Yearly Archives: 2008

مشورہ کی اہمیت

آپ نے راکٹ يا اُس کی تصوير ديکھی ہو گی ۔ اس کے پچھلے سِرے کے قريب پر [fins] ہوتے ہيں جن ميں سوراخ ہوتے ہيں ۔ جب پہلی بار راکٹ بنايا گيا تو پروں میں يہ سوراخ نہيں تھے ۔ جب راکٹ چلايا جاتا تو نشانے پر نہ جاتا ۔ ماہرین نے ڈیزائین میں کئی تبدیلیاں کیں ۔ پروں کو بہت مضبوط بھی بنایا اور ہر تبدیلی کے بعد راکٹ چلا کر دیکھا لیکن راکٹ کبھی کبھار ہی نشانہ پر گیا ۔

جب ماہرین تجربے کرتے کرتے تھک گئے تو کسی نے اُنہیں مشورہ دیا کہ “آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں ۔ اسلئے آپ اپنی تعلیم کی حدود میں رہتے ہوئے سب کچھ کر رہے ہیں ۔ آپ کی ناکامی سے ثابت ہوتا ہے کہ مسئلے کا اصل حل آپ کے تعلیمی دائرے سے باہر ہے ۔ چنانچہ آپ لوگ دوسروے ایسے لوگوں سے تجاویز لیں جن کی تعلیم آپ جیسی نہ ہو یا پھر تعلیم بیشک کم ہو لیکن لمبا تجربہ رکھتے ہوں”۔

اس پروجیکٹ پر پیسہ لگانے والی کمپنی کے سربراہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے کارخانے کے تمام ملازمین سے تجاویز لیں ۔ چنانچہ اعلان کیا گیا کہ راکٹ کے متعلق ہر شخص کو ایک تجویز دینے کی دعوتِ عام ہے ۔ جو بھی تجویز دی جائے گی اس کے متعلق کوئی سوال پوچھے بغیر اس پر من و عن عمل کیا جائے گا ۔ تجویز کے نتیجہ میں کامیابی ہونے پر تجویز دینے والے کو بیشمار انعام و اکرام سے نوازہ جائے گا اور ناکامی پر کچھ نہیں کہا جائے گا”۔

سب ملازمین اپنی اپنی تجویز دینے کیلئے اپنے اپنے فورمینوں کے دفاتر کے باہر قطار میں لگ گئے سوائے ایک اُدھڑ عمر شخص کے جو 20 سال سے کارخانے کے فرش کی صفائی پر مامور تھا اور ترقی نہ کی تھی ۔ کچھ دن بعد وہ شخص فرش کی صفائی کر رہا تھا کہ اسکے فورمین نے اُس کے پاس سے گذرتے ہوئے تفننِ طبع کے طور پر اُسے کہا “تم نے کوئی تجویز نہیں دی ۔ تم اتنے غریب ہو ۔ اگر تمہاری تجویز ٹھیک نکل آئی تو بقیہ ساری عمر آرام سے گذرے گی اور یہ فرش صاف کرنے سے تمہاری جان چھُوٹ جائے گی”۔ وہ شخص پوچھنے لگا “مسئلہ کیا ہے ؟” جب فورمین نے اُسے سمجھایا تو کہنے لگا “پروں کو سوراخ دار کیوں نہیں بناتے ؟”۔

بظاہر سُوراخ دار پر بغیر سوراخوں والے پروں سے کمزور محسوس ہوئے لیکن فورمین نے یہ تجویز کارخانہ کے سربراہ تک پہنچا دی ۔ چنانچہ کچھ راکٹ سُوراخ دار پروں والے بنا کر چلائے گئے ۔ وہ سب کے سب صحیح نشانہ پر بیٹھے ۔ اس کے بعد مزید راکٹ بنا کر چلائے گئے تو ثابت ہوا کہ کئی سال پرانا مسئلہ حل ہو گیا ۔

کچھ دن بعد کامیابی کے جشن کا انتظام کیا گیا ۔ تجویز کنندہ اُدھڑ عمر شخص کو حجام کے پاس لیجا کر اُس کے بڑھے ہوئے سر اور داڑھی کے بال ٹھیک کروائے گئے ۔ اس کیلئے عُمدہ سِلے سلائے کپڑے خریدے گئے ۔ جشن والے دن اسے ایک اعلٰی درجہ کے حمام پر نہانے کیلئے لیجایا گیا ۔ تیار ہونے کے بعد اُسے ایک بڑی سی کار میں جشن کی جگہ لایا گیا جہاں کارخانہ کے سربراہان اُس کی انتظار میں تھے ۔ اُسے سب کے درمیان بٹھایا گیا ۔ اُس سے پوچھا گیا کہ یہ بہترین تجویز اُس کے ذہن میں کیسے آئی ۔ اُس نے جواب دیا “آپ لوگوں نے جو ٹائیلٹ پیپر واش روم میں لگایا ہوا ہے ۔ وہ سوراخوں والی جگہ سے کبھی پھٹتا ہی نہیں”۔

یہ جواب احمقانہ سہی لیکن جو کام بڑے بڑے ماہرین بیشمار روپیہ خرچ کر کے بھی نہ کر سکے اس اَن پڑھ شخص کی احمقانہ بات نے کر دیا ۔ اُس شخص کو ایک گھر ۔ ایک کار ۔ کئی جوڑے کپڑے اور جتنا وہ ساری عمر کما سکتا تھا اُس سے دس گنا دولت دی گئی اور پھولوں کے ہار پہنا کر بڑے اعزاز کے ساتھ اُس کو دی گئی کار میں اُسے دیئے گئے نئے گھر میں لیجایا گیا ۔

مشاورت ایک انتہائی اہم اور مفید عمل ہے ۔ مشاورت کو اپنی پسند یا صرف اُن اشخاص تک محدود نہیں کرنا چاہیئے جنہیں اعلٰی تعلیم یافتہ یا ماہرِ فن سمجھا جائے ۔ صرف وہی لوگ اور قومیں ترقی کرتے ہیں جو مشاورت کو عام کرتے ہیں ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے حُکم دیا ہے کہ آپس میں مشورہ کر لیا کرو ۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں کی گئی کہ کس سے مشورہ کیا جائے ۔ کاش ۔ میرے ہموطن اور کسی کیلئے نہیں تو اپنے پیدا کرنے والے اور مالکِ کُل کے حُکم کی تابعداری کے ثواب کیلئے ہی اس عمل کو اپنا لیں ۔

سورت ۔ 3 ۔ آلِ عِمرٰن ۔ ایت 159 ۔
اللہ تعالٰی کی رحمت کے باعث آپ اِن پر نرم دِل ہیں اور اگر آپ بد زبان اور سخت دِل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔ سو آپ اِن سے درگذر کریں اور اِن کیلئے استغفار کریں اور کام کا مشورہ اِن سے کیا کریں ۔ پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کریں ۔ بیشک اللہ تعالٰی توکّل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔

سورت ۔ 42 ۔ شورٰی ۔ آیت 38
اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور اِن کا [ہر] کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے اِنہیں دے رکھا ہے اس میں سے [ہمارے نام پر] دیتے ہیں ۔

سوال کا جواب ۔ دوسرا سوال اور ہماری باتیں

گلاس ایک خوبصورت اور لذیز پھل ہے جو جموں کشمیر ۔ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے ۔ یہ کالے اور سُرخ رنگ میں ہوتا ہے ۔ کالا میٹھا ہوتا ہے اور سُرخ تُرش یا تُرشی مائل میٹھا ۔ اس پھل کو انگریزی میں چَیری [cherry] کہتے ہیں

دوسرا سوال یہ ہے کہ چکودرا کِسے کہتے ہیں ؟

ہموطنوں کی حالت یہ ہے کہ انگریزی سیکھتے سیکھتے اُردو سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور صحیح انگریزی بولنا یا لکھنا ابھی بھی ان سے بہت دُور ہے ۔ اکثریت کو اپنی زبان بھَونڈی لگتی ہے ۔ جو لفظ وہ اُردو میں بولنا بھونڈا سمجھتے ہیں اُس کا انگریزی ترجمہ فخریہ بولتے ہیں

ہماری قوم اتنی صُلح پسند ہے کہ تایا ۔ چچا ۔ پھُوپھا ۔ ماموں ۔ خالو سب کو ایک گھاٹ پانی پلا دیا ہے یعنی سب اَنکَل بنا دیئے ہیں ۔ اِن بزرگان کی خواتین کو آنٹی بنا کر خواتین میں بھی مساوات قائم کی گئی ہے ۔ یہی سلوک اِن اَنکلان یا آنٹیوں کی اولاد کے ساتھ کچھ بڑھ کر ہی برتا گیا ہے تاکہ ثابت ہو جائے کہ کم از کم نئی نسل میں عورت اور مرد سب برابر ہیں یعنی لڑکا ہو یا لڑکی سب کزن ۔ جس کِسی سے ان میں سے کسی کا تعارف کروایا جاتا ہے وہ بیچارہ یا بیچاری سوچتی ہی رہ جاتی ہے کہ موصوف دراصل ہیں کون ؟

مزید یہ کہ انگریزی زبان کو ترقی کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ انگریزوں کی ترقی کے کیا کہنے ۔ اُن کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے ۔ جن شعبوں میں ترقی ہونا ضروری ہے وہاں تو قوم تنزّل کا شکار ہے لیکن ایک لحاظ سے کافی ترقی کر لی ہے ۔ ملاحظہ ہو بتدریج ترقی

بیت الخلاء اور غسلخانہ یا حمام کو پہلے ٹائیلٹ [toilet] کہنا شروع کیا پھر باتھ روم [bathroom] اور اب واش روم [wash room] کہا جاتا ہے ۔ مزید ترقی کی گنجائش ہے کیونکہ امریکہ میں بیت الخلاء کو ریسٹ روم [rest room] کہا جاتا ہے ۔ ہو سکتا ہے سارے دن کی تھکی امریکی قوم بیت الخلاء میں آرام محسوس کرتی ہو

ایک سوال

کبھی کبھی میرے بچپن اور جوانی کا چِلبلا پن لوٹ آتا ہے اور تحریک پیدا ہوتی ہے کہ میں کوئی اچھُوتا سوال پوچھوں ۔ آج بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں ۔

ہر اُردو جاننے والے سے یہ سوال ہے لیکن میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو جواب لکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔

اُردو میں گلاس کس کو کہتے ہیں ؟

میں اُس گلاس کی بات نہیں کر رہا جو لفظ ہم نے انگریزی سے مستعار لے لیا اور پانی پینے والے ایک برتن کا نام کہا جاتا ہے ۔ ویسے انگریزی میں بھی پانی پینے والے برتن کا نام tumbler تھا ۔ جب شیشے سے اسے بنایا گیا تو نام گلاس ٹمبلر ہو گیا اور گھِس کر صرف گلاس رہ گیا ۔

اگر کوئی قاری جواب مخفی رکھنا چاہے تو وہ مجھے برقیہ [e-mail] کر دے ۔ میرے برقیہ کا پتہ یہ ہے
iabhopal@yahoo.com

افسوسناک اعداد و شُمار

اصل تو اللہ بہتر جانا تا ہے ۔ سرکاری تحریر شُدہ اعداد و شمار یہ ہیں

علاقہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدکاری کا نشانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی بدکاری کا نشانہ
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1996 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 260
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 1509 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 233
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 170 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 27
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 152
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 33
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 20
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ ۔ 36

جنوری سے مارچ 2008ء کی صورتِ حال یہ ہے
علاقہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدکاری کا نشانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی بدکاری کا نشانہ
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 428 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 330 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 32 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 14
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 27
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ ۔ 9

اغواء
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2600 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 140
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 1998 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 47
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 391 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 112 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ 5
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ 8
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 1

گاڑیاں جو چھِینی یا چوری کی گئیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 23144 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6229
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13527 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3210
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7562 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2453
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 729 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 160
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 614 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 170
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 537 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 179
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔۔ 24 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 134 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43

خُود کُشیاں 2007ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 232
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 8
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 199
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 1

قتل
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10556 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2540
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 5083 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1170
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2277 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 612
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2627 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ 588
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 399 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 109
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 27
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 59 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 104 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 26

ٹریفک حادثات میں اموات
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5485 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔1097
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 3288 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔645
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 930 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔187
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 740 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 165
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 230 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 121 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔28
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 133 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔17

بینک لوٹے گئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 15 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 20 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

پٹرول پمپ لوٹے گئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 79 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 20
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

سڑکوں پر ڈکیتی اور دوسرے جرائم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 292962 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76974

یہ اعداد و شمار دی نیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ سے لئے گئے

وہ بھی چل بسے

اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَہِ راجِعُون ۔ نعرہ تو کب کا چل بسا تھا ۔ نعرہ دینے والا بھی چل بسا ۔

کیسے کیسے اللہ کے بندے آئے اور چلے گئے ۔
اُس نے اپنی زندگی کو جس قوم کیلئے وقف کیا اُس قوم نے اُس کو سہارا دینا تو کیا اُس کا دیا ہوا سب سے زیادہ معروف نعرہ بھی کب کا بھُلا دیا

تحریکِ پاکستان کا وہ سرگرم کارکُن جس نے بابائے قوم کا گن مین بننے کو اپنے لئے باعثِ عزت سمجھا ۔
وہ مردِ مجاہد جس نے پہلی بار سیالکوٹ آمد پر فرطِ جوش میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بابائے قوم محمد علی جناح کی کار کو کندھوں پر اُٹھا لیا تھا
وہی شخص اپنے بڑھاپے میں پچھلے نو سال کَسمپُرسی کی حالت میں بیمار پڑا رہا اور کسی حکومتی اہلکار کو اُس کی عیادت کی توفیق نہ ہوئی
نہ کسی اخبار والے نے کبھی اُس کا حال پوچھا اور نہ اُس کی آپ بیتی کو اپنے اخبار کے قابل سمجھا ۔

کیا خوب نعرہ دیا تھا کہ برِّ صغیر ہند و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ بیدار ہوا جو پاکستان کی صورت میں نمودار ہوا ۔

پاکستان کا مطلب کیا
لا اِلَہَ اِلا اللہ

یہ تھے پروفیسر اصغر سودائی جنہوں نے پہلی بار یہ نعرہ 1944ء میں لگایا تھا ۔ پروفیسر اصغر سودائی گورنمنٹ علامہ اقبال کالج کے پرنسپل اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزری کونسل میں رہے ۔ ان کی شاعری کا مجموعہ چلن صباح کی طرف کافی مشہور ہوا

پروفیسر اصغر سودائی 26 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 17 مئی 2008ء کو اپنے گھر سودائی منزل ۔ کریم پورہ سیالکوٹ سے راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے ۔ ان کی نمازِ جنازہ آج یعنی 18 مئی 2008ء کو پڑھا کر ان کے جسدِ خاکی کو سیالکوٹ کے شاہ جمال قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَہِ راجِعُون

درندے

درِندہ اُس جانوار کو کہتے ہیں جو کہ شقی القلب ۔ انتہاء کا ظالم یا بے رحم ہو ۔ چوپایوں میں بھیڑیا درندہ کہلاتا ہے کیونکہ ہر شریف جانور یعنی ہرن ۔ بکرا ۔ گائے بیل وغیرہ اور انسان پر بھی بلا وجہ حملہ کر کے اُسے ہلاک کرنے کی کوشس کرتا ہے ۔ شیر کو درِندہ نہیں کہا جاتا کیونکہ اگر بھوکا نہ ہو یا اُسے کوئی تنگ نہ کرے تو وہ کسی پر حملہ نہیں کرتا خواہ ہرن ہو یا انسان ۔

اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن ان میں کئی درندوں کو بھی مات کر جاتے ہیں ۔ اس کا ثبوت آئے دن پیش آنے والے واقعات ہیں ۔ تازہ ترین واقعہ اپنی نوعیت کی ایک مثال قائم کر گیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ انسانوں میں چوپایوں سے بڑھ کر درندہ صفت پائے جاتے ہیں ۔ یہ واقعہ کسی گاؤں یا قصبہ میں نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ہوا ہے جہاں کے رہنے والے اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب سمجھتے ہیں ۔

اطلاعات کے مطابق 14 مئی 2008ء کو دوپہر ڈیڑھ بجے کے قریب رنچھوڑ لائینز میں ٹمبر مارکیٹ کے قریب سومیا مکرّم پیلس کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر اکبر سومرو کے گھر چار آدمی گھُس گئے ۔ اسلحہ کے زور پر اُنہوں نے زیور اور نقدی لوٹ لی ۔ جب ڈاکو جانے لگے تو اکبر سومرو پہنچ گئے ۔ اُس پر گولی چلا کر ڈاکو بھاگ نکلے ۔ گولی کی آواز اور اکبر کا شور سُن کر محلہ کے لوگ اکٹھے ہو گئے اور اُنہوں نے تین ڈاکوؤں کو قابو کر لیا ۔ مار پٹائی کے بعد لوگوں نے ڈاکوؤں پر مٹی کا تیل یا پٹرول چھِڑک اُن کو آگ لگا دی ۔ اس دوران پولیس اور ایدھی والے پہنچ گئے لیکن لوگوں نے اُنہیں بیس تیس منٹ تک قریب نہ جانے دیا ۔ اس طرح تین آدمی زندہ جلا دیئے گئے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب ڈاکو جل رہے تھے تو کچھ لوگ تالیاں بجا رہے تھے ۔

ایسی بیہیمانہ درندگی کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔

کہا گیا کہ لوگ آئے دن کی ڈکیتیوں اور پولیس یا حکومت کی بے حِسی سے تنگ آئے ہوئے ہیں اسلئے اُنہوں نے ایسا کیا ۔ اگر یہ جواز مان لیا جائے تو ہمارے مُلک کے 8 کروڑ بالغان میں سے کم از کم 5 کروڑ جلائے جانے کے مستحق ہیں ۔

1 ۔ جو لوگ اپنی دہشت یا اثر و رسوخ کی بنا پر یا محکمہ کے اہلکاروں کی مُٹھی گرم کر کے ۔ ۔ ۔

ا ۔ بجلی چوری کرتے ہیں کیا وہ 24 گھنٹے ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟ ان میں سے عوام کہلانے والے کُنڈے ڈالتے ہیں اور صاحب کہلانے والے میٹر سے بالا بالا اپنے ایئر کنڈیشنر چلانے کیلئے بجلی حاصل کرتے ہیں ۔

ب ۔ نہروں کا پانی چوری کرنے والے ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟

ج ۔ اپنے پانی کے نلوں کیلئے لگے ہوئے چھوٹے سوراخ والے فیرُول [ferrule] اُتروا کر بڑے سوراخ والے فیرُول لگوانے والے ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟

2 ۔ کم تولنے والے یا عُمدہ چیز کی قیمت لے کر گھٹیا چیز بیچنے والے دُکاندار یا ذخیرہ اندوزی کر کے مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے والے لوگ خریداروں کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟

3 ۔ دوا ساز کمپنیوں کے اہلکار ٹی وی چینلز اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار دے کر ۔ بااثر لوگوں اور ڈاکٹروں کو بڑے بڑے تحائف دے کر ۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں ڈنر دے کر اور ہوائی سفر کے ٹکٹ دے کر اپنی من مانی قیمت پر دوائیاں بیچتے ہیں ۔ کیا وہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟

4 ۔ قوم سے ٹیکسوں کی مَد میں وصول کیا ہوا روپیہ اپنی عیاشیوں پر خرچ کرنے والے حکمران یا اہلکار کیا عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟

5 ۔ جو ملازمین اپنے اوقاتِ کار میں سے وقت ذاتی کام کیلئے استعمال کرتے ہیں یا اس وقت کو گپ شپ میں یا دوسرے طریقوں سے ضائع کرتے ہیں یا دفتری املاک جن میں کار اور ٹیلیفون بھی شامل ہیں ذاتی اغراض کیلئے استعمال کرتے ہیں کیا وہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟

6 ۔ جو بھائی اپنی بہن کے ۔ والدین اپنی اولاد کے ۔ خاوند اپنی بیوی کے ۔ بہن اپنے بھائی کے ۔ بیوی اپنے خاوند اور اولاد اپنے والدین کے جائز حقوق ادا نہیں کرتے کیا وہ اُن کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟

7 ۔ جو لوگ گاڑی چلاتے ہوئے سُرخ بتی ہونے کے باوجود گذر جاتے ہیں یا اپنی قطار سے نکل کر زبردستی دوسری قطار میں گھُستے ہیں اور اگر راستہ نہ دیا جائے تو بدکلامی اور مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں کیا وہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ؟

8 ۔ اپنی آمدن کیلئے فحش یا لچر قسم کے اشتہارات دکھانے والے ٹی وی چینلز اور اخبارات کیا عوام کے اخلاق پر ڈاکہ نہیں ڈال رہے ؟

9 ۔ زبردستی کی شادی کرنے والے یا زبردستی بدکاری کرنے والے کیا ڈاکہ ڈال کر کسی کی پوری زندگی نہیں لُوٹ لیتے ؟

فہرست مزید طویل ہے لیکن یہ بھی کیا کم ہے ۔

غلام قوم کا ضمير اور توحيد

اسی قرآن ميں ہے اب ترکِ جہاں کی تعليم
جس نے مؤمن کو بنايا مہ و پروين کا امير
تن بہ تقدير ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں ميں خدا کی تقدير
تھا جو ۔ ناخُوب ۔ بتدريج وہی خوب ہوا
کہ غلامی ميں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمير

زندہ قوت تھی جہاں ميں يہی توحيد کبھی
آج کيا ہے صرف اک مسئلۂِ علمِ کلام
روشن اس ضؤ سے اگر ظُلمت کو دار نہ ہو
خود مسلماں سے ہے پوشيدہ مسلماں کا مقام
ميں نے اے ميرِ سپہ ۔ تيری سپہ ديکھی ہے
قُل ھوَ اللہُ کی شمشير سے خالی ہے نيام
آہ ۔ اس راز سے واقف ہے مُلا نہ فقيہہ
وحدت افکار کی بے وحدت کو دار ہے خام

يوں محسوس ہوتا ہے کہ علّامہ اقبال نے يہ شعر آجکل کے دور کيلئے لکھے تھے