حقائق پر مبنی تحریر جو مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے ایک تازیانے سے کم نہیں
ممبئی میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے بعد بھارت کی ایما پر امریکہ نے پاکستان کو بغیر کوئی عذر دیئے اپنی کٹھ پتلی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ذریعے جماعت الدعوة اور دو دوسری پاکستانی رفاہی اور دینی تنظیموں کو دہشتگردقرار دے دیا جبکہ ان تنظیموں سے منسلک کچھ افراد کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا ۔ اقوام متحدہ کی اس کارروائی کے ساتھ ہی حکومت پاکستان نے ان تنظیموں بالخصوص جماعت الدعوة کے دفاتر کو ملک بھر اور آزادجموں کشمیر میں مقفل کر دیا اور اس کے کئی عہدیداروں اور رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیا یا گرفتار کرلیا اور ان کے بنک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیئے گئے۔
ہمارے صدر، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکار بار ہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک بھارت نے ہمیں ممبئی دہشتگردی کے حوالے سے ایسے شواہد فراہم نہیں کئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پاکستان کی کوئی تنظیم ان واقعات میں ملوث ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایسے شواہد پیش کئے گئے۔ لیکن ہم نے بغیر کوئی ثبوت دیکھے جماعت الدعوة جو پاکستان بھر میں اپنے رفاہی کاموں کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتی ہے اور جس نے خاص طور پر زلزلہ زدہ علاقوں بشمول آزادکشمیر، بالاکوٹ، مانسہرہ اور بلوچستان میں کافی کام کیا ہے اس طرح دھاوا بول دیا جیسے ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔ ہمارے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان جماعت الدعوة کے خلاف ایکشن نہ لیتی تو خطرہ تھا کہ پاکستان کو ہی دہشتگرد ملک قرار دے دیا جاتا۔ کیا جناب احمد مختار ضمانت دے سکتے ہیں کہ اب پاکستان کو دہشتگرد ممالک میں فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
بغیر کسی منطق اور جواز کے ہم کتنی آسانی سے ہر بیرونی حُکم کی بجا آواری کرتے جا رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد پہلے ہی ہم نے اپنی قومی عزتِ نفس کو تار تار کرتے ہوئے امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر ڈالا خواہ وہ قانونی تھا یا غیر قانونی خواہ وہ پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کے مترادف تھا یا کہ نہیں اور اب ہم ماضی سے کچھ سبق سیکھے بغیر سب کچھ بھارت کے لئے کرنے پر تیار ہیں۔یہ سب کرنے کے باوجود امریکہ ہم سے آج تک خوش نہیں ہوا جبکہ بھارت نے ابھی سے do more-do more کی رٹ لگا رکھی ہے۔ اگر سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو نجانے ہمارا کل کیسا ہو گا۔ پہلے ہی امریکہ کی نظر میں پاکستان دنیا بھر کے لئے دہشت گردوں کا ٹھکانہ ہے۔ آج بھارت بھی امریکہ کی زبان بولتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز [epicentre] گردانتا ہے۔ بیرونی قوتوں کے کہنے پر اگر ہم آج اپنی تنظیموں اور اپنے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کریں گے تو کیا اس سے ہم آنے والے خطرات سے جان چھڑا پائیں گے۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کا اصل نشانہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے، کیا ہم بھول گئے کہ یہی ممالک ہمارے ملک کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف انتہائی سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں اور اب بھی لگا رہے ہیں تا کہ ان اداروں کو کمزور کر کے اس ملک میں انتشار کی صورتحال پیدا کی جائے جس سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بیرونی قبضے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اپنی نااہلی اور بزدلی کی وجہ سے یقیناً ہم اپنے ملک کو دشمن قوتوں کے پھیلائے گئے جال میں آہستہ آستہ پھنسا رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی امریکہ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کی عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شہادت پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ اس ریاستی دہشت گردی پر تو اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جبکہ تمام اسلامی ممالک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اتحاد و یگانگت سے بیگانہ سب ایک دوسرے کی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی بھارت سے نہیں پوچھتا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیونکر جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لینے کے باوجود ابھی بھی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ مگر اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں بند ہیں اور ان کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔
ہم زبان سے تو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں اور اسی سے ڈرنے کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارے دلوں میں امریکہ کا خوف اور ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم دنیا کو اور حتٰی کہ اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو امریکہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آج ہم اپنے مذہب کے متعلق اس حد تک معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے ہم اپنی مسلمانیت کو اس طرح پیش کرنے کے جتن کر رہے ہیں جس سے امریکہ ہم سے خوش ہو جائے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی میرے اللہ کا وعدہ ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی کتاب قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں تو اپنے رب کے واضح احکامات کے باوجود ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ کافر اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست اور خیرخواہ ہو سکتے ہیں۔ ہم جو یہود و نصاریٰ کو راضی کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان بھول گئے جس کا مفہوم ہے یہ [یہودونصاریٰ اور کفار] تم [مسلمانوں] سے اس وقت راضی ہوں گے جب تم اپنے دین پر اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے یعنی کہ دین اسلام کو چھوڑ دو گے۔ کیا ہم قرآن کی اس بات کو بھول سکتے ہیں کہ ان [یہودونصاریٰ اور کفار] کی زبانوں سے کہیں زیادہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض چھپا ہوا ہے۔
دین اسلام کی نظر میں جو ہمارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو ہمارے بدترین دشمن ہیں انہی کو ہم نے اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے اور ان کے ہر حکم پر اپنا سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو مغضوب [ہمیشہ غضب میں رہنے والی] اور بھٹکے ہوئے کہا ہم آج کے مسلمان ان کی پیروی پر لگے ہوئے ہیں۔ کل افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف جنگ کو جہاد اور اس میں حصہ لینے والوں کو مجاہدین کہنے والوں نے آج افغانستان میں قابض امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف برسرپیکار طالبان کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے دیا اور ہم مسلمان بھی انہی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جہاد چاہے وہ افغانستان، کشمیر یا عراق میں ہو اس کو ہم نے دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔ ان حالات میں مسلمان کے مقدر میں ذلت اور رسوائی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
انصار عباسی نے جنگ کیلئے لکھا اور 15 دسمبر 2008ء کو شائع ہوا
حضرت فونٹ تبدیل کریں سونے پر سہاگہ ہوجائےگا
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
یا اللہ!
نااہل اور عوام کی دکھ درد کی فکر نہ کرنے والےمسلم حکمرانوں کو ھدایت کی توفیق عطافرما! اگر پھر بھی وہ لوگ باز نہ آئیں تو انکو پچھلی قوموں کی طرح پوری سزادے۔
آمین۔
انصار عباسی بھی انہی پاکستانی صحافیوں میں سے ہے جو دو دہائیوں سے کسی غار میں سو رہے تھے اور ابھی جاگے ہیں۔ شاید اسی لئے اس بیجارے کو علم نہ ہو سکا کہ حافظ سعید اور جماعت الدعوہ کیا ہیں۔
زکریا بیٹے
کسی ملک میں عمریں گذارنے والے لوگ اُس مُلک کے لوگوں اور اداروں کے متعلق بہتر جانتے ہیں ۔ اگر جماعت الدعوہ کے کارکن دہشتگرد ہیں تو اکتوبر 2005ء میں امریکی اہلکاروں نے امدادی سامان متاءثرین میں تقسیم کی خاطر کسی اور کو دینے کی بجائے جماعت الدعوہ کے کارکنوں کو کیوں دیا تھا ؟
دو دہائیاں پہلے تو انصار عباسی صحافی ہی نہیں بنا ہو گا، اتنا بوڑھا تو نہیں بچارہ :smile:
فیصل صاحب
میں انصار عباسی کے نام سے پرویز مشرف کے دور ہی میں واقف ہوا تھا