Yearly Archives: 2008

وقتِ دعا

آج پی سی او ججوں نے نواز شریف کو الیکشن کیلئے نا اہل قرار دے دیا ۔

یہ فیصلہ نواز شریف کے سپورٹروں کیلئے تو بُراہے ہی لیکن اس سے بڑھ کر پورے ملک کیلئے بُرا ہے کیونکہ اس وقت نواز شریف کی جماعت قومی سطح دوسری سب سے بڑی جماعت ہے اور اس جماعت کے ساتھ تمام وکلاء ۔ سِول سوسائٹی ۔ تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی ملک میں انصاف قائم کرنے کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ان باقی گروہوں کی آواز اسمبلی میں اُٹھانے والی جماعت مسلم لیگ نواز ہی ہے اور اعلٰی ترین سیاسی سطح پر انصاف کا مقدمہ نواز شریف ہی لڑ رہا ہے ۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اس فیصلہ کا جھٹکا ان سب گروہوں کو لگے گا ۔

اگر یہ سب گروہ سڑکوں پر نکل آئے تو پھر [خاکم بدہن] ہمارے ملک کا بہت نقصان ہو سکتا ہے ۔ اس لئے دعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اس مسئلہ کو بخیر و خوبی سُلجھا دے ۔

ایک بات جو اس فیصلہ سے کھُل کر سامنے آ گئی ہے یہ ہے کہ پی سی او کا حلف اُٹھانے والے جج قابلِ اعتبار نہیں ہیں ۔

حِکمت

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ درست آدمی یا راستہ کی تلاش میں ہمارا واسطہ غلط قسم کے آدمی سے پڑ جاتا ہے ۔

شاید یہ اس لئے ہوتا ہے کہ جب ہم درست آدمی سے ملیں یا صحیح راستہ کو پا لیں تو ہم اس کی قدر و منزلت کو پہچان سکیں
اور یہ نعمت عطا کرنے والے کا صحیح طور شکر ادا کریں

میری کمزوریوں سے فائدہ

ہفتہ بھر میں بیمار کیا رہا جوانوں نے اُدھم مچا دیا اور دھڑادھڑ ایک دوسرے کو نتھی کرنے لگے ۔ اور مجھے شاید پنساری کی دُکان کا لفافہ یا سرکاری دفتر کا خط سمجھ لیا کہ سب نے نتھی کرنا شروع کر دیا ۔ اتنی گرمی میں میری کمزوری کو دُور کرنے کیلئے بڑا سا میٹھا تربوز بھیجنے کی بجائے 16 جون کو اُردو بلاگ والے قدیر احمد صاحب نے ۔ 17 جون کو ضمیمہ والے عارف انجم صاحب نے ۔ 19 جون کو ابو شامل صاحب نے اور 20 جون 2008ء کو اکرام صاحب نے حُکم صارد کیا کہ میں بچوں کے مندرجہ ذیل کھیل میں ملوّث ہو جاؤں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک صاحب نے اغواء کاروں کی طرح دھمکی دی “پولیس کو مطلع کرنے کی کوشش نہ کیجئے اور خاموشی سے ٹیگنگ کے مطالبات پر عمل کر ڈالئے”۔ اسے کہتے ہیں کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانا

بقول علّامہ اقبال صاحب ۔ “برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ”

قوانین
1 ۔ کھیل کے قوانین جوابات دیتے وقت ارسال کرنا ہوں گے ۔
جِس نے آپ کو اس کھیل سے منسلک کیا ہے، اُسکی تحریر کا حوالہ دینا لازمی ہے ۔2 ۔
3 ۔ سوالات کے آخر میں آپ مزید پانچ لوگوں کو اِس کھیل سے منسلک کریں گے، اور اس کی اطلاع متعلقہ بلاگ پر نئی تحریر میں تبصرہ کر کے دیں گے ۔

سوالات اور جوابات

1 ۔ اِس وقت آپ نے کِس رنگ کی جرابیں پہنی ہوئی ہیں؟
جواب ۔ میں گھر میں جرابیں صرف سردیوں میں پہنتا ہوں

2 ۔کیا آپ اس وقت کچھ سُن رہے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا؟
جواب ۔ جی نہیں ۔ میں اس وقت لکھ رہا ہوں

3 ۔ سب سے آخری چیز جو آپ نے کھائی تھی کیا تھی؟
جواب ۔ جب تک زندہ ہوں کھاتا رہوں گا ۔ آخری کونسی ہو گی صرف اللہ جانتا ہے ۔

4 ۔ سب سے آخری فلم کونسی دیکھی ہے؟
جواب ۔ یاد نہیں ۔ غیر اہم چیز کو پچیس تیس سال یاد رکھنا ضروری نہیں سمجھتا

5 ۔ آپ کا پسندیدہ قول کیا ہے؟
جواب ۔ نیکی کر دریا میں ڈال ۔ اللہ بخشے میرے دادا جان کہا کرتے تھے جن کا انتقال 1955ء میں ہوا

6 ۔ کل رات بارہ بجے آپ کیا کر رہے تھے؟
جواب ۔ کون سے 12 بجے ؟ امریکہ کے ۔ پاکستان کے یا میرے ؟

7 ۔ کِس مشہور شخصیت زندہ یا مردہ سے آپ مِلنا چاہیں گے؟
جواب الف ۔ زندوں میں ۔ ایسے شخص کو ملنا چاہتا ہوں جو اتنا خود دار ہو کہ ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق بلاتأمل کہہ دے ۔
ایک طالب عِلم ذہن میں آ رہا ہے جس نے مئی 2006ء کو کنوینشن سینٹر اسلام آباد میں قوم کو خودی کا راستہ دکھایا تھا ۔ جامعہ علوم الاسلامیہ العالمیہ ۔ بنوری ٹاؤن ۔ کراچی کا طالبعلم سیّد عدنان کاکاخیل ۔
اس کے بعد 18جون 2008ء کو اسلام آباد کے جلسہ تقسیم اسناد میں ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم سرمد خُرم نے ایک بار پھر خودی کی مشعل جلائی ہے ۔ اللہ کرے اب تیزی سے مشعل سے مشعل جلتی جائے اور خودی کا ایک کارواں بن جائے ۔

جواب ب ۔ مُردوں میں ۔ دعا ہے اور سب قارئین سے بھی دعا کی استدعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری خطائیں معاف کر کے مجھے جنّت میں جگہ دے دے تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا دیدار نصیب ہو جائے اور پھر اسی وجہ سے اپنی والدہ کا بھی ۔

8 ۔ غصہ میں اپنے آپ کو پُرسکون کِس طرح کرتے ہیں؟
جواب ۔ غُصہ ہی تو ہے جو مجھے آتا نہیں اور اگر کبھی آ جائے تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھتا ہوں

9 ۔ فون پر سب سے آخر میں کِس سے بات ہوئی؟
جواب ۔ کسی بہن بھائی سے ہوئی ہو گی

10 ۔ آپ کا پسندیدہ تہوار کونسا ہے؟
جواب ۔ جس دن مجھے سب چہرے حقیقی بشاش نظر آئیں ۔
یا اللہ ۔ میری زندگی میں وہ گُمشدہ دن پھر لوٹ آئے ۔

11 ۔ حسب قواعد میں نتھی کرتا ہوں‌ ان بلاگرز کو ۔
جو بلاگرز ابھی تک نتھی نہیں کئے گئے اُن سے التماس ہے کہ کم ازکم 5 اپنے آپ کو یہاں نتھی کر کے ممنون فرمائیں ۔ مجھے کسی کی ذرا سی دل آزاری بھی قبول نہیں اسلئے میں نے کسی کو نتھی نہیں کیا ۔

نعرہ اور عمل

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ چند صدیاں قبل نعرہ کسی شخص ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم کی شناخت ہوا کرتی تھی ۔ اپنے اس نعرے یا قول کی خاطر فرد ۔ خاندان ۔ گروہ یا قوم اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے مگر یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کوئی کہے “نعرہ کچھ ہے اور عمل کچھ اور”۔ نعرے اب بھی ہیں اور پرانے وقتوں کی طرح حِلم سے نہیں بلکہ ببانگِ دُہل لگائے جاتے ہیں مگر اب ان نعروں کا مقصد عام طور پر اپنے گھناؤنے عمل پر پرہ ڈالنا ہوتا ہے ۔

دورِ حاضر میں نان نہاد ترقی یافتہ دنیا کے سب سے بڑے نعرے ” امن” اور “انسان کی خدمت” ہیں جبکہ یہ نعرے لگانے والوں کے عمل سے ان کا نصب العین دنیا میں دہشتگری اور اپنی مطلق العنانی قائم کرنا ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن ہمیں غیروں سے کیا وہ ہمارے سجّن تو نہیں ہوسکتے ۔

آج ہماری قوم کی حالت یہ ہے کہ اللہ کی آیتوں کی بجائے شاعروں کے شعروں پر شاید زیادہ یقین ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ تْجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ۔ اسلئے کسی سے کُچھ کہا جائے تو وہ یہی جواب دیتا ہے ۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی نعروں کی ۔ افواجِ پاکستان یعنی مملکتِ خداد داد پاکستان کی فوج کا نعرہ ہے
ایمان ۔ تقوٰی اور جہاد فی سبیل اللہ

میں جب وطنِ عزیز میں کسی فوجی علاقہ کے سامنے سے گذرتے ہوئے یہ نعرہ لکھا پڑھتا تھا تو سوچا کرتا تھا کہ جس نعرے پر عمل نہیں کر سکتے وہ لکھا کیوں ہے ؟ لیکن پچھلے دو سال سے تو عمل اس نعرے کے بالکل خلاف ہے جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ کبھی باجوڑ کے قصبہ ڈماڈولا کے دینی مدرسے کے درجنوں معصوم کم عمر طالب علموں کی لاشیں نظر آکر تڑپاتی ہیں اور کبھی جامعہ حفصہ میں گولیوں اور گولوں سے ہلاک کی جانے والی اور سفید فاسفورس کے گولوں سے زندہ جلائی جانے والی 4 سال سے 17 سال کی سینکڑوں معصوم ۔ یتیم یا لاوارث طالبات کی یاد پریشان کرتی ہے ۔ تو کبھی اپنے وطن میں چلتے پھرتے یا گھر سے اُٹھا کر غائب کئے گئے ہموطنوں کی ماؤں کے نہ رُکنے والے آنسو اور ان کے بلکتے بچوں کے اُداس سپاٹ چہرے خُون کے آنسو رُلاتے ہیں ۔ کہیں بلوچستان آپریشن ہے تو کہیں سوات مالاکنڈ آپریشن ۔

سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے فوجی جرنیلوں کو دین اور وطن سے کوئی محبت نہیں تو وہ یہ نعرہ ختم کیوں نہیں کر دیتے ۔ کیا اُنہیں احساس ہے کہ یہ نعرہ لکھ کر اور پھر اس کی خلاف ورزی کر کے وہ دوہرے جُرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ؟

خوش کیسے رہیں ؟

خوش رہنے کے لئے ضروری ہے کہ یا تو ہم ساری دنیا کو تبدیل کر دیں یا ہم اپنی سوچ بدل دیں

دنیا کو تو کوئی بدل نہیں سکتا اس لئے ہمیں اپنے آپ کو درست رکھتے ہوئے یہ توقع چھوڑ دینا چاہیئے

مختصر یہ کہ مسئلہ متنازعہ نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ حل کرنے کا رویّہ متنازعہ ہوتا ہے

خوشی کا تعیّن اس سے نہیں ہوتا کہ کسی کے ساتھ کیا ہوا بلکہ اِس سوچ سے ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا

فَن اور فنکار ؟ ؟ ؟

وطنِ عزیز میں ہر طرف ہر جگہ فَن کا مظاہرہ نظر آتا ہے ۔ جسے دیکھو اپنے تئیں فنکار بنا پھرتا ہے ۔ صدر ہو ۔ وزیر ہو ۔ صحافی ہو یا مداری ایک سے ایک بڑھ کر فنکار ہے ۔ لیکن میں اُن چھوٹے چھوٹے لوگوں کی فن کاری کی بات کروں گا جن کا کوئی نام نہیں لیکن وہ اپنے فن پارے سے لمحہ بھر کیلئے بہت سے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں ۔

اسلام آباد اور کوہ مری کے درمیان چھَرا پانی کے قریب ایک چھوٹی سی دُکان پر جلی حروف میں لکھا ہے ۔

شاہ جی انڈے شاپ

سڑکوں پر گومتی بسوں ۔ ویگنوں ۔ ٹرکوں پر بھی بہت سے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے ۔ ان فنکاروں میں کبھی کبھی کوئی حقیقت پسند بھی نظر آ جاتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ایک شعر ۔

ہر اِک موڑ پر ملتے ہیں ہمدرد مجھے
لگتا ہے میرے شہر میں اداکار بہت ہیں

ہمارے مُلک میں ادا کاروں کی واقعی بہتات ہے ۔ اور کیوں نہ ہو اس مُلک میں جس کا صدر سب سے بڑا اداکار ہے ۔

فن کا ایک اچھوتا مظاہرہ نتھیا گلی کے خُنکی آمیز پہاڑوں پر نظر آتا ہے ۔ نتھیا گلی کے بلند ترین حصے میں ایک ہوٹل کے باغیچہ میں داخل ہوتے ہی پھولوں کی کیاری کے قریب لکھا نظر آتا ہے

آپ کی خوشی اور تفریح طبع کی خاطر ہم نے اپنا بہت سا وقت ۔ محنت اور دولت لگا کر یہ پھُول اُگائے ہیں
آپ خیال رکھیئے اُن زائرین کا جنہوں نے یہاں آ کر ابھی یہ پھُول نہیں دیکھے

آگے بڑھیں تو باغیچہ کے دوسرے سرے پر پھولوں کی کیاریوں کے قریب یہ تحریر نظر آتی ہے

پھُول توڑنا منع ہے ۔ جس نے پھُول توڑا اُسے ایف بی آئی کے حوالہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اُسے دہشتگرد قرار دے کر سزا دے دے

:lol: