گذشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو بھارت کے تجارتی شہر ممبئی میں شاید 1947ء کے مسلمانوں کے قتلِ عام جس میں لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا کے بعد سب سے بڑاہلاکت خیز واقعہ ہوا ۔ اس میں 195 لوگ مارے گئے جن میں سے 80 مسلمان تھے ۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی تحقیق یا تفتیش کے پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ لیکن انسان چاہے کتنا ہی شاطر ہو سچائی چھپانا ممکن نہیں ۔ زود یا بدیر سچ سامنے آ ہی جاتا ہے اور اس سلسلہ میں دس دن کے اندر ہی سچ کا تمانچہ بھارت کے منہ پر آ پڑا جو 6 اور 7 دسمبر کے اخبارات کی زینت بنا ۔ حاصل ہونے والے شواہد نے ثابت کر دیا کہ یہ ڈرامہ بھارت کا اندرونی ہے ۔ اور ہو سکتا ہے کہ خفیہ والوں نے کسی خاص بڑے مقصد کیلئے کھیلا ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ دھیان اس طرف بھی جاتا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں کشمیر میں کتنا بھیانک کھیل کھیلا جا رہا ہے
خبر یہ ہے کہ جو موبائل فون ممبئی میں دہشتگردوں نے استعمال کئے ان کی تشخیص کی مدد سے بھارتی پولیس متعلقہ موبائل فون کارڈ [Subscriber Identity Module – SIM] خریدنے والوں تک پہنچی اور انہوں نے کولکتہ میں دو آدمیوں کو گرفتار کیا جن کے نام توصیف رحمان اور مختار احمد ہیں ۔
مقبوضہ کشمیر کے ایک اعلٰی پولیس افسر نے کولکتہ کی پولیس سے کہا ہے کہ “مختار احمد ہمارا آدمی ہے ۔ وہ ایک نیم سرکاری دہشتگری مخالف تنظیم کا اہلکار ہے اس لئے اُسے رہا کر دیا جائے” ۔
دوسری طرف ہمارے حُکمرانوں کا حال یہ ہے امریکہ اور بھارت کی خواہش پوری کرنے کیلئے پہلے قبائلی علاقہ میں ہموطنوں کا خون کیا جا رہا تھا اب یہ سلسلہ آزاد جموں کشمیر تک بڑھا دیا گیا ہے اور شُنِید ہے کہ پورے پاکستان میں ان لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے گی
بھارتی حکومت کی دیدہ دلیری اور بے شرمی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ ان کا وزیر پرناب مکھرجی پاکستانی صدر کو دھمکی انگیز فون کال کر کے مکر گیا۔ اس کا ثبوت یہ اخبار میں آنے والی خبر ہے:
urdu news about pranab mukherjee
اخباری خبروں کی حد تک تو اسطرح کی تھیوریز آتی جاتی رہیں گی۔ حکومت ہند، حکومت پاکستان اور سلطنت امریکا کا مشترکہ موقف اور پاکستان کا آفیشل رد عمل یہی ہے کہ ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث ہے ۔ امریکہ اور پاکستان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نہیں بلکہ غیر ریاستی عناصر جیسے لشکر طیبہ ملوث ہے اور پاکستان کا لشکر طیبہ کے خلاف کریک ڈاؤن اسی دعوی کی تقویت۔ ساری دنیا اسی کی قائل ہے باقی سب کی مرضی جو جیسی رائے رکھنا چاہے۔
راشد کامران صاحب
حقائق جن کو ذاتیات کی بنا پر دھندلا دیا گیا ہے کچھ اس طرح ہیں
لشکرِ طیّبہ پاکستان میں نہ تھا نہ ہے ۔ لشکرِ طیبہ مقبوضہ جموں کشمیر میں بنی اور وہیں کی مقامی جماعت ہے اور اپنی غاصبانہ غلامی سے نجات کیلئے بھارتی فوج سے بر سرِ پیکار ہے ۔ یہ لوگ براہِ راست عام شہریوں کو ہلاک نہیں کرتے ۔
بھارتی حکومت نہ صرف اس جماعت بلکہ اس سے ہمدردی رکھنے والے ہر شخص کو ہلاک کرنا چاہتی ہے ۔ بھارت اور امریکہ صرف لشکرِ طیّبہ ہی نہیں ہر باعمل مسلمان کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ بدقستمی سے ہمارے حکمران نام کے تو مسلمان ہیں لیکن کرتوت کافروں سے بڑھ کر ہیں ۔ اسلئے وہ صرف اپنی خاطر قوم کو قربان کرنے کے راستے پر چل رہے ہیں
جس جماعت کا سربراہ حافظ محمد سعید ہے وہ جماعت الدعوہ ہے ۔ یہ عسکری جماعت نہیں ہے بلکہ فلاحی جماعت ہے ۔ یہ وہ جماعت ہے جس کے ارکان نے 1985 کے زلزلہ کے بعد امدادی سامان اپنے کندھوں پر اُٹھا کر کئی کئی میل پیدل چل کر متاثرین زلزلہ تک پہنچایا ۔ امریکہ سے جو امدادی سامان آیا تو امریکی اتھارٹی کے حکم کے مطابق وہ ریڈ کراس یا ہلالِ احمر ۔ حکومتِ پاکستان یا کسی اور ادارے کو دینے کی بجائے امریکیوں نے اسی جماعت الدعوہ کے حوالے کیا تھا تاکہ حقداروں تک پہنچ سکے ۔میں ایسی کسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا لیکن
گرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مُجھے ہے حُکمِ اذاں لَا اِلَہَ اِلّاَللہ