی شرح دنيا کے تمام مُلکوں سے زيادہ ہو ۔ ورلڈ ہيلتھ آرگنائزيشن کے اندازہ کے مطابق اگلے 20 سال ميں شاید 500 ملين انسان تمباکو نوشی کی وجہ سے پيدا شُدہ بيماريوں سے مريں گے اور ان ميں اکثريت اُن کی ہو گی جو اس وقت نابالغ ہيں ۔

تمباکو نوشی پھيلانے کا سبب اشتہار بازی ہے بالخصوص ٹی وی جو کہ گھر گھر ميں ديکھا جاتا ہے ۔ ٹی وی پر سگريٹ کی مشہوری کيلئے ايسی ايسی فلميں چلائی جاتی ہيں جيسے سگريٹ ہی ميں انسان کی جان ہو ۔ ان اشتہاروں کا زيادہ اثر نابالغ اور کم عمر بچوں پر ہوتا ہے ۔ موجودہ حکومت نے بڑے کرّ و فر سے تمباکو نوشی کے امتناع کا آرڈيننس 2002 جاری کيا تھا مگر اُسے نافذ کرنے کی عملی کوشش آج تک نہيں کی گئی ۔ پچھلے سال ستمبر ميں اسلام آباد ميں ٹريفک پوليس کے ايک آفيسر نے انسانوں سے بھری وين چلاتے ہوئے سگريٹ پينے پر ايک ڈرائيور کے خلاف کاروائی کر کے اس معاملہ ميں پہل کی مگر اس کے بعد کچھ نہ ہوا ۔

چوالیس سال قبل ميں نے اپنے ماتحت ايک آفيسر سے پوچھا کہ آپ کو تمباکو نوشی سے کيا ملتا ہے ؟ اُس نے جواب ديا کہ سَر ۔ سچ بتاؤں تو اِس سے بُری کوئی اور عادت نہيں ۔ آدمی بھوکا ہو تو کسی سے کھانے کی چيز نہيں مانگتا ۔ مگر اپنے پاس سگريٹ نہ ہو تو کِسی بھی اجنبی سے مانگ کر اُس کے منہ سے نکلا ہوا سگريٹ اپنے منہ ميں ڈال ليتا ہے ” ۔

چار دن

بہادر شاہ ظفر نے لکھا تھا
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن ۔ ۔ ۔ دو آرزو ميں کٹ گئے دو انتظار ميں

ليکن يہ چار دن کا بيان ہے امام ابراہيم النّخاعی کا ۔ فرماتے ہيں ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں اور مجھے کوئی اپنے سے زيادہ علم رکھنے والا ملے تو ميں اس سے سيکھتا ہوں ۔ يہ دن ميرے فائدے اور نفع کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے کوئی اپنے سے کم علم رکھنے والا ملے تو ميں اسے سِکھاتا ہوں ۔ يہ دن ميرے انعام کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے ميرے جتنا علم رکھنے والا کوئی ملے تو ميں اس سے تبادلۂِ خيال کر کے اپنے علم کی تصحيح کرتا ہوں ۔ يہ دن ميرے سبق کا ہوتا ہے ۔

جس دن ميں گھر سے نکلوں مجھے کوئی ملے جس کا علم مجھ سے کم ہو مگر وہ اپنے آپ کو مجھ سے زيادہ علم رکھنے والا سمجھتا ہو تو ميں اس سے بات نہيں کرتااور اس دن کو ميں اپنے آرام کا دن سمجھتا ہوں ۔

تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی

میں نے پچھلے سال 16 مئی کو “تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی” پر لکھا تھا جسے القمر آن لائین پر اسی ہفتہ دوہرایا گیا ۔ اس پر ایک ہماجہتی تبصرہ کی وجہ سے یہ تحریر ضروری سمجھی ۔

اعتراض کیا گیا ” آپ نے اپنے اردو کے مضمون میں بے شمار خود بھی انگریزی کے الفاط استعمال کئے ہیں ۔جیسے میڈیکل کالج ۔ ریٹائرڈ ۔ جرنیل ۔ میڈیم ۔ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان ۔ کوریا ۔ سکول ۔ ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ آپ جانتے ہیں یہ سب انگلش الفاظ ہیں ۔ جاپانی اپنی زبان میں جاپان نہیں کہتا؟

میں بھی اسی معاشرہ کا ایک فرد ہوں ۔ ساری زندگی معاشرہ کی جابر موجوں کے خلاف لڑتا قریب قریب تھک گیا ہوں اور اُردو میں انگریزی لکھنا میری مجبوری بن گیا ہے کیونکہ صحیح اُردو لکھوں تو اُردو بولنے والے قارئین کی اکثریت منہ کھولے رہ جاتی ہے اور مجھے برقیے آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ “اُردو سمجھ میں نہیں آئی”۔

بہر کیف متذکرہ الفاظ میں چار ممالک کے نام ہیں جو ہند و پاکستان میں ایسے ہی بولے جاتے ہیں ۔ میڈیکل کالج ۔ کُلیہ طِبی ۔ ۔ ریٹائرڈ۔ سُبک دوش ۔ ۔ جرنیل۔ سالار ۔ ۔ میڈیم ۔ وسیلہ یا ذریعہ ۔ ۔ سکول ۔ مدرسہ ۔ ۔ ٹیسٹ ۔ پرَکھ یا کَسوَٹی یا امتحان یا معیار یا تمیز ۔ ۔ ممالک کے نام یہ ہیں ۔ جرمنی ۔ المانیہ ۔ ۔ جاپان ۔ نپوں ۔

سوال کیا گیا کہ ٹیلی ویذن۔ ریڈیو۔گلاس ۔کمپیوٹر ۔ ریل ۔ بس ۔ وغیرہ وغیرہ کی اردو کرکے تو بتائیں کہ ہم ان کی جگہ کون سے الفاظ استمعال کریں ؟ پھر سائینس ۔ میڈیکل ۔ ٹیکنکل ۔ انجنئیرنگ کی دنیا الگ پڑی ہے وہاں کون کون سے الفاظ لگائیں گے ؟”

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں مترجم نہیں ہوں ۔ دوسری یہ کہ اعتراض کرنے والے کو پہلے متعلقہ مخزن الکُتب یعنی لائبریری سے رجوع کرنے کے بعد ایسے سوال کرنا چاہیئں ۔ خیر میرے جیسا دو جماعت پاس بھی جانتا ہے کہ ریڈیو کا ترجمہ مذیاع ہے ۔ بس کا ترجمہ رکاب ۔ گلاس کی اُردو شیشہ ہے ۔ پانی پینے والا برتن جسے گلاس کہا جاتا ہے اس کا نام آب خورہ ہے ۔ گلاس انگریزی کا لفظ نہیں تھا ۔ یہ المانی لفظ تھا جو کہ انگریزی میں گلِیس تھا لیکن اس کا مطلب شیشہ ہے ۔ جب شیشے کے آب خورے بننے لگے تو فلاں مشروب کا گلاس یا فلاں مشروب کا گلاس انگریزی میں مستعمل ہوئے کیونکہ مختلف قسم کی شرابوں کے آب خوروں کی شکل مختلف تھی ۔ بعد میں ابتدائیے غائب ہو گئے اور صرف گلاس رہ گیا ۔ اسی طرح کئی لوگ اُردو میں شیشے کی بنی چیز کو شیشہ یا شیشی کہتے ہیں ۔

ٹیکنیکل سے کیا مراد لی گئی ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ٹیکنیکل جس کا اُردو فنّی ہے کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ۔ سائنسی علوم جن میں طِب یعنی میڈیکل اور ہندسہ یعنی انجنیئرنگ بھی شامل ہیں پاکستان میں کم از کم دسویں جماعت تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں اور میڈیکل اور انجنیئرنگ کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین گریجوئیشن تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں ۔ اب پاکستان کے ایک شہر اسلام آباد میں ایک اُردو یونیورسٹی ہے اور ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں عرصہ دراز سے ایک اُردو یونیورسٹی ہے ۔ ان یونیورسٹیوں میں تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے ہیں ۔

لکھا گیا کہ “اُردو زبان مکمل زبان نہیں اس میں انگریزی اردو فارسی ہندی عربی وغیرہ وغیرہ زبانیں شامل ہیں “۔

پہلی بات یہ کہ اُردو زبان کی ابتداء براہمی عربی اور فارسی کے آمیزے سے ہوئی تھی ۔ بعد میں تُرکی شامل ہوئی جس کے بہت استعمال ہونے والے الفاظ پلاؤ ۔ کباب اور سیخ ہیں ۔ اُردو میں انگریزی کا بیجا استعمال احساسِ کمتری کے نتیجہ میں ہوا ۔ ہندی کوئی زبان نہیں ہے ۔ اُردو کو ہی ہندی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ ہند کی زبان تھی ۔ جب ہند کے مسلمانوں نے الگ وطن کا نعرہ لگایا تو کٹّر ہندوؤں نے ردِ عمل کے طور پر اُردو کو سنسکرت رسم الخط میں لکھنا شروع کیا ۔ پاکستان بننے کے بعد اس میں سنسکرت کے الفاظ بھی شامل کئے گئے اور بہت سے اُردو الفاظ کا حُلیہ بگاڑ دیا گیا ۔

اُردو سیکھے بغیر اُردو کو نامکمل کہنا مُستحسن نہیں ۔ اُردو کم از کم انگریزی سے زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ میں اُردو میں روزمرّہ مستعمل کچھ الفاظ اور افعال درج کرتا ہوں ۔ ان کا مُنفرد انگریزی ترجمہ ڈھونڈنے سے احساس ہو جاتا ہے کہ انگریزی وسیع ہے یا کہ اُردو ۔

تُو ۔ تُم ۔ آپ ۔ جناب ۔ جنابعالی ۔ حضور ۔ حضورِ والا ۔ دام اقبال ۔ روح پرور ۔ روح افزاء ۔ روح قبض ۔ روح دِق ۔ روح فرسا ۔ سوہانِ روح ۔ طالبِ خیریت بخیریت ۔ الداعی الخیر ۔ مُتمنّی ۔ آؤ ۔ آئیے ۔ تشریف لایئے ۔ قدم رنجہ فرمائیے ۔ خیر ۔ احسان ۔ احسانمند ۔ شکر گذار ۔ متشکّر ۔ ممنون ۔ لیٹ جاؤ ۔ لیٹ جائیے ۔ دراز ہو لیجئے ۔ استراحت فرما لیجئے ۔ کھاتا ہے ۔ کھاتی ہے ۔ کھاتے ہیں ۔ کھاتی ہیں ۔ کھاتے ہو ۔ کھا تا ہوں ۔ کھاتی ہوں ۔ کھاؤ ۔ کھائیے ۔ تناول فرمائیے ۔

دنیا میں سب سے زیادہ لوگ چینی بولتے ہیں ۔ اس سے کم لوگ عربی بولتے ہیں ۔ اس سے کم انگریزی ۔ اس سے کم ہسپانوی اور اس سے کم اُردو بولنے والے ہیں ۔ باقی زبانیں ان کے بعد آتی ہیں ۔

یہ استدلال درست نہیں ہے کہ “دنیا کے کمپیوٹر کسی بھی زبان میں ہوں مگر ان کے نیچے انگلش زبان ہی کی پروگرامنگ ہوتی ہے”۔

کمپیوٹر کی بُنیادی زبان کے حروف ایک قدیم زبان لاطینی سے لئے گئے ہیں جو بڑے سے بڑے انگریزی دان کو بھی سمجھ نہیں آئیں گے ۔ صرف اُسے سمجھ آئے گی جو اس زبان کا ماہر ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں آئین کہا جاتا ہے جلا ہوا یا انگریزی کے آن کو اور آؤس کہا جاتا ہے بجھا ہوا یا انگریزی کا آف ۔ آئین کا نشان یعنی سِمبل ہے جرمن یا انگریزی کا آئی اور آؤس کا نشان ہے اَو ۔ کمپیوٹر صرف یہ دو حرف سمجھتا ہے ۔ باقی جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ وسیلہ ہیں ۔

یہ کسی حد تک صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ وسیلہ انگریزی کو بنایا گیا ہے ۔ وجہ عیاں ہے کہ پچھلی ایک صدی سے انگریزی بولنے والوں کا راج ہے ۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ ایلوگرتھم جس کا اصل نام کُلیہ خوارزم ہے کمپیوٹر کا پیش رو تھا اور اس سے قبل موتی تختہ جسے آجکل ابیکَس کہتے ہیں بھی کمپوٹر کی بنیاد ہے ۔ کمپیوٹر المانیہ کے مہندسین یعنی جرمن انجنیئرز کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ ایلوگرتھم مسلمان ریاضی دان یعنی مَیتھے مَیٹِیشِیئن کی دریافت ہے جو کہ خوارزم کے رہنے والے محمد بن موسٰی الخوارزمی (وفات 840ء) تھے اور ابیکِس اصحابِ شینا یعنی چینیوں کی دریافت ہے ۔

دلیل پیش کی گئی “پاکستان میں نہ تو ہماری زبان مکمل اور نہ ہی ہم نے سائنس اور ریسرچ پر توجہ دی ۔ معمولی اسپرین بنانے کےلئے ہم یورپ کے محتاج ہیں ۔اب ہم کس زبان میں اپنے فارمولے یا کلیئے استمعال کریں ۔ہم سب مل کر صرف ایک خالص اردو کا مضمون نہیں لکھ سکتے” ۔

اگر میں یا دوسرے پاکستانیوں نے قوم کیلئے حتی کہ اپنی زبان کیلئے کچھ نہیں کیا تو اس میں اُردو زبان کا کیا قصور ہے ؟ اگر ہم خالص اُردو میں ایک مضمون نہیں لکھ سکتے تو کیا یہ اُردو کا قصور ہے یا کہ ہماری نا اہلی ؟

یہ خیال بھی غلط ہے کہ پاکستانیوں نے سائنسی تحقیق نہیں کی اور کچھ تخلیق نہیں کیا ۔ نظریں غیروں سے ہٹا کر اپنے ہموطنوں پر ڈالی جائیں تو بہت کچھ نظر آ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحقیق اور تخلیقات کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ۔ ایسے بہت سے محسنِ ملت میں سے صرف کچھ زندوں میں چوٹی کے میٹالرجیکل انجیئر “ڈاکٹر عبدالقدیر خان” اور گذر جانے والوں میں چوٹی کے ریاضی دان پروفیسر عبدالرحمٰن ناصر اور مکینیکل انجنیئر پروفیسر سلطان حسین ۔ جن کے ساتھ جو کچھ کیا گیا نامعلوم پوری قوم مل کر بھی اس کا کوئی کفّارہ ادا کر سکتی ہے یا نہیں ۔ جو کچھ باقی پاکستانیوں نے کیا اس کی تفصیل میں جاؤں تو کئی دن صرف لکھنے میں لگیں گے ۔

سوال کیا گیا کہ “ہم کس زبان میں اپنے کُلیئے استعمال کریں ؟”

تین دہائیاں قبل مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جس کا کام مفید علوم جو دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی میں موجود ہیں اُن کا ترجمہ کرنا تھا جو کام اس ادارہ نے خوش اسلوبی سے شروع بھی کر دیا تھا لیکن 1988 میں اس ادارہ کو غیر فعال کر دیا گیا ۔ اُردو میں ترجمہ بہت مشکل نہیں ہے ۔ اللہ کی مہربانی سے عربی اور فارسی میں اکثر تراجم موجود ہیں جہاں سے ایسے الفاظ آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں جن کا اُردو میں ترجمہ نہ ہو سکے ۔

سوال کیا گیا کہ ” آخر انگلش سیکھنے میں نقصان ہی کیا ہے ؟”

میں انگریزی یا المانی یا شینائی یا دوسری زبانیں سیکھنے کا مخالف نہیں اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی تاثر اپنی متذکرہ تحریر میں دیا بلکہ میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کا حامی ہوں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو لوگ اپنی زبان اور اپنے مُلک کیلئے کچھ نہیں کر سکے اُنہیں اپنی زبان اور اپنے مُلک کو بُرا یا ادھورہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔