Yearly Archives: 2008

یہ دوستی اور تابعداری

منگل 10 جون اور بدھ 11 جون کی درمیانی رات امریکہ کے زیرِ اثر افغانی اور دوسری فوج نے پاکستان کی سرزمین پر مُہمند کے علاقہ چوپارا میں قائم فوجی چوکی پر حملہ کیا ۔ حملہ میں خودکار اور بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا ۔ افغانستان سے 2 ہوائی جہازوں نے پاکستان کی حدود میں داخل ہو کر بہادُو قلعہ اور گولونو قلعہ کے علاقہ پر بمباری بھی کی ۔

اطلاعات کے مطابق ایک میجر [اکبر] سمیت 13 پاکستانی فوجی اس حملہ میں شہید ہوئے اور 40 فوجی لاپتہ ہیں ۔ اس علاقہ میں کل 63 فوجی تھے جن میں سے صرف 10 سے رابطہ ہو سکا ہے ۔

پرویز مشرف کے امریکہ سے یہ ناجائز تعلقات نمعلوم قوم کو کتنا اور نقصان پہنچائیں گے ۔

ڈراؤنی ماں ۔ ایک سبق آموز کہانی

یری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ [cook] تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایاکہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔

گلے روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔

یں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ہمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اعر میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رہے ۔

یں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو درانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔

ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتا یا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا
“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ہے ۔

کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا ۔

اتھاہ محبتوں کے ساتھ
تمہاری ماں”

سورت 17 ۔ الْإِسْرَاء / بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ۔ آیات 23 و 24
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور [اﷲ کے حضور] عرض کرتے رہو ۔ اے میرے رب ۔ ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے [رحمت و شفقت سے] پالا تھا

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث
والدین کو کوسنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے ۔ صحیح البخاری 8 ۔ 4

ماموں مر جائیں

“اللہ کرے ماموں مر جائیں”
یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ دو کمسِن لڑکیوں کے ہیں جو اُنہوں نے اپنی کسی طلب کے نہ پورا ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ پچھلے سال 3 اور 10 جولائی کے درمیان اپنی ماں سے دلی بد دعا کے طور پر کہے تھے ۔

پاکستان کی ہوائی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر جو چکوال کے رہنے والے ہیں اور آجکل اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں سے میری جان پہچان ہے ۔ کئی ماہ بعد 3 جون 2008ء کو میری اُن سے ملاقات ہوئی ۔ اتفاق سے 2 جون کو ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام میرے مطابق میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جمشید گلزار کیانی کا انٹرویو نشر ہوا تھا ۔ اُس پر میرے دوست اظہارِ خیال کر رہے تھے کہ سانحہ جامعہ حفصہ لال مسجد اسلام آباد کا ذکر آ گیا ۔ مجھ سے پوچھنے لگے “آپ کا اس واقعہ کے متعلق کیا خیال ہے ؟” میں نے کہا کہ وہ ایک ظالمانہ فعل تھا جس میں 4 سال سے 17 سال عمر کی سینکڑوں یتیم اور لاوارث بچیاں فاسفورس بم پھینک کر زندہ جلا دی گئیں ۔ پھر اُنہوں نے سوال کیا “کیا اللہ ایسا کرنے والوں کو سزا نہیں دے گا ؟” میں نے کہا کہ اللہ کے ہاں کسی بہتری کی وجہ سے دیر تو ہو سکتی ہے لیکن اندھیر نہیں ۔

وہ کہنے لگے
“پچھلے سال ایک واقعہ چکوال ہمارے خاندان میں ہوا جس کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ اللہ لال مسجد پر حملہ کا حُکم دینے والوں کو عبرتناک سزا دے گا ۔ میرا ایک عزیز ہے اُس کا برادرِ نسبتی [بیوی کا بھائی] فوج میں ہے اور وہ کھاریاں میں تعینات تھا ۔ جب لال مسجد کے خلاف کاروائی شروع ہوئی تو اُسے اس کاروائی میں حصہ لینے کیلئے اسلام آباد بھیج دیا گیا ۔ میرے عزیز کی دونوں کمسِن بیٹیاں 2 اور 10 جولائی 2007ء کے درمیان ہونے والی کاروائی ٹی وی پر دیکھ کر گولیاں اور گولے چلانے والے فوجیوں کو بد دعائیں دے رہی تھیں ۔ اُن کی ماں نے اُنہیں کہا کہ کچھ خیال کرو ۔ تمہارا ایک ہی ماموں ہے وہ بھی ان میں شامل ہے تو دونوں بچیوں نے دعا کیلئے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ اللہ کرے ماموں مر جائیں” ۔

ذہنی ورزش

ایک شخص بھوکا اور پیاسا تھا ۔ وہ کچھ کھانے اور پینے کیلئے تلاش کر رہا تھا کہ کھُلی منڈی میں پہنچ گیا جہاں کئی قسموں کی سبزیاں اور پھل بِک رہے تھے لیکن روٹی یا پینے کی کوئی چیز نہ تھی ۔

بِکنے والی چیزوں میں سے جو بڑی تھیں وہ تو کھُلی پڑی تھیں لیکن چھوٹی چیزیں تھیلیوں میں اتنی مقدار میں ڈالی گئی تھیں کہ ہر چیز کی قیمت پچاس روپے تھی ۔

اُس شخص کے پاس صرف پچاس روپے ہی تھے ۔ وہ شخص کیا چیز خرید کر کھائے کہ اُس کی بھوک اور پیاس دونوں کا کچھ بندوبست ہو جائے ؟

مصالحوں کی ملکہ

اس سے قبل میں قہوہ (چائنیز گرین ٹی) ۔ سؤنف اور سفید زیرہ کے متعلق لکھ چکا ہوں ۔ آج کچھ کالی مرچ کے بارے میں ۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ کھانے میں کالی مرچ [black pepper]چٹخارے یا مہک کیلئے ڈالی جاتی ہے لیکن اس حقیقت سے بہت کم لوگ آشنا ہیں کہ کالی مرچ قدرتی طور پر ملنے والے امرت دھاروں میں سے ایک ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کیلئے پیدا کر رکھے ہیں ۔ کالی مرچ کا طِبّی استعمال ہزارہا سالوں سے انسان کے علم میں ہے جسے آج کا سائنس زدہ انسان پسِ پُشت ڈال چکا ہے ۔ کالی مرچ انسانی جسم کو شیشہ گر دھات [mangnese] ۔ حیاتین ک [vitamin K] ۔ حدید [iron] ۔ ریشہ [fibre] وغیرہ مہیا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

کالی مرچ کے مناسب مقدار میں استعمال سے نظامِ ہضم کی خرابیاں کو دُور ہوتی ہیں اور آنتیں صحتمند رہتی ہیں ۔ کالی مرچ معدے کو برجستہ کرتی ہے جس کے نتیجہ میں خاص قسم نمک کے تیزاب کی مہیا ہوتی ہے جو ہاضمہ میں مدد دیتی ہے ۔ اس تیزاب کی کمی کی وجہ سے کھانا ہضم ہونے میں زیادہ وقت لیتا ہے جس کے نتیجہ میں سینے کی جلن اور تبخیری اثرات مرتب ہوتے ہیں جو نہ صرف تکلیف کا باعث ہوتے ہیں بلکہ شرمندگی کا بھی ۔ ذرا غور کیجئے کہ کالی مرچ کتنی اچھی دوست ہے ۔

کالی مرچ کی جلد میں یہ خصوصیت ہے کہ چربی کے خُلیوں کو توڑتی ہے اور مجتمع نہیں ہونے دیتی ۔ چنانچہ کالی مرچ کے مناسب استعمال سے آدمی موٹاپے کا شکار نہیں ہوتا اور چاک و چوبند رہتا ہے ۔

کالی مرچ کئی ادویات میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔ پیس کر خالص شہد کے ساتھ لی جائے تو زکام کو دور کرنے میں مدد دیتی ہے ۔

جیسا کہ میں سبز اور کالی چائے کے بارے میں لکھ چکا ہوں کالی مرچ کی بھی تمام اقسام ایک جیسا اثر نہیں رکھتیں گو کہ وہ ایک ہی طرح کے پودے سے حاصل کی جاتی ہیں ۔ مزید اس کے تیار کرنے اور سوکھانے کے طریقے بھی اس کی خوائص پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ جو کالی مرچ سیاہ رنگ کی ہوتی ہے وہی بہترین ہے ۔ کالی مرچ خریدتے وقت پنساری سے کہیئے کہ سب سے عمدہ کالی مرچ چاہیئے تو وہ بغیر ملاوٹ والی صحیح کالی مرچ دے گا ۔ اس کی قیمت گو زیادہ ہو گی ۔

چائے کی طرح کالی مرچ بھی مشرقی دنیا کی پیداوار ہے ۔ یہ زیادہ تر انڈونیشیا اور ہندوستان میں پائی جاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جو کالی مرچ استعمال ہوتی ہے وہ سب سے گھٹیا قسم کی ہوتی ہے جس کی وجہ شاید اس کا ارزاں ہونا ہے ۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والی کالی مرچ انڈونیشی مرچ سے قدرے موٹی ہوتی ہے لیکن انڈونیشی کالی مرچ خصوصیات کے لحاظ سے بہترین ہے ۔

واقعی ؟

سُنا ہے کہ ایک اخبار ہے ۔ خبریں ۔ اُس میں خبریں کم اور افواہیں زیادہ ہوتی ہیں ۔ حقیقت اس اخبار کو پڑھنے والے جانتے ہوں گے ۔ مجھے یہ اخبار پڑھنے کا موقع ابھی ہاتھ نہیں لگا ۔ خیر ۔ چھوڑئیے اخبار کو ۔ آمدن بر سرِ مطلب ۔ ۔ ۔

آج صبح کوئی گیارا بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ اُٹھا کر چابی دبائی اور کان کو لگایا
“کوئی خبر سُنی ہے ؟”
“کیا خبر ؟”
“سنا ہے بادشاہ مستعفی ہو گئے اور گرفتار کر لئے گئے”
“نہیں بھائی ۔ مجھے ابھی خبروں کی فرصت نہیں ملی”
“کچھ پتہ تو کیجئے”

اچھا کہہ کر ٹی وی لگایا ۔ جیو ۔ اے آر وائی ۔ آج ۔ ایکسپریس ۔ مگر ایسی کوئی افواہ بھی نہ پائی گئی ۔

پھر دو ٹیلیفون کھڑکا دئیے اور کہا ” شہر میں بادشاہ کی رُخصتی کی افواہ ہے ۔ میاں ۔ کچھ پتہ تو کیجئے ”
آخر بعد دوپہر ایک ٹیلیفون آیا
“اچھا ہو رہا ہے ”
” اُس کیلئے یا ہمارے لئے ؟”
“سب کیلئے”

اس دوران ٹی وی پر تازہ ترین خبر آئی ” چیئرمین سینیٹ ۔ محمد میاں سومرو کو جرمنی سے واپس بُلا لیا گیا ہے

جون 2008ء کا سورج آرمی ہاؤس پر چڑھے گا یا صدر کے کیمپ آفس پر ۔ کون جانے ۔
سمجھ میں آیا ؟ اگر نہیں تو 60 گھنٹے انتظار کیجئے

اچھی حکمتِ عملی

مطالبات کم رکھیئے اور ترجیحات اپنائیے

کوئی چیز یا عمل دسترس سے باہر ہو تو اپنے آپ کو سمجھائیے
“میں اِس کو ترجیح دیتا ہوں لیکن اگر وہ ہو جائے تو بھی ٹھیک ہے”

یہ ذہنی رُحجان اور رویّہ کی تبدیلی ہے جو ذہنی سکون مہیّا کرتی ہے

نتیجہ یہ ہو گا کہ
آپ کی ترجیح ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ شائستگی سے پیش آئیں لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کریں تو آپ کا دن برباد نہیں ہو گا۔
آپ کی ترجیح ہے کہ آج دھوپ نکلے لیکن اگر بارش ہو جائے تو بھی آپ کو کوفت نہیں ہو گی